خیبر پختونخوا کی سینیٹ کی گیارہ خالی نشستوں کیلئے پولنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ایوانِ بالا میں پاکستان پیپلز پارٹی عددی اعتبار سے ایوانِ بالا کی سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے اور وفاق میں برسر اقتدار پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا اتحاد سینیٹ میں بھی دو تہائی اکثریت کے قریب پہنچ گیا ہے۔ مخصوص نشستوں کا فیصلہ آنے سے قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کو پہلے ہی دو تہائی اکثریت حاصل ہو چکی ہے۔
تحریک انصاف کی پُراسرار پالیسی کے تحت جو فارمولا ذاتی مفادات کے پیش نظر تیار کیا گیا تھا‘ وہ مذاکرات ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہاں بجا طور پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب صوبائی سطح پر فریقین مذاکرات کر کے اپنے مفادات کے مطابق ایک فارمولے پر متفق ہو جاتے اور سینیٹ کی نشستیں بھی حاصل کر لیتے ہیں تو وفاق کی سطح پر مذاکرات کر کے ملک میں امن وامان اور معاشی ترقی کے لیے یکجا ہونے میں کیا امر مانع ہے؟ شنید ہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی ذاتی دلچسپی کی بنا پر وفاقی حکومت نے مذاکرات کیے اور پھر فریقین میں ایک معاہدہ طے پایا جس کے مطابق تحریک انصاف سینیٹ کی ایک نشست اپوزیشن کو دینے پر رضامند ہو گئی۔ تحریک انصاف اگر معاہدہ نہ کرتی اور آزادانہ ماحول میں سینیٹ کے انتخاب ہوتے تو تحریک انصاف 93 ارکان کی بدولت سینیٹ میں آٹھ نشستیں حاصل کر سکتی تھی۔ مارچ 2024ء میں بھی سینیٹ الیکشن کے موقع پر اسی طرح کا معاہدہ کر کے تحریک انصاف نے دو نشستوں پر اکتفا کیا تھا جبکہ عددی اعتبار سے اسے تین نشستیں مل سکتی تھیں۔
تحریک انصاف کے بانی ہر گروپ کی حمایت ایسے انداز میں کرتے رہے جس سے پارٹی انتشار کا شکار ہوتی چلی گئی۔ ہر گروپ اپنی مرضی ومنشا کے احکامات حاصل کر لیتا اور بعد ازاں اراکین آپس میں دست وگریبان ہوتے رہتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے حالیہ سیاسی ماحول کو مدنظر رکھیں تو نظر آ رہا ہے کہ وزیراعلیٰ گنڈاپور نے اپنی راہیں جدا کر لی ہیں اور وہ بانی تحریک انصاف کے اثر سے نکل چکے ہیں۔ اس وقت اسمبلی میں ان کی پوزیشن مضبوط ہے۔ وفاقی حکومت کا بھی انہوں نے اعتماد حاصل کر رکھا ہے اور مقتدر حلقے بھی ان سے مطمئن نظر آتے ہیں کہ انہوں نے بانی تحریک انصاف کی جارحانہ پالیسیوں کو بے اثر کر دیا ہے۔
سینیٹ الیکشن سے قبل کے پی کے صوبائی اسمبلی کا اجلاس اور گورنر کی جانب سے مخصوص نشستوں پراراکین سے حلف لینے کا معاملہ بھی وجۂ تنازع بنا رہا۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے گورنر کی جانب سے حلف لینے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف پٹیشن دائر کرنے کا اعلان کیا۔ دراصل صوبائی اسمبلی کے سپیکر نے کورم کا سہارا لیتے ہوئے اجلاس 24 جولائی تک ملتوی کر دیا تھا۔ سینیٹ کا الیکشن آئینی اور قانونی طور پر ایک سال قبل‘ یعنی 2 اپریل 2024ء تک ہو جانا چاہیے تھا لیکن مخصوص نشستوں کے قضیے کی وجہ سے سینیٹ کی ان گیارہ نشستوں پر الیکشن کا انعقاد نہ ہو سکا۔ وزیراعلیٰ گنڈاپور کا کہنا تھا کہ پشاور ہائیکورٹ نے آئین کے آرٹیکل 255 کا سہارا لیا مگر یہ ناقابلِ عمل حالات یا وجوہات موجود نہیں تھیں کیونکہ صوبائی اسمبلی کے سپیکر نے حلف لینے سے انکار نہیں کیا تھا۔
اب آئیے آئین کے آرٹیکل 255 کی طرف! یہ آئین کا ایک اہم آرٹیکل ہے۔ اپریل 2022ء میں جب گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے حمزہ شہباز سے پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حلف لینے سے انکار کر دیا تو سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 255 کے تحت قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف کو نامزد کیا تھا اور انہوں نے حمزہ شہباز سے حلف لیا۔ اسی طرح جولائی 2022ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی آئینی تھیوری کے تحت پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے تو سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 255 کے تحت صدرِ مملکت عارف علوی کو حکم دیا کہ وہ ان سے حلف لیں کیونکہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے ان سے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔ ایسے ناگزیر حالات میں آئین کے آرٹیکل 255 کی وجہ ہی سے پارلیمانی نظام چلتا رہا جبکہ یہ حقیقت ہے کہ 20 جولائی کو ایسی کوئی صورتحال درپیش نہیں تھی۔ سپیکر نے حلف لینے سے انکار نہیں کیا تھا بلکہ کورم پورا نہ ہونے کی بنا پر محض اجلاس ہی مؤخر کیا تھا۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے پشاور ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کرنے کے بعد سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے بھی الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس نے پارلیمانی نظام کو معطل کر دیا ہے‘ منتخب اراکین کی حلف برداری کو کسی ادارے کے ذریعے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کو خط لکھ کر آئین کے آرٹیکل 65‘ 127 اور 255 کے حوالے سے وضاحت مانگی ہے۔ بہرحال اب الیکشن ہو چکے اور دونوں فریق رضامند ہیں لہٰذا چند ہفتوں تک یہ ساری گرد بیٹھ جائے گی۔
قومی اسمبلی اور ایوانِ بالا میں دو تہائی کی اکثریت حاصل کرنے کے بعد اب حکمران اتحاد کو ملکی مشکلات کا ازالہ کرنے اور کرپشن کے سیلاب کو روکنے کیلئے اپنی توانائیوں کو صرف کرنا چاہیے۔ پاکستان کے قرضے اور واجبات 90 ہزار ارب روپے سے بڑھ گئے ہیں۔ سالانہ آٹھ سے دس ہزار ارب سود ادا کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ سیلاب نے حکومت کے تمام دعوئوں کی قلعی کھول دی ہے۔ اسلام آباد میں اربوں روپے کی لاگت سے تعمیر کردہ انڈرپاس اور فلائی اوور کے منصوبے ایک بارش بھی برداشت نہیں کر سکے۔ ملک میں لاقانونیت کا بول بالا ہے۔ بلوچستان کے حالیہ دردناک واقعے سے ثابت ہو گیا ہے کہ نظام کا سارا زور غریب غربا کے لیے ہے‘ اشرافیہ اس سے قطعی طور پر محفوظ ہے۔ موجودہ سیاسی و معاشی حالات اور اشرافیہ کی اصلاح کے لیے ہمیں 1949ء کی طرف لوٹنا ہو گا جب قائداعظم کے آئین ساز اسمبلی سے 11 اگست 1947ء کے خطاب کی روشنی میں کرپٹ عناصر کی سرکوبی کے لیے احتساب کا 'پروڈا‘ قانون نافذ کیا گیا اور جس کا اطلاق 1947ء سے کیا گیا۔ اس قانون کے تحت سندھ کے وزیراعلیٰ ایوب کھوڑو‘ قاضی فضل اللہ‘ (اور اگر میں غلطی نہ کروں تو) عبدالستار پیرزادہ اور جی ایم سید کو نااہل قرار دیا گیا تھا۔ اکتوبر 1958ء کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ایوب خان نے پروڈا کے ذریعے ملک کے اُن سیاستدانوں کو‘ جو 1951ء سے کسی نہ کسی صورت حکمرانی کرتے رہے‘ دس دس سال کے لیے نااہل قرار دیا۔ ان میں حسین شہید سہروردی‘ مخدوم زادہ حسن محمود‘ میاں ممتاز دولتانہ اور مشرقی اور مغربی پاکستان کی دیگر اہم شخصیات شامل تھیں۔ ان کی عدم موجودگی میں ملک میں امن وامان اور ہم آہنگی کو فروغ ملا اور ملک معاشی طور پر ترقی کرتے ہوئے اپنے پانچ سالہ منصوبوں سے جنوبی کوریا‘ ملائیشیا‘ انڈونیشیا اور جرمنی جیسے ملکوں کے لیے ایک مثال بنا ہوا تھا۔
1996ء میں کرپشن الزامات پر بینظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کے بعد صدر فاروق لغاری نے 90 روز میں انتخابات کیلئے ارشاد حقانی اور وزیر قانون فخر الدین جی ابراہیم کی مدد سے ایک فارمولا تیار کیا‘ جس کے تحت1985ء سے احتساب کرتے ہوئے جس سیاستدان نے بھی قرضہ معاف کرایا‘ اس کو نااہل قرار دینے کا قانونی بل پاس کیا تھا لیکن میاں محمد شریف نے عابدہ حسین کے ذریعے صدر لغاری کو آئندہ پانچ سالہ صدارت کا چکما دے کر یہ قانون واپس کرا دیا۔ جب قانون واپس لینے کیلئے کابینہ کے سامنے تجویز گئی تو وزیر قانون فخر الدین جی ابراہیم نے استعفیٰ دے دیا البتہ ملک معراج خالد نے اس کی منظوری دے دی۔ اگر صدر لغاری کا فارمولا کامیاب ہو جاتا تو موجودہ بیشتر سیاسی قیادت کا دسمبر 1996ء ہی میں صفایا ہو جاتا۔ آج پاکستان کو عظیم فلاحی ملک بنانے کیلئے1949ء‘ 1958ء' اور 1996ء کے احتسابی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔