آج ہماری زندگی میں موبائل فون اور ٹی وی چینلز کا عمل دخل اِس قدر بڑھ چُکا ہے کہ یاد بھی نہیں کہ جب یہ سب کچھ نہیں تھا تو ہم رابطے میں کس طرح رہتے تھے اور پرائم ٹائم کس طور گزارا کرتے تھے۔ بس کچھ ایسا ہی معاملہ کوکنگ شوز اور بالخصوص زبیدہ آپا کا بھی ہے۔ ذہن پر لاکھ زور ڈالیے مگر یاد نہیں آتا کہ جب ٹی وی چینلز کی معرفت وہ ہماری زندگی میں وارد نہیں ہوئی تھیں تب خواتین کھانا پکانے کی تراکیب کہاں سے سیکھتی تھیں اور چھوٹی موٹی اُلجھنوں سے نجات پانے کے تیر بہ ہدف ٹوٹکے کہاں سے حاصل کیا کرتی تھیں۔ زبیدہ آپا کی صلاحیت اور لیاقت سے کِس کو انکار ہوسکتا ہے؟ کِس کی مجال ہے کہ اُن کے بارے میں کوئی ایسی ویسی رائے دے کر اپنی اہلیہ کی ناراضی مول لے؟ ہم بھی اُن کے قدر دان ہیں مگر ساتھ ہی وضاحت بھی کئے دیتے ہیں کہ ہم اُن کے سَگے نہیں بلکہ سوتیلے پرستار ہیں۔ سوتیلے اِس لیے کہ جب سے زبیدہ آپا نے ٹی وی پر طرح طرح کے کھانے تیار کرنا سِکھایا ہے، ہم اپنے آپ کو چوہا سمجھنے لگے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جس طرح نئی ادویہ کے تجربے چوہوں پر کئے جاتے ہیں بالکل اُسی طرح جب بھی اُن کی بتائی ہوئی ترکیب کے مطابق گھر میں کوئی ڈِش تیار کی جاتی ہے تو تجربے کے طور پر ہمیں کِھلائی جاتی ہے۔ ہماری اولوالعزمی اور استقامت (یعنی ڈِھٹائی) ملاحظہ فرمائیے کہ دَسیوں، بلکہ بیسیوں تجربات سے گزر کر بھی زندہ ہیں۔ زبیدہ آپا سے ہمیں ایک نمایاں شکایت یہ ہے کہ جب اُن کا پروگرام چل رہا ہوتا ہے تو ہم کوئی اور چینل دیکھنے سے یکسر محروم رہتے ہیں۔ چینل بدل کر ہم گھر کے ماحول کو تو خراب نہیں کرسکتے نا۔ ہم خبریں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر چینل تبدیل کرنے کی بات کریں تو اہلیہ کہتی ہیں کہ بس! ذرا آلو گَل جائیں تو آپ نیوز چینل پر چلے جائیے گا۔ ساتھ ہی ارشاد ہوتا ہے کہ آلو دس منٹ میں گلیں گے۔ اب ہم کِس طرح سمجھائیں کہ اِتنی دیر میں تو اسلام آباد میں بہت کچھ گل سَڑ جائے گا۔ تو جناب! دل چاہے یا نہ چاہے، خاتونِ خانہ کی مرضی کے مطابق کوکنگ شو میں چولھے پر رکھی ہوئی پتیلی نِہارتے رہیے۔ آلوؤں کے گلنے کا تماشا ختم ہونے پر کوئی نیوز چینل لگائیے تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے باہر کِھچڑی پکی بھی اور یاروں نے چٹ بھی کرلی۔ یا پھر یہ کہ آپ تو ٹی وی سکرین پر دال میں لگائے جانے والے تڑکے کا نظارہ کرتے رہے اور اُدھر جوتوں میں دال بٹ گئی۔ سُنا ہے ایک جادوگر یعنی شعبدہ باز ایسا بھی تھا جو اپنے شو میں بالعموم پندرہ بیس منٹ کی تاخیر سے پہنچتا تھا اور پھر ہال میں حاضرین کے سامنے دعویٰ کرتا تھا کہ وہ مقررہ وقت پر آیا ہے۔ لوگ حیران ہوتے تھے تو وہ اُن سے کہتا تھا کہ گھڑی دیکھیں۔ سب اپنی اپنی گھڑیاں دیکھتے تو حیران رہ جاتے‘ کیونکہ گھڑیاں پندرہ بیس منٹ پیچھے جاچکی ہوتی تھیں۔ یعنی آتے ہی سب کی گھڑیاں پیچھے کرنا جادوگر کا پہلا آئٹم ہوا کرتا تھا۔ زبیدہ آپا کا پہلا آئٹم یہ ہے کہ جب اِن کا کوکنگ شو شروع ہوتا ہے تو خواتین چینل بدلنے کی اجازت نہیں دیتیں۔ زبیدہ آپا کی مہربانی ہے کہ خواتین جو آلو گوشت، دال گوشت، چکن کڑھائی، مٹن کڑھائی، بیف بریانی اور دیگر ڈِشیں ایک زمانے سے پکاتی اور اُن پر داد وصول کرتی آئی ہیں اُنہیں نئے سِرے سے سیکھتی ہیں تاکہ سَند رہے۔ آپ نے اکثر سوچا ہوگا کہ ملک میں دانش ہے نہ نظم و ضبط۔ عام آدمی میں برائے نام بھی شعور نہیں۔ تعلیمی ادارے بچوں کو بہتر زندگی کے لیے کچھ دے ہی نہیں پا رہے۔ سرکاری ادارے عوام کو کماحقہ خدمات اور سہولتیں فراہم نہیں کر پا رہے۔ جس کے ذِمّے جو کام ہے وہ اُس کا حق ادا کرنے سے قاصر ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اِس سوال کا جواب زبیدہ آپا نے روزنامہ ’’دُنیا‘‘ کراچی کے سنڈے میگزین سے انٹرویو میں بخوبی دے دیا ہے۔ محض ایک جملے میں آپا نے جو کچھ کہا اُسے غالبؔ کے بقول گنجینۂ معنی کا طلسم سمجھیے۔ کوئی بھی جج جب کبھی سزائے موت کا فیصلہ لِکھتا ہے تو دستخط کرنے کے بعد قلم توڑ دیتا ہے۔ آپ بس یہ سمجھ لیجیے کہ آپا نے بھی قلم توڑ دیا ہے۔ انٹرویو کے دوران جب آپا سے پوچھا گیا کہ کھانے کا شوق کِس حد تک ہے تو اُنہوں نے کہا کہ کوکنگ شوز میں پکاتے پکاتے اب بُھوک مَر چکی ہے یعنی کھانے کا کچھ خاص شوق اب نہیں رہا۔ ہمیں یقین ہے کہ آپا نے یہ بات محض یکسانیت اور بیزاری ظاہر کرنے کے لیے کہی ہوگی۔ یہ نتیجہ ہرگز اخذ نہ کیا جائے کہ وہ اپنے ہاتھ کا پکا ہوا کھانے سے بچنا چاہتی ہیں۔ یہ بھی زبیدہ آپا کی مہربانی ہے کہ اپنے آفاقی ٹوٹکوں کے ذریعے اُنہوں نے خواتین خانہ کو سوچنے کی زحمت سے بچالیا ہے۔ ویسے خواتین خانہ کو خیر سے سوچنے کی عادی ہوتی بھی نہیں۔ یہی سبب ہے کہ اگر کبھی کِسی معاملے میں سوچنا پڑ جائے تو ذہن کی جان پر بن آتی ہے۔ آپا کا انٹرویو پڑھا تو ہماری سمجھ میں آیا کہ ہمارے ہاں تعلیمی ادارے بچوں کو ڈھنگ سے کچھ سِکھا کیوں نہیں پا رہے۔ چھ عشروں سے تعلیم بانٹتے بانٹتے اِن اداروں کی بُھوک ہی ختم ہوچکی ہے‘ یعنی علم بچا ہی نہیں تو بانٹیں کیا؟ ایک ہی کام کئے جایئے تو یکسانیت سے بیزاری جنم لیتی ہے۔ اگر تعلیمی ادارے صرف تعلیم پر مامور رہیں گے تو بالآخر اُن کی تعلیمی صلاحیت گِھس ہی جائے گی نا۔ چند ایک تعلیمی ادارے تھوڑا سا ’’ری چارج‘‘ ہونے کے لیے تعلیم کے ساتھ تربیت کے بجائے ’’طربیت‘‘ جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں تو لوگ اعتراض کے تیر برسا رہے ہیں۔ سرکاری ادارے چھ عشروں سے عوام کو خدمات کی فراہمی پر مامور ہیں۔ اب کیا اِتنے طویل عرصے میں بھی خدمات کا اسٹاک ختم نہیں ہوگا؟ عوام کی خدمت کرتے کرتے سرکاری اداروں اور محکموں پر بیزاری مسلّط ہوچکی ہے۔ اب اگر وہ مُنہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے تھوڑی سی نا اہلی، ہڈ حرامی اور کرپشن کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو اعتراض کیسا؟ یہ تو ہم نے فرض کرلیا ہے کہ سرکاری ادارے ہماری خدمت پر مامور ہیں۔ ذرا خود اُن اداروں سے بھی تو پوچھا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں! چھ عشروں کے دوران سیاست دان اِتنے مصروف رہے ہیں کہ اب سیاست بھی گِھس چُکی ہے۔ اداکاروں نے اِتنی اداکاری کی ہے کہ اب اُن کے فن میں اور تو سب کچھ ہے، بس ایک اداکاری ہی دکھائی نہیں دیتی۔ گانے والوں نے گا گاکر گائیکی کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ بعض گانے والوں کو سُن کر تو جی چاہتا ہے کہ عوام کے بہترین مفاد میں اُن کا گلا گھونٹ دیا جائے۔ لوگ زندگی بھر کام کرتے کرتے اِتنے تھک گئے ہیں کہ اب اُن میں کام کرنے کی سکت اور لگن نہیں رہی۔ جب پکا پکاکر بُھوک ختم ہوسکتی ہے تو کام کرتے کرتے کام کرنے کی لگن بھی ختم ہوسکتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ صبح کے وقت لوگ اخبار پڑھتے اور چند ایک ہلکی پھلکی باتیں کیا کرتے تھے تاکہ دن اچھا گزرے۔ اب ٹی وی پر مارننگ شوز دیکھ کر اُوٹ پٹانگ حرکتیں ہضم کرنی پڑتی ہیں۔ بعض آئٹمز دیکھنے کے بعد تو مُوڈ دِن بھر خراب رہتا ہے۔ یہی حال شام کا ہے۔ شوہر تھکے ہارے گھر پہنچتے ہیں کہ چلو، شام کے حسین لمحات میں بیوی سے کچھ باتیں کریں گے، چائے شائے پئیں گے۔ لیکن وہاں تو ٹی وی پر کوکنگ شو چل رہے ہوتے ہیں۔ شام کی خوب صورت ساعتوں کو ٹی وی کے کوکنگ شوز سے بچانے کا کوئی ٹوٹکا شوہروں کے پاس نہیں۔ اور ظاہر ہے زبیدہ آپا تو ایسا کوئی ٹوٹکا کبھی بُھول کر بھی نہیں بتائیں گی۔