"MIK" (space) message & send to 7575

مزا درکار ہے … مگر کیوں؟

پاکستانی قوم کی نفسیات کیا ہے، اِس سوال پر دُنیا بھر میں نفسیات کے ماہرین نے بہت غور کیا ہے اور اُن میں سے بہت سے بدنصیب خود نفسیاتی ہوچلے ہیں! دُنیا خواہ مخواہ ہماری نفسیاتی ساخت کے تعین میں مگن ہے۔ ہم نے خود ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ ہماری کوئی نفسیاتی ساخت ہونی چاہیے یا اِس آئین کو غیر تحریری ہی رہنے دینا ہے! لوگ کہتے ہیں کہ مغرب کے لوگ ہر معاملے میں مسرت کا پہلو تلاش کرتے ہیں اور یہ کہ وہی ہیں جو جانتے ہیں کہ زندگی کا بھرپور مزا کِس طور لُوٹا جاسکتا ہے۔ ہمیں تو ایسے لوگوں کی سوچ خاصی دقیانوسی معلوم ہوتی ہے۔ شاید اُنہوں نے کبھی پاکستانیوں کے مزاج پر غور نہیں کیا جو ہر بات میں، ہر چیز میں مزا چاہتے ہیں۔ مَیّت کو دفنانے کے بعد جب سوگوار خاندان مَیّت کو کاندھا دینے اور مِٹّی ڈالنے والوں کو رسماً کچھ کِھلانے کا اہتمام کرتا ہے تب بھی لوگ مَزے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں اور تیز مَسالے کے ساتھ ساتھ بوٹیوں کی فرمائش کرنے سے بھی نہیں چُوکتے! آپ سوچیں گے یہ تو سنگ دِلی ہے۔ سوگ میں ڈوبے ہوئے خاندان کو کچھ کِھلانے کے بجائے اُس کے ہاں کھانا اور اُس پر بھی تیز مَسالے اور بوٹیوں کی فرمائش کرنا کوئی اچھی بات تو نہیں۔ مگر صاحب! اِس میں حیرت کی بات کیا ہے۔ جب زندگی کا ہر معاملہ مزا تلاش کرنے تک محدود ہوکر رہ جائے تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے اور پھر یہ بھی تو سوچیے کہ مرنے والا تو مَر کھپ گیا، ہم کیا ذرا سے سوگ کے چَکّر میں اپنا وہ مزاج ترک کردیں جو ہم نے عشروں میں پروان چڑھایا ہے؟ مزے تلاش کرتے رہنے کی عادت کے ہاتھوں اب ہمارا حال یہ ہوگیا ہے کہ اگر کوئی حالات سے تنگ آکر خود کشی کے لیے نیلا تھوتھا خریدنے بھی نکلتا ہے تو چاہتا ہے کہ فلیور اچھا ہونا چاہیے! جان کا کیا ہے وہ تو جانی ہی ہے۔ بات تو جب ہے کہ مَرتے وقت بھی مُنہ کا ذائقہ خراب نہ ہو! کیا دوسری دُنیا میں مُنہ بسورے ہوئے پہنچیں گے؟ ہوسکتا ہے کل کلاں کو لوگ وصیت میں یہ بھی لِکھ جایا کریں کہ کفن کِسی نامی گرامی فیشن ڈیزائنر سے تیار کرایا جائے اور پرفیوم کِسی بھی حالت میں نان برانڈیڈ نہ ہو! یعنی جیو تو مزے سے اور دُنیا سے جاؤ تب بھی شان برقرار رہے، مزے کم نہ ہونے پائیں! ہر معاملے میں مزے تلاش کرنے والی قوم انتخابات کے معاملے میں بھی اپنے مزاج کو معطل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جُوں جُوں انتخابات قریب آرہے ہیں، کیا بچے، کیا جوان اور کیا بُوڑھے، ایک شِکوہ سب کی زبان پر ہے۔ کیا؟ یہی کہ کچھ مزا نہیں آرہا! جسے دیکھیے وہ انتخابی مہم کی بے رونقی کا رونا رو رہا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ بے رونقی کہاں ہے؟ اور مزید کون سی رونق کا انتظار ہے؟ قوم نے انتخابات کو بھی شُغل میلے میں تبدیل کردیا ہے اور اُس میں رونقیں اور انبساط کی کیفیت کشید کرنے پر تُلی ہوئی ہے! جلسوں کے نام پر تماشے درکار ہیں۔ لگتا ہے سنجیدگی سے برائے نام بھی تعلق اور شغف نہیں رہا۔ لوگ چاہتے ہیں کہ سیاسی گفتگو میں بھی جادو کا اثر ہو۔ لفّاظی کچھ ایسی ہو کہ رنگ جم جائے اور مزا آجائے۔ اِس اجتماعی خواہش نے سیاسی بڑبولوں کو لفظوں کے سوداگروں اور شعبدہ بازوں میں بدل ڈالا ہے۔ سارے معاملات باتوں کی حدود میں سمٹ کر رہ گئے ہیں۔ سیاسی بازی گر باتوں ہی باتوں میں سبز باغ کھلاتے ہیں اور ایک چھب دِکھلاکر اُنہیں غائب بھی کردیتے ہیں! اب کے ایسا کیا ہے جس پر بے رونقی کا گمان ہے؟ بے یقینی؟ مگر بے یقینی تو ہم پر ایک مدت سے مسلّط ہے۔ اُس کا کیا رونا اور کیا ڈرنا؟ خوش گمانی؟ وہ بھی کِس مرحلے پر برقرار نہیں رہی؟ جلسوں میں لوگ سیاسی قائدین سے صرف سُندر سپنوں جیسی باتیں اور میٹھی میٹھی لوریاں سُن کر تصور کی حسین دُنیا ہی میں رہنا چاہتے ہیں۔ قائدین بھی قوم کی دُکھتی رگ پہچانتے ہیں اور پہلی فُرصت میں اُس پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں! جلسوں میں وہی راگ الاپے جاتے ہیں جو عوامی سماعت پر گراں نہ گزریں۔ وہی بات کی جاتی ہے جو عوام کے حلق سے حقیقت کی تلخیاں، کچھ دیر کے لیے، ختم کرکے اُس میں خوش فہمی اور خوش گمانی کا شربت ٹپکادے! ؎ میں تو غزل سُنا کے اکیلا کھڑا رہا سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھوگئے! سیاسی شعبدہ باز جب بولنے پر آتے ہیں تو اکیس دِن کا فرق یکسر مٹاکر آن کی آن میں انڈوں سے چُوزے نکال کر دِکھا دیتے ہیں! فلموں میں ولن کی پٹائی ہوتی ہے تو ہال میں بیٹھا ہر شخص خود کو ہیرو سمجھ رہا ہوتا ہے۔ فلموں میں کاسٹ اور ڈائریکٹر مل کر جو جادو جگاتے ہیں ویسا ہی جادو سیاسی جلسوں میں بھی اُتنی ہی خوبی سے جگایا جاتا ہے۔ فلم ختم ہونے پر شائقین کا دِماغ بہرحال کام کر رہا ہوتا ہے، کبھی کبھی سیاسی جلسوں کے اختتام پر حاضرین کو یہ رعایت بھی نہیں مِلتی! اب ایک بار پھر اِس کسک پر غور فرمائیے کہ وہ بات نہیں، وہ مزا نہیں۔ یاروں کے مزاج کو بھی اللہ ہی سمجھے۔ پتہ نہیں کون سا مزا چاہتے ہیں، کون سی بات تلاش کر رہے ہیں؟ انتخابی مہم ایک بڑے عمل کا محض ایک حصہ ہے۔ ایک بڑے محل میں اِس کی حیثیت ایک بڑے کمرے کی سی ہے۔ یہ راستہ ہے، منزل نہیں۔ ہم بھی کِس مزاج کے ہیں کہ راہوں سے منزل کا مزا چاہتے ہیں! یہ فیصلے کی گھڑی ہے، طے کرنا ہے کہ ہم پر اب کون حکمران ہو۔ عوام کو بھی احتساب بیورو کا سا اختیار مل رہا ہے۔ اُنہی کو طے کرنا ہے کہ مُلک پر اب کِس کی حکمرانی ہو۔ قومی وسائل میں دانت گاڑنے والوں کی یا اُن کی جو مُلک کو احسن طریقے سے چلانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں اور نِیّت بھی۔ مُلک ایک بار پھر مشہور زمانہ دو راہے پر کھڑا ہے! ہمیں درست راہ کا تعین کرنا ہے۔ فیصلے کی اِس گھڑی میں بھی ہمیں درست سوچ اپنانے سے زیادہ مزے کی فکر لاحق ہے! اِس بار الیکشن کمیشن کی ’’ریسیپی‘‘ لوگوں سے ہضم نہیں ہو پارہی۔ کئی ایک کو ابھی سے شدید بدہضمی کا وہم سا ہوچلا ہے! بہتوں نے ابھی سے سوچ لیا ہے کہ اِس بار بھی نتیجہ وہی نکلے گا یعنی ڈھاک کے تین پات۔ یہ بھی ہماری اجتماعی نفسیات کا بڑا کمال ہے۔ عمل کی نِیّت سے پہلے ہم نتیجے کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔ دُنیا ابھی پُل بنانے کا سوچ ہی رہی ہوتی ہے اور ہم اُس کے نیچے سے گزرنے والے پانی کی مقدار کا تعین بھی کرلیتے ہیں! ہر بات میں، ہر معاملے میں مزا تلاش کرنے کی عادت مستحسن نہیں۔ جب مرض شدت اختیار کر لے تو کڑوی گولیاں بھی نگلنی پڑتی ہیں۔ انتخابات کوئی میلہ نہیں جس کی رونقیں ہمیں دم بخود کریں اور کچھ دیر کے لیے دُنیا کے جھمیلوں سے نجات دِلانے کے کام آئیں۔ یہ عمل تھوڑی سی متانت کا طالب ہے۔ ہر معاملے میں مزے تلاش کرنے کی عادت سے، عارضی طور پر ہی سہی، گلوخلاصی کرکے ہمیں اُن کڑوی گولیوں کو نگلنے کی تیاری کرنی ہے جن کی تاثیر سے قومی امراض کی شدت میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور واقع ہوگی! ہر معاملے میں مزے تلاش کرنے والی قوم انتخابات کے معاملے میں بھی اپنے مزاج کو معطل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جُوں جُوں انتخابات قریب آرہے ہیں، کیا بچے، کیا جوان اور کیا بُوڑھے، ایک شِکوہ سب کی زبان پر ہے۔ کیا؟ یہی کہ کچھ مزا نہیں آرہا! جسے دیکھیے وہ انتخابی مہم کی بے رونقی کا رونا رو رہا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ بے رونقی کہاں ہے؟ اور مزید کون سی رونق کا انتظار ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں