ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب لالی وُڈ کے اسکرپٹ رائٹرز اور ڈائریکٹرز نئے آئیڈیاز کی تلاش میں سرکس کے چکر لگایا کرتے تھے۔ سرکس کی بے مثال اُچھل کود اور چکرم بازی کو فلموں میں شامل کرکے وہ شاہکار تخلیق کیا کرتے تھے! فلموں کے خاکے میں سرکس کے رنگ بھرنے کا سلسلہ چلتا رہا اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ سرکس کے کرتا دھرتا نئے کرتب متعارف کرانے کے لیے ہماری فلموں اور بالخصوص پنجابی فلموں سے ’’انسپیریشن‘‘ لینے پر مجبور ہوئے! کچھ دِن پہلے تک حالت یہ تھی کہ لالی وُڈ کے اسکرپٹ رائٹرز اور ڈائریکٹرز کھیل کے میدانوں میں زیادہ پائے جانے لگے تھے۔ پوچھا گیا کہ کھیل میں ایسا کیا ہے جو آپ اپنا زیادہ وقت کھیل کے میدانوں میں گزارتے ہیں۔ وضاحت فرمائی گئی کہ اب کھیلوں کی دُنیا میں کھیل کم، اداکاری زیادہ ہے۔ اور اداکاری بھی ایسی نیچرل کہ کھلاڑی کھیل ہی کھیل میں بہت کچھ کر جاتے ہیں اور شائقین اُن کی پرفارمنس دیکھ کر عَش عَش کرنا بھی بُھول جاتے ہیں! ڈیڑھ دو گھنٹے کے کھیل میں اداکاری، کرتب، ہاتھ کی صفائی اور کھیل سے کِھلواڑ سبھی کچھ دیکھنے کو مل جاتا ہے اور وہ بھی گھر بیٹھے! اب سُنا ہے کہ فلمیں لِکھنے اور بنانے والے سیاسی جلسوں میں خاصے جوش و خروش کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ جلسوں کی بھرپور کوریج کے لیے تو خیر سے میڈیا کے نمائندے بھی بہ نفس نفیس موجود ہوتے ہیں۔ مگر اُن کے لیے تو یہ معمول کی بات ہے۔ کِسی حد تک گناہِ بے لَذّت بھی قرار دیا جاسکتا ہے کہ سیاست دانوں کی ہر انٹ شنٹ بات کو قلمبند کرکے اخبار کا پیٹ بھرنا پڑتا ہے! فلم والے سیاسی جلسوں کے گلشن سے اپنی مرضی کے پُھول اور کانٹے سبھی کچھ چُنتے ہیں۔ اور کیوں نہ چُنیںکہ جلسوں میں سبھی کے لیے کچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔ یہ وہ در ہے جس سے کم ہی شوقین خالی ہاتھ لَوٹتے ہیں! اُس سے بڑا بدنصیب کون ہوگا جو جلسے میں مُنہ بسورتا ہوا آئے اور ویسا ہی ’’رخ روشن‘‘ لیکر واپس چلا جائے! زمانے بھر میں سیاسی شعور کا بہت غلغلہ ہے۔ وائے نادانی اور ہائے رے تغافل کہ کِسی نے ہمارا ’’سیاسی شعور‘‘ ملاحظہ فرمانے کی زحمت گوارا نہ کی۔ ہم نے عشروں کی محنت کے بعد سیاسی مارکیٹ میں ایسی فنشڈ پروڈکٹ متعارف کرائی ہے کہ اُس پر خود ہی فِدا ہو جانے کو جی چاہتا ہے! اپنے ’’ملٹی پرپز‘‘ سیاسی جلسوں میں ہم نے کئی عالم سَمو دیئے ہیں، ایک نئی کائنات بسادی ہے! کِسی کو اگر ضبطِ نفس کا دعویٰ ہے تو اِس سُپر اسٹور سے اپنی مرضی کے آئٹمز خریدے بغیر نکل کر تو دِکھائے! رنگینی ایسی ہے کہ آنکھوں میں بس جائیں تو نکلتے نہیں۔ کامیاب مارکیٹنگ یہ ہے کہ اِنسان وہ آئٹمز بھی خرید لے جن کی ضرورت نہیں۔ ہمارے سیاسی جلسوں کا بھی تو یہی کمال ہے۔ جو کچھ پسند نہیں وہ بھی اِن جلسوں میں اچھا لگتا ہے! ایک فلم رائٹر سے گفتگو کے دوران ہم نے پوچھا کہ آپ آج کل سیاسی جلسوں میں کیوں دِکھائی دے رہے ہیں۔ کیا سیاست میں دلچسپی بڑھ گئی ہے یا فلموں میں سے شغف نہیں رہا؟ جواب مِلا فلموں سے محبت ہے تبھی تو جلسوں کا رُخ کرتے ہیں! ہم سمجھ نہ پائے۔ اُنہوں نے وضاحت فرمائی کہ اہل سیاست کے تماشے فلموں میں سَموئے جائیں تو کامیاب فلم بنتی ہے۔ اِس کی مثال اُنہوں نے ٹکٹوں کی تقسیم کے ہنگامے سے دی۔ سیاسی جماعتوں پر ٹکٹوں کی تقسیم کے مرحلے میں جو کچھ گزری اور جو دھینگا مُشتی اِس دوران دِکھائی دی اُس میں کئی ایسے فارمولے تھے جو فلموں کو سُپر ہٹ کرانے کے لیے درکار ہوا کرتے ہیں! جس طرح ہمارے ہاں مُستنصر حسین تارڑ صاحب کو مختلف شعبوں میں عمدگی سے بروئے کار لایا گیا ہے بالکل اُسی طرح اب سیاسی تقاریر بھی ’’ملٹی پرپز‘‘ ہوچکی ہیں! ایک ہی تقریر چاہنے والوں کے کلیجے کی ٹھنڈک بھی بنتی ہے اور دُشمنوں کے سینے پر تیر بھی چلاتی ہے! مُنوّر ظریف، رنگیلا اور لہری کی کمی شَدّت سے محسوس کرنے والے اِنہی تقاریر سے اپنی ضرورت کے مطابق کامیڈی بھی کشید کرلیتے ہیں! پُرانی پنجابی فلموں کی جان سمجھی جانے والی جُگت اور بڑھک بھی سیاسی تقاریر کا ’’پارٹ اینڈ پارسل‘‘ ہیں۔ آپ اِس موڑ سے گزرے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے! فلمیں لِکھنے والے یوں تو مُدّت سے سیاسی جلسوں کو ’’سورس آف انسپیریشن‘‘ سمجھتے آئے ہیں مگر اب اُن کے دِل کی کلی ایسی کِھلی ہے کہ مُرجھانے کے آثار نہیں۔ ایک فلم ڈائریکٹر کے دِل کی کِھلی ہوئی کلی دیکھ کر ہم نے ’’وجہِ تسمیہ‘‘ پوچھی تو اُنہوں نے جو کچھ بیان کیا اُس نے ہمارے دِل میں سیاسی جلسوں کی ’’توقیر‘‘ دو آتشہ کردی! کہنے لگے۔ ’’ویسے تو خیر پورا جلسہ ہی اب ہٹ فلم کے مانند ہوتا ہے۔ ایموشن، ڈراما، کامیڈی، ایکشن، کلائمیکس اور اینٹی کلائمیکس سبھی کچھ ہوتا ہے۔ تحریکِ انصاف نے بیک گراؤنڈ میوزک شامل کرکے محض ایک کمی پوری نہیں کی بلکہ جلسوں سے کماحقہ انصاف کیا ہے! یہ سب تو ٹھیک ہے مگر اصل مزا تو اب آخر میں آتا ہے۔ سیاسی جلسوں کا بمپر پرائز جاتے جاتے مِلتا ہے۔ فلموں میں تو سب کچھ اینڈ سے پہلے ہوتا ہے۔ اینڈ میں رسمی کارروائی کے طور پر ولن کی پٹائی ہوتی ہے اور ’سب اچھا ہے‘ کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ شائقین فلم ختم ہونے پر ہال سے نکلیں تو دِل پر کوئی بوجھ نہ ہو۔‘‘ ہم نے پوچھا کہ سیاسی جلسوں کے آخر میں ایسا کون سا بمپر پرائز ہوتا ہے جو فلموں کی روایت سے ہٹ کر ہے۔ موصوف نے وضاحت فرمائی۔ ’’سیاسی جلسوں کا اینٹی کلائمیکس ہی دراصل سُپر کلائمیکس ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں بڑی بندر بانٹ، چھینا جھپٹی اور دھینگا مُشتی ہوتی ہے مگر اِس تماشے میں وہ لطف کہاں جو سیاسی جلسے کے آخر میں کھانے کی تقسیم (یا لُوٹ مار) میں پوشیدہ ہے! یہ پولیٹیکل سرکس کا آخری ہی نہیں، سب سے دلچسپ آئٹم بھی ہے۔ بلکہ آج کی زبان میں اِسے جلسوں کا ’آئٹم سونگ‘‘ قرار دیا جانا چاہیے۔‘‘ ایک جہاں دیدہ فلم ڈائریکٹر کی زبان سے سیاسی لنگر کی ایسی زبردست توصیف نے ہمیں چند لمحات کے لیے شرمسار کردیا! ہم نے کبھی سیاسی لنگر کے ’’مَحاسِن‘‘ پر غور کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی تھی۔ جلسے کے کلائمیکس کے بعد لنگر کی تقسیم یا لُوٹ مار واقعی سُپر کلائمیکس ہے۔ اِس ایک کھیل میں کبڈی، کِک باکسنگ، فری اسٹائل کُشتی اور خدا جانے کون کون سے کھیل اور تماشے چُھپے ہوئے ہیں! سیاسی لنگر کے لیے چھینا جھپٹی کے دوران جس کے ہاتھ بریانی سے بھرا تَسلا لگ جائے وہ بھنگڑا ڈالنے لگتا ہے اور جو محروم رہے اُس کے چہرے پر مُردنی قابل دید ہوتی ہے۔ اگر یہ تماشے پہلے کبھی ہوا کرتے تو محرومین سے ٹریجڈی کنگ دلیپ کمار تھوڑا بہت اکتساب کرکے اپنے فن میں مزید گہرائی اور گیرائی ضرور پیدا کرتے! اور ذرا سوچیے کہ بریانی سے بھرے ہوئے تَسلے کو لیکر درخت پر چڑھ بیٹھنا کوئی معمولی فن ہے کیا؟ بڑے بڑے جمناسٹ دیکھیں تو شرمندہ ہوکر سَر جُھکالیں! سیاسی لنگر کی خاطر ہونے والی دھکم پیل اور زور آزمائی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جن کے منعقد کئے ہوئے جلسوں میں یہ سب کچھ ہوتا ہے وہ بھی اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر قومی وسائل کو بھنبھوڑنے کے لیے کیا کیا جتن کرتے ہوں گے! آپ بھی سوچتے تو ہوں گے کہ سیاسی جلسے کے آخر میں بریانی اور قورمے کی دیگیں بانٹنے کا رواج کیوں پڑا ہے۔ کیا اہل سیاست عوام کے ’’جوش و خروش‘‘ سے تحریک پانا چاہتے ہیں تاکہ اقتدار ملنے پر قومی خزانے پر شب خُون مارنے میں کِسی سے پیچھے نہ رہیں؟ یا پھر لُوٹ مار کے چند نئے ڈھنگ سیکھنا مقصود ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جن غریبوں کے حصے کا سب کچھ ہضم کرچکے ہیں اُن کے آگے چند دانے ڈال کر لُوٹ مار کا نظارہ کرکے اپنے کلیجوں کو ٹھنڈک پہنچانا اور یہ اطمینان کرلینا مقصود ہے کہ یہ غریب اِسی سطح پر رہیں گے! قدیم روم میں اشرافیہ اپنا دِل بہلانے کے لیے بڑے پنجرے یا کُھلے میدان میں کئی وقتوں کے بُھوکے شیر کے آگ باغیوں کو ڈال دیا کرتی تھی اور اُن بدنصیب انسانوں کی نُچتی اور بھنبھڑتی ہوئی بوٹیوں کی دید سے اپنے ’’ذوق‘‘ کی بہت شوق سے تسکین کیا کرتی تھی! ہمارے ہاں بھی اِسی خُوں خوار رسم کو زندہ کیا جارہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ باغی تو اشرافیہ سے آ مِلے ہیں اِس لیے شوق پُورا کرنے کے لیے مُطیع و فرماں بردار ہی لنگری شیر کے آگے ڈالے جارہے ہیں!