"MIK" (space) message & send to 7575

’’گھونگھٹ اُٹھالوں کہ گھونگھٹ نِکالوں؟‘‘

اب کِسی کو کیا بتائیں کہ حال ہی میں اختتام کو پہنچنے والے ایک اور جمہوری دور نے کیا کیا سِتم ڈھائے ہیں، کیسے کیسے گل کِھلائے ہیں! مینڈیٹ نے خوشی کے مارے مینڈک کی طرح طرح پُھدک پُھدک کر ہماری توجہ بُنیادی مسائل سے ایسی ہٹائی کہ پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی! روشنی کے ختم ہونے پر ویسے تو پتہ نہیں کون کون سی چیزیں تاریکی میں گم ہوئی ہیں مگر ریلوے کا شعبہ تو واقعی خاک میں مِل گیا! پلیٹ فارم ویران ہیں اور ٹرینوں نے زیادہ آمد و رفت سے معذرت کرلی ہے۔ اپنے مُقدّر پر رشک کیجیے کہ سیاست کا پلیٹ فارم سلامت ہے، آباد ہے۔ اِس پلیٹ فارم سے اب تک ڈرانے، دھمکانے اور انتباہ کرنے کی اداکاری پر مبنی ٹرینیں روانہ کی جارہی ہیں! 1957 کی سُپر ہٹ فلم ’’سات لاکھ‘‘ کے لیے کوثر پروین کا گایا ہوا گیت ’’گھونگھٹ اُٹھالوں کہ گھونگھٹ نِکالوں؟‘‘ بے حد مقبول ہوا تھا۔ یہ خوبصورت مُکھڑا ہمارے سیاست دانوں کی فِکری ساخت کے فریم میں فِٹ ہوکر رہ گیا ہے۔ کبھی وہ گھونگھٹ اُٹھانے کی دھمکی دیتے ہیں، کبھی گھونگھٹ نِکالنے سے ڈراتے ہیں! ’’یہ کردوں گا، وہ کردوں گا‘‘ ٹائپ کے جملوں کا فیشن مزید پروان چڑھ رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے بس، زبان نہ کُھلوائی جائے ورنہ سب کا کَچّا چٹھا کُھل جائے گا۔ کوئی بھرے جلسے میں انتباہ کرتا ہے کہ راز سینے ہی میں مدفون رہنے دیئے جائیں تو اچھا ہے ورنہ ’’قبر کُشائی‘‘ بہتوں کو رُسوائی کی قبر میں لِٹادے گی! جلسوں میں حاضرین کو بجلی کے سے جھٹکے دینے والی تقاریر میں مخالفین کو انتباہ کیا جارہا ہے کہ زبان کو لگام دی جائے، زیادہ بول کر زبان کھولنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ اگر زبان کُھل گئی تو بہت کچھ سامنے آجائے گا۔ گویا قیامت ہی برپا ہو جائے گی۔ مگر صاحب! اب کون سی قیامت ہے جو برپا ہونے سے رہ گئی ہے؟ جو لوگ ایک دوسرے کو لتاڑتے ہوئے بند مُٹھی کھولنے کی دھمکی دے رہے ہیں اُن کے اعمال، بلکہ کرتوت سب کے سامنے ہیں۔ کردار بے لباس تو ہو ہی چکا ہے، اب کیا کردار کی کھال بھی اُتاری جائے گی؟ خورشید شاہ نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب کو متنبہ کیا ہے کہ (اپنی) زبان کو لگام دیں اور پی پی پی کے قائدین کے کردار(!) پر کیچڑ اُچھالنا بند کریں ورنہ وہ (خورشید شاہ) بھی بول پڑیں گے اور اُن کے پاس بیان کرنے کو بہت کچھ ہے۔ ذرا فِلمی انداز سے کہیے تو خورشید صاحب نے پردہ اُٹھانے کی دھمکی دی ہے یعنی پردہ جو اُٹھ گیا تو بھید کُھل جائے گا! اور ’’اللہ میری توبہ‘‘ کے الفاظ عوام کی زبان پر ہوں گے! قوم منتظر ہی رہتی ہے کہ جو دو چار پردہ نشین مشتہر ہونے سے رہ گئے ہیں اُن کے نام بھی بتا ہی دیئے جائیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ کرپشن کے دریا میں ڈُبکیاں لگانے والوں کی فہرست طشت از بام ہوتی ہے تو بہت سے لوگ اپنا نام نہ پاکر اُداس ہو جاتے ہیں! کرپشن کی پٹاری کھولی جائے تو نام اُچھلتا ہے اور کمپنی کی تھوڑی بہت مشہوری ہو جاتی ہے۔ اور اگر کبھی کوئی اپنے وعدے یا وعید کے مطابق کچھ بتانے پر تُل بھی جائے تو لوگوں کو مایوسی ہوتی ہے کیونکہ کچھ بتانے کے نام پر جو کچھ کیا جارہا ہوتا ہے وہ کچھ نہ بتانے کی کوشش کے سِوا کچھ نہیں ہوتا! پردہ اُٹھنے کے انتظار میں پتھرائی ہوئی آنکھیں پتھرائی ہی رہ جاتی ہیں۔ ؎ بہت شور سُنتے تھے پہلو میں دِل کا جو چیرا تو اِک قطرۂ خُوں نہ نِکلا! 1971ء میں جو کچھ ہوا اُس کے بے لاگ تجزیے اور ذمہ داران کے تعین پر مبنی حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ مدتوں سَرد خانے میں پڑی رہی۔ ایک جنگ میں کی جانے والی نادانیوں سے متعلق اِس رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے لیے یاروں کو باضابطہ جنگ لڑنی پڑی! مگر کِسی کے بھی خلاف کوئی کارروائی نہ ہوسکی۔ ہوتی بھی کیسے؟ وعدوں اور دعووں کی زمین پر ایسے ہی گل کِھلا کرتے ہیں۔ اربوں روپے کی کرپشن میں گلے تک دھنسے ہوئے لوگ اب ایک دوسرے کو نمائشی دھمکیاں دے کر عوام کی توجہ حاصل کرنے کے درپے ہیں۔ مگر یہ تماشا بھی کب تک؟ لوگ ’’ورائٹی‘‘ چاہتے ہیں۔ وہ بے وقوف بننے کو تیار ہیں مگر بے وقوف بنانے کے طریقے تو نئے ہوں، کچھ تو جدت دِکھائی دے! باطن بدلنا ممکن نہ ہو تو کم از کم ظاہر ہی بدل لیا جائے۔ تن وہی رہے تو رہے مگر کپڑے تو نئے ہوں! لوگ گھر میں ورائٹی پیدا کرنے کے لیے اور کچھ نہ سہی، فرنیچر کی سیٹنگ ہی بدل لیا کرتے ہیں۔ سیاست دان اِتنی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے! بیشتر سیاسی تقاریر ’’ورنہ‘‘ سے شروع ہوکر ’’ورنہ‘‘ پر ختم ہوتی ہیں۔ سُننے والے دم بخود بیٹھے رہتے ہیں کہ ’’ورنہ‘‘ کا پردہ ہٹے اور جو کوئی ایک آدھ سِتمگر دِکھنے سے رہ گیا ہے اُس کے بھی درشن ہو ہی جائیں۔ مگر اے وائے ناکامی کہ ہوتا کچھ بھی نہیں۔ پرنالہ وہیں بہتا رہتا ہے۔ یہ اہل سیاست کا وتیرہ ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف انتباہ جاری کرکے عوام کا دِل بہلاتے رہتے ہیں۔ اُنہیں بالآخر وہی کرنا ہے جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہوگا وہی جو ہوتا آیا ہے۔ مارکیٹ میں وہی پراڈکٹ لائی جاتی ہے جس کی ڈیمانڈ ہو یعنی خریدار موجود ہوں۔ لوگ انتباہ کے نام پر سیاست دانوں کی بڑھکیں اور ایک دوسرے پر لعن طعن سُننے کے عادی ہیں تو کوئی نئی پراڈکٹ مارکیٹ میں پیش کرنے کا خطرہ کیوں مول لیا جائے؟ کہیں اسٹاک پڑا کا پڑا رہ گیا تو! قوم عشروں سے یہ تماشا دیکھ رہی ہے۔ ایک گروہ آتا ہے اور خوب کھاتا ہے۔ جب کھاتے کھاتے تھک جاتا ہے تو تھوڑا سا بے دم ہوکر ہٹ جاتا ہے اور دوسرے کی باری آتی ہے۔ وہ تھکتا ہے تو پہلا پھر آ جاتا ہے۔ دونوں کھاتے ہیں اور خوب ڈکارنے کے بعد ایک دوسرے پر غُرّانے، ڈرانے اور سب کچھ بیان کرنے کے انتباہ کی شاندار اداکاری کرتے رہتے ہیں! اب ایسا کیا رہ گیا ہے جو بیان ہو؟ اور کِس خرابی کے بیان میں کون سی باریکی رہ گئی ہے؟ کِس کا کَچّا چٹھا ہے جو کون نہیں جانتا؟ پھر کِس بات سے ڈرایا جارہا ہے؟ اور اگر واقعی کوئی بات تھی بھی تو اب تک بتائی کیوں نہیں گئی؟ اُس بات کو محض ڈرانے کے لیے چُھپاکر کیوں رکھا گیا؟ جو کچھ بیان کردینا چاہیے اُسے بیان کرنے کے بجائے محض انتباہ پر گزارا کیوں کیا جارہا ہے؟ مُٹھی بند رکھنے کی قیمت درکار ہے یا کھولنے کی؟ قوم کی قیادت کے آرزو مند کب تک یہ چوہے بلی کا نمائشی کھیل کھیلتے رہیں گے؟ نُورا کُشتی کب تک چلے گی؟ اپنے اپنے دائرۂ اختیار کا تعین کرکے، اپنے اپنے اسٹیک کی حدود متعین کرکے کب تک عوام کو صرف وعدوں یا وعیدوں سے بہلایا جاتا رہے گا؟ دس سال قبل متعارف کرایا جانے والا فرینڈلی اپوزیشن کا نظریہ اب جوبن پر ہے۔ عوام منتظر ہیں کہ کوئی تو اُن کے لیے آواز اُٹھائے مگر ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن جانے والوں نے طے کرلیا ہے کہ جیسے بھی بن پڑے، گٹھ جوڑ برقرار رہے گا۔ ہاں، اِس گٹھ جوڑ سے اُٹھنے والے تعفن کو دبانے کے لیے وقتاً فوقتاً جوشیلے اور بھڑکیلے بیانات کا چھڑکاؤ کیا جاتا رہے گا تاکہ عوام حقیقت کی ’’خوشبو‘‘ نہ سُونگھ سکیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں