بین الاقوامی تنازعات کے تدارک کی خاطر قائم کئے جانے والے ادارے تنازعات کی فصل تیار کرنے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ غربت، بے روزگاری اور کساد بازاری ختم کرنے کے لیے معرض وجود میں لائے جانے والے ادارے اِن عِلّتوں کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ جب کِسی خِطّے کی تقدیر بدلنے کے لیے بڑی طاقتیں میدان میں آئیں تو سمجھ لیجیے کہ اُس خطے کی بدقسمتی کا آغاز ہوچکا ہے! پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے پر 1919 میں ’’لیگ آف نیشنز‘‘ قائم کی گئی تھی۔ اِس کے قیام کا بُنیادی مقصد اقوام عالم کے درمیان تنازعات اور مناقشوں کو لگام دیکر حقیقی امن کی راہ ہموار کرنا تھا۔ یہ راہ کچھ اِس طور ہموار ہوئی کہ 1939 میں دوسری جنگِ عظیم چھڑگئی! دوسری جنگِ عظیم جب اختتامی مرحلے میں داخل ہوئی تو 1945 میں لیگ آف نیشنز کو تھوڑی بہت لیپا پوتی کرکے، نئے کپڑے پہناکر ’’اقوام متحدہ‘‘ کا نام دیا گیا۔ دونوں بین الاقوامی اداروں کا منصب یہ تھا کہ دُنیا سے جھگڑے ختم ہوں۔ طاقتور ممالک کی پالیسیوں، نیت اور عمل میں پائے جانے والے کیڑے ختم کرنے کے لیے یہ دونوں ادارے کیڑے مار اسپرے کے طور پر متعارف کرائے گئے تھے مگر کڑوی سَچّائی یہ ہے کہ کیڑے کم تو کیا ہوتے، اور بڑھ گئے۔ اور یہ اِضافہ بھی اِتنا ہے کہ دُنیا کیڑوں سے بھر گئی ہے۔ چند خِطّے کمزور رہ گئے ہیں یا اُنہیں کمزور کردیا گیا ہے تاکہ طاقتور خِطّوں کے لیے خطرہ نہ بنیں۔ پس ماندہ خِطّوں کے جسم میں کیڑے پنپ رہے ہیں۔ کہیں خانہ جنگی ہے، کہیں ملک گیر اضطراب۔ کہیں توانائی کا بحران ہے اور کہیں لوگ افلاس اور بے روزگاری کی چَکّی میں پس رہے ہیں۔ کیڑے مار اسپرے کے طور پر متعارف کرایا جانے والا ادارہ ہی کیڑوں کی افزائش کا وسیلہ بن جائے تو کیا ہوسکتا ہے؟ ظاہر ہے اب وہی ہوسکتا ہے جو منطقی ہے یعنی کیڑوں کو اپنایا جائے، بروئے کار لایا جائے۔ ایسے میں اگر اقوام متحدہ نے کیڑوں کو اپنانے کا مشورہ دیا ہے تو حیرت کیسی؟ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے عالمی ادارۂ خوراک و زراعت نے دُنیا بھر کے عوام سے اپیل کی ہے کہ کیڑوں کو خوراک کا حصہ بنائیں۔ ایک رپورٹ میں ادارہ کہتا ہے کہ دُنیا بھر میں دو ارب افراد نے کیڑوں کو خوراک کا حصہ بنا رکھا ہے۔ اور باقی آبادی کا بڑا حِصّہ بھی ایسا ہی کرے تو خوراک کا مسئلہ تسلّی بخش حد تک حل ہوسکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پتنگے، بھنورے اور جھینگر میں لحمیات کے علاوہ کیلشیم اور فولاد کا غیر معمولی تناسب پایا جاتا ہے۔ عالمی ادارۂ خوراک و زراعت کا مشورہ یا اپیل پڑھ کر ہماری تو ہنسی چُھوٹ گئی۔ اِتنے بڑے ادارے کی سادگی پر ہنسی کیوں نہ آئے؟ پاکستان کے بارے میں دُنیا یہ گمان کرتی ہے کہ کیڑے مکوڑے خوراک کا حصہ نہیں۔ عام تصور یا تاثر یہ ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک ہی میں کیڑے مکوڑے کھائے جاتے ہیں۔ چین، جاپان، فلپائن، ویت نام، شمالی و جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں لوگ پتہ نہیں کیا الا بلا کھا جاتے ہیں۔ کُتّے، بلّیاں اور دیگر جانور تو وہاں جان بچاتے پھرتے ہیں! اب یہ خِطّہ عالمی معیشت کو بھی اُسی طرح بھنبھوڑ رہا ہے جس طرح کیڑوں اور حیوانات کو بھنبھوڑتا رہا ہے! جنوب مشرقی ایشیا والے اقوام متحدہ کے مشورے کے مُکلّف نہیں تھے۔ وہ بہت پہلے سے کیڑوں کو خوراک کا حِصّہ بناتے آئے ہیں۔ ویسے ہمیں اِس معاملے میں دِل چھوٹا کرنے اور زیادہ شرمندہ و افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم بھی، چشم بد دُور، کیڑوں سے کچھ ایسے نا آشنا کبھی نہیں رہے! ایک زمانے سے کیڑے مکوڑے ہماری خوراک کا حصہ رہے ہیں۔ عالمی ادارۂ خوراک و زراعت نے دُنیا والوں کو کیڑا خوری پر مائل کرنے کے لیے کہا ہے کہ کیڑوں کی افزائش زیادہ مشکل کام نہیں۔ کم وقت میں اور بہت کم وسائل سے بہت سے کیڑوں کی غیر معمولی افزائش ممکن ہے۔ یہ بات پڑھ کر ہمیں ہنسی نہیں آئی بلکہ ہنسی چُھوٹ گئی! کیا واقعی ہم پر یہ وقت آگیا ہے؟ کیا اب عالمی ادارۂ خوراک و زراعت والے ہمیں بتائیں گے کہ کیڑوں مکوڑوں کی افزائش کیسے ہوتی ہے؟ دُنیا میں اگر واقعی کوئی قدر شناس ہے اور اُس میں اعلیٰ ظرفی ہے تو آئے اور ہم سے سیکھے کہ کیڑے کِس طور پروان چڑھتے اور چڑھائے جاتے ہیں۔ مُلک بھر میں صفائی پر مامور اداروں، انتظامی مشینری، صحت کی وزارت اور محکموں نے مل کر، شالا نظر نہ لگے، ایسا ماحول پیدا کیا ہے کہ کیڑوں کی افزائش اب خود کار نظام کے تحت ہوتی ہے! پُورا مُلک گھوم کر دیکھ لیجیے۔ ہر طرف ’’کیڑا فارمنگ‘‘ ہو رہی ہے۔ اہل پاکستان کے لیے کیڑے کھانا حلال تو نہیں مگر مُلک کا نظم و نسق چلانے والوں نے ایسا اہتمام کیا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہم کیڑوں کو خوراک کا حِصّہ بنا بیٹھے ہیں! کُھلے نالوں کے کنارے قائم ہوٹلوں میں لوگ چائے بھی پیتے ہیں اور کیڑوں مکوڑوں کی سنگت سے بھی فیض یاب ہوتے ہیں! مَکھیاں چائے میں گر کر اُسے مُقوّی کرنے میں دیر نہیں لگاتیں! بعض مقامات پر مَچّھروں کی ایسی بھرمار ہے کہ بات کرنے یا جماہی لینے کے لیے مُنہ کھولیے تو مَچّھر گُھسنے میں دیر نہیں لگاتے! کھانے پینے کی اشیاء میں کئی انواع کے کیڑے کچھ اِس طرح پائے جاتے ہیں کہ ’’مَن تُو شُدم، تُو مَن شُدی‘‘ والی کیفیت پائی جاتی ہے! مُلک بھر میں ایسے سڑک چھاپ ہوٹلوں کی کمی نہیں جن کی ’’انتظامیہ‘‘ کیڑوں کو خوش آمدید کہنے کے معاملے میں خاصی فراخ دِل واقع ہوئی ہے اور اُنہیں خوشی خوشی کھانوں میں ایسا کھپاتی ہے کہ لَذّت دو آتشہ ہو جاتی ہے! کیڑا خوری کے حوالے سے اقوام متحدہ کی اپیل پاکستان کے معاملے میں بر وقت ہے۔ ابھی ابھی انتخابات ہوئے ہیں۔ پولنگ سے قبل ایک ڈیڑھ ماہ انتخابی مہم چلائی گئی۔ اِس مہم کے دوران سیاست دانوں نے ایک دوسرے میں جو کیڑے صرف تلاش ہی نہیں کئے بلکہ قوم کے سامنے پیش بھی کئے اُن کا مصرف کیا ہوسکتا ہے؟ سیاسی مخالفین میں سے چھانٹ چھانٹ کر قوم کے سامنے پیش کئے جانے والے کیڑے ایسے اور اِتنے ہیں کہ ہماری برآمدات میں ایک نئے شعبے کا اِضافہ ہوسکتا ہے! ہمارے لیے تو مسلمان بھائی کا گوشت حرام ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اُس کے کردار میں پائے جانے والے کیڑے بھی حرام ہی ٹھہریں گے۔ ایسے میں بہتر یہ ہے کہ یہ عجیب نسل کے کیڑے ہم دُنیا والوں کے حوالے کریں اور پھر اُن کی حیرانی اور پریشانی دیکھیں! کیڑوں سے اہل پاکستان کی پُرانی دوستی ہے۔ عالمی ادارۂ خوراک و زراعت چاہتا ہے کہ ہم یہ دوستی ختم کردیں اور امریکا بن جائیں۔ امریکا کی یہی تو روش ہے۔ جس سے دوستی کرتا ہے اُسے کھا جاتا ہے!