قوم انتخابات کی منزل سے گزر گئی۔ یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ کِسے کیا ملا ہے۔ اب کیا ہوگا؟ یہ سوال پوری قوم کو ستا رہا ہے اور سیاسی جماعتوں کو کھائے جارہا ہے۔ بقول اطہرؔ نفیس (مرحوم) کہ کوئی نیا احساس ملے گا یا پچھلا ہی سا احوال ہوگا! جمہوریت کی جنگ میں ایک اور معرکہ سَر ہوا۔ انتخابی نتائج تقریباً تمام آچکے ہیں اور قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہوچلا ہے۔ پوری قوم حساب کتاب میں جُتی ہے کہ کون کِس سے جا مِلے گا یا آ مِلے گا اور کون کِس سے رفاقت ختم کرکے وقت کے دھارے میں بہنا، وقت کا بیٹا بننا پسند کرے گا! اِس بار بھی مینڈیٹ کم و بیش منقسم ہی ہے۔ ایسے میں کہیں چُوں چُوں کا مُربّہ بنے گا اور کہیں سانجھے کی ہنڈیا چولھے پر چڑھے گی۔ ہر جماعت چاہتی ہے کہ حکومت نہ بھی بناسکے تو کم از کم حکمراں سیٹ اپ کا حصہ ضرور بنے۔ بعض اوقات، بلکہ عموماً حکومت میں شامل ہونے کی خواہش تیزی سے شِدّت اختیار کرتے ہوئے ہوس میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ کئی جماعتیں ایسی ہیں جو اقتدار سے الگ رہ کر زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتیں۔ گویا ع زندہ رہنے کی تگ و دَو نے ہمیں مار دیا! ن لیگ کو پنجاب میں دو تہائی سے زائد اکثریت حاصل ہوچکی ہے۔ اور وہ وفاق میں بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔ ایسے میں وہ دیگر صوبوں میں بھی ایڈوانٹیج لینے کی کوشش کرے گی۔ ایسا کرنا ہوگا تو فِطری مگر شاید جمہوریت کے لیے کچھ زیادہ موزوں نہ ہو۔ خیبر پختونخوا میں ن لیگ کے لیے حکومت تشکیل دینا مشکل ہوگا مگر وہ اِس کے لیے بھی متحرک ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کو حکومت سازی سے روکنا ہے تو کم نشستیں جیتنے والی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو ساتھ ملانا پڑے گا۔ یہ عمل اچھی خاصی جماعتوں کو پھر پریشر گروپ میں تبدیل کرے گا اور وہ اپنی شرائط منوانے کے لیے ایسا ایڈوانٹیج چاہیں گی جس کا بھگتان عوام کے حصے میں آئے گا۔ اور اگر مرحلہ زیادہ جاں گُسل ہوا تو کم نشستوں والی جماعتوں کو محض قیمت نہیں بلکہ مُنہ مانگی قیمت مِلے گی۔ ہمارے ہاں ہوتا تو یہی رہا ہے کہ حکومت سازی کے مرحلے میں سب اپنے اُصولوں اور نظریات کو یکسر نظر انداز یا ترک کرتے ہوئے وہی سب کچھ کرنے لگتے ہیں جو اقتدار کی ہوس میں کیا جاسکتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے انتخابی نتائج ن لیگ کے لیے آزمائش کا درجہ رکھتے ہیں۔ بڑی آزمائش یہ ہے کہ ن لیگ کی قیادت اعصاب کِس طور قابو میں رکھتی ہے اور بظاہر موافق صورتِ حال نہ ہونے پر بھی حکومت سازی کی خواہش کو کِس طور لگام دیتی ہے! ن لیگ کو اِس بار بہت کچھ ثابت کرنا، اور اِس سے کہیں بڑھ کر، بہت کچھ ثابت ہونا ہے۔ پیر کو جاتی عمرہ (رائیونڈ) میں محمد شہباز شریف نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کو حکومت بنانے کا موقع ملنا چاہیے۔ یہ بیان خوش آئند ہونے سے زیادہ حیرت انگیز ہے۔ ایسی وسیع النظری اگر سابق ادوار میں بھی پائی جاتی تو جمہوریت کا چراغ بار بار گُل نہ ہوا ہوتا! خیبر پختونخوا کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ تحریکِ انصاف حکومت بنائے یا اُسے حکومت بنانے دیا جائے۔ حکومت سازی کا مرحلہ قوم کے لیے عموماً بہت مشکل اور بعض اوقات تو سخت نامسعود ثابت ہوتا رہا ہے۔ جہاں حکومت بنانے کی ذرا بھی گنجائش نظر نہ آتی ہو وہاں حکومت سازی سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر ابتدائی مرحلے ہی میں محاذ آرائی اور مخاصمت کو پروان چڑھنے کا موقع مل گیا تو آگے صرف خرابیوں ہی کا سامنا ہوگا۔ قوم کو محاذ آرائی نہیں، مفاہمت درکار ہے۔ اُصولوں کو ترک بھی نہ کیا جائے اور اُصولوں کو غیر لچکدار بناکر اُن پر اَڑا بھی نہ جائے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔ یہ حقیقت متحدہ قومی موومنٹ بھی جانتی ہے۔ اگر وہ حکومتی سیٹ اپ کا حصہ نہ بنی تو؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔ اتوار کی شام تک پیپلز پارٹی کی طرف سے عِندیہ دیا جانے لگا تھا کہ صوبے کے مجموعی مفاد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وہ سندھ حکومت میں متحدہ کو ساتھ لیکر چلے گی۔ پیر کو بلاول ہاؤس میں صدر آصف علی زرداری کی صدارت میں پیپلز پارٹی کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ متحدہ قومی موومنٹ کو صوبائی حکومت میں شمولیت کی باضابطہ دعوت دی جائے گی۔ سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد نے بھی بلاول ہاؤس میں صدر زرداری سے ملاقات کی اور سندھ میں حکومت سازی سے متعلق اُمور پر تبادلۂ خیال کیا۔ جمہوریت اپنے نئے دور یا دورانیے میں داخل ہو رہی ہے۔ بجٹ سَر پر ہے۔ ن لیگ کو حکومت سنبھالتے ہی بجٹ پیش کرنا ہے۔ اِس مرحلے پر اختیار کی جانے والی دانش مندی اور فراست ہی طے کرے گی کہ پانچ برس تک اُس کی حکمرانی کِس نوعیت کی اور کِتنی طاقتور ہوگی۔ عوام کی حمایت سے تقدیر ایک بار پھر ن لیگ کو اقتدار کے ایوانوں تک لائی ہے۔ یہ وقت ویسے تو اور بھی بہت کچھ پانے اور کمانے کا ہے مگر توجہ نام کمانے پر دی جائے تو فائدہ طویل المیعاد ہوگا۔ اقتدار کی وسعت کا تعین سب سے بڑی جماعت کو خود کرنا ہے۔ امریکی فوج کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ over-stretched ہے یعنی گنجائش اور سَکت سے کہیں بڑھ کر پَیر پسار رکھے ہیں۔ اب امریکی حکومت اپنے وسائل کا متعدبہ حصہ اِس کیفیت کو برقرار رکھنے پر صرف کر رہی ہے! میاں نواز شریف نے اتوار کو کہا تھا کہ امریکا کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے اور آئندہ بھی مل کر کام کریں گے۔ اِس تجربے سے میاں صاحب کو اِتنا ضرور سیکھنا چاہیے کہ اقتدار اُتنا ہی اچھا ہوتا ہے جتنا maintain کیا جاسکے۔ دستر خوان زمانے بھر کی نعمتیں بھی سجی ہوں تو اِنسان کو اُتنا ہی کھانا چاہیے جتنا کِسی دُشواری کے بغیر ہضم ہوسکتا ہو! ایک بڑی اور ملک گیر جماعت کی حیثیت سے ن لیگ کو جو کچھ کرنا ہے اُس کا تقاضا ہے کہ ساری توانائی اقتدار کو برقرار رکھنے پر صرف (یا ضائع) نہ ہو! مخالفین ٹف ٹائم دینے کے لیے بے تاب ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اِس ٹف ٹائم کو میاں صاحب کِس طرح ٹف ٹائم دیتے ہیں۔ مُشیروں کی کہکشاں میں سلیم الطبع سِتارے شامل کرنا بھی اُن کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔