"MIK" (space) message & send to 7575

منظور وسان کا نیا خواب

ہم تو مایوس ہوچلے تھے۔ رحمٰن ملک نے بھی چُپ سادھ لی ہے، بلکہ ہونٹوں پر تالا لگا لیا ہے۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا پہلے ہی علالت کے باعث مُہر بہ لب ہیں۔ جتنا قہر وہ ڈھا سکتے تھے، ڈھا چکے۔ اور پارٹی سے جس قدر مہر و وفا کی توقع تھی وہ بھی پاچکے۔ بقول اطہر نفیس ع کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں، پھر ’’سَچّا شعر‘‘ سُنائیں کیا! ذوالفقار مرزا کی ’’شگفتہ بیانی‘‘ کا معاملہ بھی عجیب ہی تھا۔ بقول احمد ندیم قاسمی ؎ چُھپ چھُپ کے روؤں اور سر انجمن ہنسوں مُجھ کو یہ مشورہ مِرے درد آشنا کا تھا وہ جب بھی بولتے تھے، سچ بولنے کا دعویٰ کرتے تھے۔ مگر اب اُن کی اپنی پارٹی شکست جیسی عظیم ترین سَچّائی سے ٹکرائی ہے تو موصوف آئینہ دیکھنے سے کترا رہے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین کو ناموافق انتخابی نتائج کے سانپ نے سُونگھ لیا ہے! سمجھ میں نہ آنے والی گفتگو کا فن تو اُن پر ختم ہے۔ مگر اب لگتا ہے وہ آسانی سے سمجھ میں آنے والی باتیں بھی نہیں کریں گے کیونکہ انتخابی نتائج اُن کی اپنی گفتگو جیسے ہوگئے ہیں جو خود اُن کی سمجھ میں بھی نہیں آرہے! قوم نے اُن کی گفتگو سے صرف ایک جُملہ اچھی طرح سمجھ کر کشید کیا اور ووٹ کی پرچی ہاتھ میں آتے ہی اُن کی پارٹی پر مِٹّی ڈال دی! انتخابات کے بعد سب جاگتی آنکھوں سے اقتدار کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اور اہلِ وطن یہ تماشا دیکھ کر اُوب سے گئے ہیں۔ خیر ہو منظور وسان کی جنہوں نے خانہ ساز پریس کانفرنس میں اپنا ایک اور خواب بیان کرکے اہل وطن کے ہونٹوں کے لیے تھوڑی سی مُسکان کا اہتمام کیا ہے۔ منظور وسان کی شخصیت پر خواب خوب جچتے ہیں۔ جب بھی لوگ پیپلز پارٹی سے نالاں ہوکر کچھ ایسا ویسا سوچنے لگتے ہیں، منظور وسان نئے خوابوں کے ساتھ میڈیا مارکیٹ میں آتے ہیں اور تھوڑی بہت ہلچل پیدا کرکے لوگوں کا غم غلط کرتے ہیں! پیپلز پارٹی نے مینڈیٹ کے مطابق پانچ برس کی جو میعاد پوری کی ہے وہ بھی اِس قوم کو ایک بھیانک خواب کے مانند یاد رہے گی! بہت کچھ تھا جو حقیقت سے خواب میں تبدیل ہوا۔ پھر محض خواب و خیال ہوکر رہ گیا! بعض چیزوں کا نام و نشان تو ایسا مٹا ہے کہ بُھولے بھٹکے سے کبھی خواب میں نہیں پدھارتا! ریلوے ہی کی مثال لیجیے۔ اُجڑے ہوئے پلیٹ فارم بھیانک خواب بھی ہیں اور اُنہی خوابوں کی تعبیر بھی۔ بجلی بھی ایسی گئی ہے کہ ظالم خواب میں بھی درشن دینے سے کتراتی ہے۔ اب اگر کِسی کو بجلی چاہیے تو ناہید اختر کا ’’بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں‘‘ والا گانا سُنے۔ کم از کم تصور کی حد تک تو چند ایک جھٹکے پا ہی لے گا! انتخابات کے بعد درشن دینے والے نیم خوابیدہ ماحول میں منظور وسان کا لب کُشا ہونا خوش آئند ہے کہ ہم جیسے خوشہ چینوں کو اُن کے خِرمن سے کچھ تو عطا ہوا! خوابوں کی ڈگڈگی بجاکر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے والے منظور وسان سندھ کے وزیر داخلہ رہ چکے ہیں۔ خوابوں کی مناسبت سے یہ بھی اُن کے لیے بُرا سَودا نہیں تھا کیونکہ محکمۂ داخلہ بہتوں کے لیے بھیانک خواب سے کم نہیں! شاید محکمۂ داخلہ کی نوعیت کا تاثر زائل کرنے اور لوگوں کی دل بستگی کا سامان کرنے کی نیت ہی سے منظور وسان سُہانے خواب سُناتے آئے ہیں! تازہ ترین پریس کانفرنس میں موصوف نے بتایا ہے کہ بی بی (بے نظیر بھٹو) خواب میں آئیں اور نوید سُنائی کہ اِس بار سندھ میں جوان وزیر اعلیٰ آئے گا! خواب کی تفصیل کے مطابق بی بی نے یہ مُژدۂ جاں فزا بھی سُنایا کہ اب کے سندھ میں گڈ گورننس ہوگی۔ منظور وسان سے جب پوچھا گیا کہ متحدہ سے اتحاد ہوگا یا نہیں تو اُنہوں نے کہا کہ اِس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ بی بی نے حالات کا رُخ دیکھتے ہوئے منظور وسان کے خواب میں جو کچھ کہا ہے وہ کچھ ایسا غلط یا بعید از حقیقت بھی نہیں۔ شُنید ہے کہ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت میں کئی اہم شخصیات چاہتی ہیں کہ سید قائم علی شاہ کو سندھ کے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھا رہنے دیا جائے۔ اگر قائم علی شاہ پھر وزیر اعلیٰ بنائے گئے تب بھی بی بی کا کہا غلط ثابت نہیں ہوگا۔ جوانی کا تعلق عمر سے نہیں، دِل سے ہے۔ دِل ہونا چاہی دا جوان، عُمراں چ کی رکھیا اے! ویسے بھی یار لوگ چاہتے ہیں کہ سندھ کا وزیر اعلیٰ وہ ہو جس کا صرف دِل جوان ہو، ہاتھوں میں جنبش نہ ہو بلکہ صرف آنکھوں میں دم ہو۔ جوان ہڈیوں والا کوئی متحرک وزیر اعلیٰ آگیا تو بات بات پر حساب مانگے گا اور یاروں کو لینے کے دینے پڑجائیں گے! گڈ گورننس کی نوید بھی غلط نہیں ہوسکتی۔ پچھلی بار پیپلز پارٹی نے مرکز اور سندھ میں حکومت بنائی تھی اِس لیے کام کی زیادتی نے ’’پریشر کا دباؤ‘‘ٔ بڑھا دیا تھا۔ ایسے میں گڈ گورننس کیسے ممکن ہو پاتی؟ ویسے بھی پارٹی کی قیادت اہم سرکاری اداروں سے نمٹنے یعنی ’’گڈز گورننس‘‘ میں مصروف رہی! اب پیپلز پارٹی کے پاس سندھ رہ گیا ہے اِس لیے وہ مرکز کے بکھیڑوں میں اُلجھنے محفوظ رہے گی۔ محض ایک صوبے کی حکومت چلانا اُس کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ثابت ہوگا۔ یہ اندازہ لگانا آپ کا کام ہے کہ دایاں ہاتھ اپنے لیے کون سی مصروفیت ڈھونڈے گا! متحدہ سے اتحاد کا معاملہ منظور وسان گول کرگئے۔ روکا کِس نے تھا؟ جہاں اور بہت سی باتیں اُنہوں نے بی بی کے کھاتے میں ڈالی ہیں وہیں متحدہ سے اتحاد کا معاملہ بھی ڈال دیتے! خواب کیا بیان کیا، منظور وسان نے اچھی خاصی مُرصّع سیاسی غزل ہم سب کی نذر کی۔ مگر کیا کیجیے کہ غزل کے ختم ہوتے ہوتے متحدہ کا معاملہ وارد ہوگیا۔ ع مقطع میں آپڑی ہے سُخن گسترانہ بات اپنے خواب کے حوالے سے جو کچھ منظور وسان نے بیان کیا اُس کی صداقت کے بارے میں تو ہم بدگمان نہیں ہوسکتے مگر یونہی ذہن میں ایک خیال، بلکہ سوال بجلی کی طرح کوندا ہے۔ جو کچھ پیپلز پارٹی نے پانچ برسوں میں کیا ہے کیا اُسے دیکھتے ہوئے بی بی کِسی کے خواب میں آکر اِس پارٹی کے بارے میں کوئی رائے دینا پسند کریں گی؟ منظور وسان خواب بیان کرنے کے بہانے میڈیا کی توجہ پانے کے لیے متحرک ہوئے تو سندھ کے سابق وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن بھلا کیوں پیچھے رہتے؟ شرجیل میمن نے قوم کی معلومات میں اِضافے کی خاطر اپنے گھر میں پریس کانفرنس کر ڈالی۔ تمام بڑے چینلز کی ڈی ایس این جیز جمع کرکے بتانا صرف یہ تھا کہ سندھ میں وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا ہوگا کیونکہ صوبائی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل ہوچکی ہے! شرجیل میمن نے شاید یہ سوچا کہ اِتنا زبردست نکتہ کافی نہ ہو اِس لیے ضمیمے کے طور پر یہ بھی فرمایا کہ تاریخ ایک دن انتخابی نتائج کا پول کھول دے گی! موصوف کا یہ بھی کہنا تھا کہ دھاندلی کے ثبوت موجود ہیں مگر میڈیا کے سامنے کوئی شکوہ شکایت نہیں کرنا چاہتے! عقل حیران ہے کہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی واضح اکثریت کے بارے میں تو پوری قوم پہلے ہی سے جانتی ہے، اِس لیے کوئی بچہ بھی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ بھی پیپلز پارٹی ہی کا ہوگا۔ شرجیل میمن نہ بتاتے تو کیا ہم اندازہ نہ لگا پاتے کہ وزارتِ اعلیٰ کِس پارٹی کی جھولی میں گرنے والی ہے؟ اور اِس نُکتے کی کیا منطق ہے کہ دھاندلی کے ثبوت موجود ہونے پر بھی میڈیا کے سامنے کوئی گلہ شِکوہ نہیں کرنا چاہتے؟ کیا کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کِسی کے پاس حریف کی دھاندلی کا ثبوت ہو اور وہ میڈیا کے میلے میں آکر ڈھول نہ بجائے؟ شرجیل میمن تو منظور میمن کے خواب کا مزا کِرکِرا کرنے پر تُل گئے! فی الحال ہمیں منظور وسان صاحب کے تازہ خواب کے سِحر میں گم رہنے دیجیے۔ دھاندلی کے ثبوت ہونے پر بھی حریفوں کا بھرم رکھنے کی کوشش سے ہم پھر کبھی محظوظ ہولیں گے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں