پنجاب کی زمین بہت زر خیز ہے۔ اِس حقیقت سے اِنکار کی حماقت کِس سے سرزد ہوسکتی ہے؟ مگر صاحب، یہ بھی طُرفہ تماشا ہے کہ پیداوار کے معاملے میں پنجاب کے کھیتوں کو تانبے کے تاروں نے شکست دے دی ہے جن میں لوڈ شیڈنگ کی پیداوار ہمارے اندازوں، ’’ظرف‘‘ اور ’’ضرورت‘‘ سے کہیں زیادہ ہے! جانے والی حکومت کا شکریہ کہ اُس نے پانچ برسوں میں لوڈ شیڈنگ کی پیداوار کے معاملے میں مُلک کو عالمی برادری میں بلند مقام عطا فرمایا! تین چار برس کے دوران باری کا بہت چرچا رہا ہے۔ کون ہے جس نے نہیں سُنا کہ اب نواز شریف کی باری ہے؟ خُدا خُدا کرکے بے یقینی کا اندھیرا ختم اور انتخابات کا سُورج طلوع ہوا۔ اب خیر سے اُجالا پھیل چکا ہے۔ توقعات کا ڈھیر لگا ہے۔ اُمیدوں کی گٹھڑی بھی کھولے جانے کے لیے بے تاب ہے۔ سبھی کو آس لگی ہے کہ اب دِل کی مُرادیں بر آئیں گی۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ اگر سُنی سُنائی باتوں کو دُرست تسلیم کرلیا جائے تو میاں صاحب کی باری آچکی ہے۔ اب توانائی کے بحران کی باری بھی آ جانی چاہیے۔ شیر بے تاب ہے کہ کب موقع ملے اور توانائی کے بحران کی گردن دبوچے۔ یہ تماشا دیکھنے کو ہم بھی بے تاب ہیں۔ کوئی نہیں چاہتا کہ بجلی کے بحران کی بکری اور مینڈیٹ کا شیر ایک گھاٹ پر پانی پئیں! تیر نے جب حکومت سنبھالی تھی تب جن مسائل کا سینہ چھلنی کرنے کا وعدہ کیا تھا اُن میں لوڈ شیڈنگ کو ’’میر کارواں‘‘ کا درجہ حاصل تھا۔ توانائی کا بحران ختم کرنے کے نام پر تیر چلایا تو گیا مگر توانائی کا بحران تو جُھکائی دیکر ایک طرف ہٹ گیا اور نشانے پر قوم آگئی! مُروّت نے اِس قوم کو کہیں نہ رکھا۔ مَنّت مُرادوں سے قائم ہونے والی عوامی حکومت نے توانائی کے شدید تر بحران کا ’’تحفہ‘‘ دیا اور بے چاری قوم سے اِنکار نہ ہوسکا۔ بجلی کی قِلّت اِس طور بڑھائی اور پھیلائی گئی جیسے دو جہاں کی نعمت ہو ! اب شیر انگڑائی لیکر بیدار ہوا ہے اور لوڈ شیڈنگ کے شِکار کو نکلا ہے۔ اہل وطن کے دِلوں میں اور ہونٹوں پر ایک ہی دُعا ہے کہ شیرتوانائی کے بحران کو چیر پھاڑ کر رکھ دے! ہماری سیاست مفادات کے جنگل میں تبدیل ہوچکی ہے اور اِس جنگل میں اب بجلی ایک ایسی چالاک لومڑی ہے جو موہنی سی چَھب دِکھاکر، میٹھی سی دُھن سُناکر غائب ہو جاتی ہے۔ اکھیاں اُڈیکدی رہتی ہیں اور یہ نہر والے پُل تے بُلاکے خورے ماہی کی طرح کدھر غائب ہو جاتی ہے! پنجاب میں حالت یہ ہے کہ بجلی ایک گھنٹہ آتی ہے اور چار گھنٹوں کے لیے سُندر مُکھڑا چُھپالیتی ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کِسی پیاسے کو پانی سے بھرا ہوا گلاس دیا جائے اور محض ایک گھونٹ پلاکر گلاس ہٹالیا جائے۔ یہ تو پیاس کو جی کا جنجال بنانے کی سازش ہوئی! بقول داغؔ دہلوی ؎ لے چلا جان مِری رُوٹھ کے جانا تیرا ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تیرا! نامُراد لوڈ شیڈنگ کے ہاتھوں تجارت خاک بہ سَر ہوئی، صنعتیں جاں بہ لَب ہیں اور جن سے عوام کو خستگی کی کچھ داد پانے کی توقع تھی وہ مُہر بہ لَب ہیں! لوڈ شیڈنگ نے سب کے ذہنوں میں پریشانی، صنعتوں میں عدم پیداوار اور تجارت میں خسارہ اپ لوڈ کردیا ہے۔ شِکار شیر کرے یا کوئی اور، لوڈ شیڈنگ کو ’’تڑی پار‘‘ ہونا ہی چاہیے۔ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں کمی تھی نہ ہے۔ سوال تو نیت کے اَرتھ اور ارادوں کے کرنٹ کا ہے۔ بہتر ہے کہ لائن لاس کا رونا زیادہ نہ رویا جائے۔ جہاں اِتنے بہت سے خسارے ہم جھیل رہے ہیں وہاں ایک اور سہی۔ میاں صاحب نے اِس بار پہلے قدم پر فِکر کی پُختگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ توانائی کے بحران کا خاتمہ مسلم لیگ (ن) کی اوّلین ترجیح ہے۔ راجا پرویز اشرف کا انجام میاں نواز شریف کو یاد ہے اِس لیے کوئی ڈیڈ لائن دینے سے گریز کیا ہے۔ راجا پرویز اشرف نے حکومت سازی کا مرحلہ مکمل ہوتے ہی بجلی کے بحران کو دسمبر 2009ء تک ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ اور یہ اعلان اُن کی وزارت کے حلق میں اٹک گیا! سیاست دانوں کی ایک بڑی پہچان یہ ہے کہ دوسروں کو زحمت نہیں دیتے، اپنے حلق کے لیے ہَڈّی خود منتخب کرتے ہیں! پرویز اشرف چونکہ راجا ہیں اِس لیے شاہانہ انداز سے فَیّاضی کا مُظاہرہ کرتے ہوئے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی ڈیڈ لائن دے ڈالی۔ اور یہ حماقت اُن کی وزارت کے لیے الیکٹرک چیئر بن گئی! خیر گزری کہ مخدوم یوسف رضا گیلانی نے سیٹ چھوڑ دی تو راجا پرویز اشرف کو بھی ’’خادم‘‘ بننے کا موقع ملا ورنہ سب کچھ خاک میں مِل جاتا! میر ببر علی انیسؔ نے کہا تھا ع کِس شیر کی آمد ہے کہ رَن کانپ رہا ہے اہل وطن شیر کو توانائی کے بحران سے نبرد آزما ہوتا ہوا دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں۔ بے تاب یوں ہیں کہ شیر کی فتح اُن کی بے تابی کے سُورج کو ٹھنڈا کرے گی۔ لوڈ شیڈنگ نے اِس قوم کو اُس مقام پر پہنچادیا ہے کہ آگے بڑھنے کی تاب نہیں۔ پانچ سالہ جمہوری جنگ کا پہلا معرکہ شروع ہوا چاہتا ہے اور تماشائیوں کی نیک خواہشات شیر کے ساتھ ہیں۔ قوم کو بجلی کے بحران سے دوچار کرنے والے بازی آسانی سے تو ہارنے کو تیار نہ ہوں گے۔ چالیں بھی چلی جائیں گی، دھوکے بھی دیئے جائیں گے، لالچ بھی دیا جائے گا، دھمکانے سے بھی گریز نہ کیا جائے گا۔ یہ معرکہ ثابت کردے گا کہ مسلم لیگ (ن) کے تِلوں میں کِتنا تیل اور بازوؤں میں کِتنا دَم ہے۔ بحرانوں کے ہاتھوں بے دَم بے سُدھ ہونے والی قوم چاہتی ہے کہ سیاست کے جنگل میں مفاد پرستی کی لومڑی اور رَسّا کشی کے بھیڑیوں کا راج نہ ہو بلکہ مثبت فِکر اور واضح اہداف کے ساتھ سینہ تان کر چلنے والے شیر کی حکومت ہو۔ میاں صاحب نے توانائی کے بحران کو للکار کر پہلے معرکے کا بگل بجا دیا ہے۔ اب قوم فتح کے شادیانے بجانے کی راہ دیکھ رہی ہے۔ اِس معرکے میں اگر توانائی کا بحران ہار گیا تو مسلم لیگ (ن) یا میاں صاحب کی صرف جیت ہوگی، فتح قوم کا مُقدّر بنے گی!