مبارک سلامت کا شور اب تھمتا جارہا ہے۔ کارکن لُڈّی ’’پا‘‘ چُکے، بھنگڑے ڈال چکے۔ مٹھائیاں بٹ چُکیں، دِل قرار پاچکے۔ مبارک سلامت کی سرگرم میں آخری تان وہ تھی جس کا سب کو بے چینی سے انتظار تھا۔ صدر آصف علی زرداری نے بھی مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کو شاندار انتخابی کامیابی پر مبارک باد دے ہی دی۔ میاں صاحب نے صدر زرداری سے شِکوہ کیا کہ بہت دیر کردی۔ میاں صاحب کو اُن کی مجبوریاں سمجھنی چاہئیں۔ ع ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا میاں صاحب حکومت تشکیل دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ بہت عجیب مرحلہ ہوتا ہے۔ جس طرح پانی آپ اپنی پنسال میں آ جاتا ہے بالکل اُسی طرح سیاسی نشیب میں پتھر لُڑھکتے لُڑھکتے اقتدار کی گھاٹی میں گِرنے کو بے تاب دِکھائی دیتے ہیں۔ اسلام آباد کی سیاسی کہکشاں میں اقتدار کا نیا نظام شمسی نمودار ہو رہا ہے۔ اب اِس نظام شمسی کو ضرورت ہو یا نہ ہو، بہت سے سَیّارے از خود نوٹس کے تحت اِس کا حِصّہ بننے کو بے تاب ہیں۔ علامہ اقبالؔ نے فرمایا تھا۔ ع جذب باہم جو نہیں، محفل انجم بھی نہیں یہ باہمی کشش ہے جو ستاروں کو ایک نظم میں رکھتی ہے، مالا کی طرح پرویا ہوا رہنے دیتی ہے۔ سیاسی ستارے بھی ایسے احمق تو نہیں کہ کائنات کے نظام سے کچھ بھی نہ سیکھیں! ن لیگ کے اقتدار کا سُورج طلوع ہو رہا ہے تو سب اِس سُورج کے گرد جمع ہو رہے ہیں تاکہ کھانا پینا چلتا رہے، اور بقول محسنؔ بھوپالی مرحوم، تسلسل ٹوٹنے نہ پائے! انتخابات کا سفر ختم ہوا۔ اسلام آباد کے ایوان ہائے اقتدار کے اسٹیشن پر ن لیگ کی ٹرین آلگی ہے تو سبھی پلیٹ فارم پر ٹوٹے پڑ رہے ہیں۔ سبھی چاہتے ہیں کہ کِسی نہ کِسی طور اِس ٹرین پر سوار ہو جائیں۔ دس برس سے زیادہ گزر چکے، اہل سیاست کا یہ حال ہے کہ اپوزیشن میں بیٹھنے کو تیار نہیں۔ حال ہی میں ختم ہونے والی پانچ سالہ جمہوری میعاد میں بھی اپوزیشن کے نام پر نُورا کشتی ہی کے درشن ہوتے رہے۔ سب کے مُنہ پر اقتدار کا خُون لگ چکا ہے۔ آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں۔ جَپھیاں ڈالنے کے لیے ایک دوسرے کو دھکیل کر راہ سے ہٹایا جارہا ہے۔ میاں صاحب کے لیے یہ سب کچھ نیا نہیں۔ وہ دو بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ جب بھی حکومت کی تشکیل ہو رہی ہوتی ہے، بہت سے پروانے کھنچے چلے آتے ہیں۔ اقتدار کی شمع ہے ہی ایسی جاں سوز کہ سب اِس کی لَو میں جل مرنے کیلئے اُتاؤلے ہوئے جاتے ہیں۔ ن لیگ چاہے گی کہ مرکز میں مضبوط حکومت بنے۔ مگر اِس حکومت کو غیر معمولی استحکام دینے کی کوشش مسائل بھی پیدا کرسکتی ہے۔ پنجاب میں تو ن لیگ کی ایسی واضح اکثریت ہے کہ کِسی کو ساتھ ملانے کی ضرورت ہی نہیں۔ جب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہاتھ میں ہے تو پھر غم کِس بات کا ہے؟ مرکز میں زیادہ سے زیادہ ارکان کی حمایت کا حُصول مستحسن بات ہے مگر اِس کی کوئی منطق ضرور ہونی چاہیے۔ پوزیشن مستحکم کرنے کے نام پر کہیں ایسا نہ ہو کہ سب کچھ اُسے برقرار رکھنے ہی پر صرف، خرچ یا ضائع ہو جائے! اگر کوئی حمایت کرنے پر تُلا ہوا ہو تو اِنکار کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ ن لیگ بھی چاہے گی کہ مرکز اور صوبوں میں اُسے زیادہ سے زیادہ ارکان کی حمایت مِلے۔ جسے دیکھیے وہ ن لیگ کے مینڈیٹ کا مُنہ موتیوں سے بھرنے پر کمر بستہ ہے۔ یہ اچھی بات ہے مگر ساتھ ہی یہ دیکھ لینے میں بھی کچھ ہرج نہیں کہ موتی کِس درجے کے ہیں! قوم یہ تماشا دم بخود ہوکر دیکھ رہی ہے۔ کبھی کبھی یہ تماشا ایسا رنگ اختیار کرلیتا ہے کہ دیکھنے والے خود تماشائی بن جاتے ہیں۔ ؎ محفل میں سبھی دیکھ رہے ہیں تِری جانب ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں! ن لیگ کی ٹرین میں سوار ہونے والوں کی بے تابی دیکھ کر حیرت نہ ہو تو کیا ہو؟ تمام اختلافات اور تنازعات ذاتی مفادات کی چوکھٹ پر قربان! سبحان اللہ۔ اگر ایسا ہی اتفاق قومی مفادات کے حوالے سے بھی پایا جائے تو کوئی غم کیوں باقی رہے؟ ن لیگ کی قیادت کو یاد رکھنا ہے کہ لوگ اتحادیوں کی کثرت نہیں، مینڈیٹ کا نتیجہ چاہتے ہیں۔ بجلی آنی چاہیے، پانی ملنا چاہیے، سڑکیں اِس قابل ہونی چاہئیں کہ اُن پر روانی سے، بلا خوف و خطر سفر جاری رکھا جاسکے۔ کوئی شمع ہے تو ہوا کرے۔ کوئی پروانہ بن کر جل مرنے کے لیے تیار ہو تو ہوا کرے۔ شمع کے گرد پروانے اِتنے نہیں ہونے چاہئیں کہ اُس کی لَو روشنی دینے کے بجائے پروانوں کی جانوں کا نذرانہ وصول کرنے ہی پر صرف ہوجائے! نفرت کرنے والوں کو دُور کرنا آسان ہے، محبت کرنے والوں اور جان لُٹانے کی خواہش رکھنے والوں سے بچنا ایسا مشکل کام ہے کہ کبھی کبھی تو ناممکن کی حد کو چُھوتا دِکھائی دیتا ہے! میاں صاحب کے حافظے میں بہت کچھ ہوگا۔ گزشتہ دو ادوار بھی اور دوسری حکومت سے محروم ہونے کے بعد گزرے ہوئے تلخ اَیّام بھی۔ جو چند نئی باتیں اُنہیں یاد رکھنی ہیں اُن میں سر فہرست یہ ہے کہ اِنکار بھی کارڈ کی طرح ہے جسے موزوں ترین لمحے پر شو کرنا ہوتا ہے۔ میاں صاحب کے لیے یہ کارڈ شو کرنے کا وقت آگیا ہے۔ بے مانگے بھی محبت نچھاور کرنے والوں اور از خود نوٹس کے تحت ’’مان نہ مان، میں تیرا مہمان‘‘ کی حیثیت اختیار کرنے والوں سے میاں صاحب کو صاف کہہ دینا چاہیے ؎ عزیز اِتنا ہی رَکّھو کہ جی بَہل جائے اب اِس قدر بھی نہ چاہو کہ دَم نِکل جائے! جو آج میاں صاحب کے قدموں میں بچھے جارہے ہیں، ریشہ خطمی ہوئے جارہے ہیں وہی اپنے مفادات کو تکمیل کی منزل سے بہت دور دیکھ کر کل اِس طور الگ ہوں گے کہ میاں صاحب سوچتے ہی رہ جائیں گے کہ ع تِری تلاش میں جائیں تو ہم کہاں جائیں؟ اقتدار کی شمع کے گرد والہانہ رقص کرنے والے پروانوں کی وفاداری پر ایک لمحے کے لیے بھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اقتداری سیاست میں یہ سب ہوتا ہی ہے۔ ؎ مُحبتوں میں عجب ہے دِلوں کو دَھڑکا سا نہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے! ن لیگ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آتے ہی مقناطیس میں تبدیل ہوگئی ہے۔ سبھی کِھنچتے چلے آرہے ہیں۔ اِس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ جنہیں اقتدار کے مقناطیس سے آ لگنا ہے اُن کے یوں کِھنچے چلے آنے پر اچنبھا کیسا؟ یہ تو مقناطیس کو سوچنا ہے کہ اُس سے کِس کِس کو چپکنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ بعد میں سب کو کھینچے رکھنے ہی میں مینڈیٹ کے مقناطیس کی ساری توانائی زائل ہوجائے! اِنکار بر وقت اور ضرورت کے مطابق ہو تو غیر ضروری اور نیم دِلانہ اِقرار سے بہ درجہا بہتر ہوتا ہے۔ مکمل اتفاق رائے کی تلاش کہیں اُن راہوں پر نہ پہنچادے جو شدید اختلافِ رائے اور پھر انحطاط و زوال کی طرف لے جاتی ہیں۔ ن لیگ کے مرکزی اقتدار کا تیسرا دور شروع ہونے والا ہے۔ اِس تیسرے دور کی ٹرین میں غیر ضروری اور مفاد پرست مُسافر وہی کردار ادا کرسکتے ہیں جو غلام احمد بلور نے پاکستان ریلوے کے لیے ادا کیا! ن لیگ خود کو ایسا چَھجّا نہ بنائے کہ جس پر کوئی بھی پرندہ آکر بیٹھے، سُستائے اور پیٹ بھرنے کے بعد بیٹ کرکے اُڑ جائے!