اُصول ہمیشہ سیدھے اور سادہ ہوتے ہیں۔ ہم ہی نہ سمجھ پائیں تو کوئی کیا کرے؟ مثلاً غربت کو ختم کرنا ہے تو غریبوں کو ختم کردو! جرائم کی ٹارگٹ کلنگ کرنی ہے تو مجرموں کا انکاؤنٹر کردو! سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار گرنے لگا تو ہم نے یہ آسان سا اُصول اپنایا اور سرکاری تعلیمی اداروں کو ٹھکانے لگادیا! اب بجلی کے بحران کی باری ہے۔ کوئی بھی چیز مِلتے مِلتے اچانک نہ مِلنے لگے تو بُری طرح کَھلتی ہے۔ یہی حال بجلی کا ہے۔ لوگوں کو جب بجلی نہیں مِلتی تب وہ بلبلا اُٹھتے ہیں۔ یعنی بجلی کا بحران ختم کرنے کے لیے بجلی کو ٹھکانے لگانا پڑے گا! اور یہ کام کچھ ایسا مشکل بھی نہیں: ؎ ذرا سی ہمتِ پرواز کی ضرورت ہے نہیں ہیں دُور بہت شاخِ آشیاں سے ہم! ریلوے کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ خواہ مخواہ کا ٹنٹا لگا ہوا تھا۔ درجنوں ٹرینیں اِدھر سے اُدھر دوڑتی پھرتی تھیں اور لوگوں کو پریشان کرتی رہتی تھیں۔ ٹرینیں چل رہی تھیں تو لوگوں کو اُن میں بیٹھنا بھی پڑتا تھا۔ آنیاں جانیاں لگی رہتی تھیں۔ درجنوں غیر منافع بخش ٹرینوں کو بند کرکے حکومت نے لوگوں کو گھر بیٹھنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اچھا ہے وہ گھر والوں کو بھی کچھ وقت دے لیتے ہیں۔ گھریلو زندگی مستحکم ہو رہی ہے۔ یہ ہے ٹرینوں کی بندش کا معاشرتی فائدہ! کِسی بھی شعبے میں خدمات مِلتی رہتی ہیں تو مسائل پیدا کرتی ہیں۔ مسائل اُن خدمات کی فراہمی کا سلسلہ منقطع ہونے سے پیدا ہوتے ہیں۔ کچھ ملتا رہتا ہے تو دَھڑکا سا بھی لگا رہتا ہے کہ پتہ نہیں کب مِلنا بند ہو جائے! ایسے خدشات کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کا ایک اچھا طریقہ غالبؔ نے یوں سُجھایا تھا: ؎ نہ لُٹتا دِن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا رہا کھٹکا نہ چوری کا، دُعا دیتا ہوں رہزن کو! ہم آزاد قوم ہیں۔ غلامی ہمیں کِسی طور قبول نہیں، خواہ سہولتوں کی ہو۔ ہر طرح کی سہولتوں کا ہر وقت میسر رہنا بھی اُن کی غلامی میں زندگی بسر کرنے جیسا ہی ہے! بجلی کا بحران اِس لیے پیدا ہوا کہ بجلی پائی جاتی تھی۔ اُس کا نہ پایا جانا بحران کا باعث بنا۔ افلاس بہت بُرا لگتا ہے مگر افلاس کو پچھاڑ کر کھڑی کی جانے والی خوش حالی کا رُخصت ہو جانا اور افلاس کا دوبارہ انٹری دینا جی کا جنجال ہو جاتا ہے! ہمارے ہاں بجلی کبھی کبھی آتی ہے تو اُس کا نہ آنا زیادہ پریشانی کو جنم دیتا ہے۔ ٹرینوں کی آمد و رفت نے مسائل پیدا کئے تو اُن کی بندش کے ذریعے حل ڈھونڈ نکالا گیا۔ بجلی کا بحران ختم کرنے کی ایک بہتر اور قابل قبول صورت یہ ہے کہ بجلی کی وزارت اور متعلقہ اداروں کی بساط لپیٹ دی جائے! ایک ذرا سی بجلی نے پورے معاشرے کا مزاج بدل دیا ہے۔ بجلی کی بندش نے لوگوں کو جھنجھلاہٹ، جِھلّاہٹ، اشتعال اور احتجاج کا مُرقّع بنا ڈالا ہے۔ لوگ بات بات پر کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔ یہ حیوانی جِبلّت تبھی ختم ہوگی جب بجلی نہ رہے گی! ہم اور بہت سی چیزوں کے بغیر بھی جی ہی رہے ہیں، بلکہ ایسے جینے میں زیادہ آسانی ہے! قانون کے نفاذ کا چلن عام نہیں تو کیا ہم ختم ہوگئے؟ کِسی کو انصاف نہیں مِل رہا تو کیا زندگی ختم ہوگئی؟ پہلے علم کی ترسیل و تحصیل کم تھی تو کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا؟ اور اب تعلیمی ادارے ہی نہیں رہے تو ہماری زندگی میں کون سی کمی واقع ہوگئی؟ کیا ہم آہنگی کے بغیر کروڑوں جوڑے ’’خوش گوار‘‘ ازدواجی زندگی بسر نہیں کر رہے؟ گڈ گورننس کو کیا روئیں، یہاں تو اب کسی بھی سطح پر گورننس ہی نہیں رہی! تو کیا ملک نے سانس روک لیا؟ حساس ادارے قومی سلامتی کو لاحق خطرات کا رونا روتے رہتے ہیں۔ اب اُن سے کون پوچھے کہ جس کو لاحق خطرات کا راگ الاپتے رہتے ہو وہ قومی سلامتی ہے کہاں؟ اُس کا دیدار بھی تو کراؤ! بجلی نہیں ہوگی تو کون سی قیامت آ جائے گی؟ اور اب جب نہیں ہے تو کون سی قیامت آگئی ہے؟ ہم، بحمدِ اللہ، مسلمان ہیں۔ ہم پر گرنے کے لیے آسمان پر برق کی کیا کمی ہے جو اِس قدر اہتمام کرکے بجلی پیدا کی جائے! ویسے بھی ہماری پیدا کی ہوئی بجلی میں وہ کرنٹ کہاں جو کرنٹ افیئرز کے پروگرامز میں پایا جاتا ہے۔ اینکرز تو مسلسل جھٹکے دیتے رہتے ہیں۔ بعض اینکرز میں اِتنا کرنٹ پایا جاتا ہے کہ اِنہیں پاور جنریشن پلانٹ میں کھڑا کردیں تو اوور پروڈکشن کا مسئلہ کھڑا ہو جائے! کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اگر بجلی 24 گھنٹے آنے لگے تو کیا ہو؟ ہمیں تو اِس کی عادت ہی نہیں رہی۔ سب سے پہلے تو پوری قوم کو نفسیاتی تربیت دینی پڑے گی کہ 24 گھنٹے بجلی آنے کا مطلب ہوتا کیا ہے! چین نے دوستی کے نام پر توانائی کا بحران حل کرنے کی پیشکش کی تو ہے مگر ایسا خلوص تو بدہضمی پیدا کردے گا۔ چینیوں کو کیا پتہ ہمارے مسائل کیا ہیں۔ ہم اب اُس منزل میں ہیں کہ مسائل حل ہونے لگیں تو زیادہ پریشان ہو جاتے ہیں! ع پھر دِل میں کیا رہے گا جو حسرت نکل گئی! پاکستان کے لیے الیکٹرانک اشیاء تیار کرتے وقت متعلقہ اداروں کو بعض معاملات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ سُنا ہے اب پاکستان جیسے ممالک کے لیے ایسی الیکٹرانک اشیاء تیار کرنے پر غور ہو رہا ہے جو کبھی کبھار آنے والی بجلی کو جذب اور ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں! بعض الیکٹرانک آئٹمز میں تو خصوصی کِٹ بھی لگانی پڑے گی جو بجلی کے اچانک وارد ہونے کی صورت میں اُن اشیاء کے میکینزم کو بتائے گی کہ جو محترمہ (بجلی صاحبہ) تشریف لائی ہیں وہ کوئی غیر نہیں اِس لیے ڈرنے کی ضرورت بھی نہیں! الیکٹرانک آئٹم بنانے والے ادارے وارنٹی بھی دیتے ہیں۔ ایک دکاندار نے ریفریجریٹر خریدنے کے خواہش مند کو وارنٹی 30 سال بتائی۔ اُس نے حیران ہوکر کہا کہ کمپنی کے بروشر میں تو وارنٹی 5 سال درج ہے۔ دکاندار نے کہا کہ بجلی نہ ہونے سے ریفریجریٹر کم کم چلتا ہے اس لیے ہم نے از خود نوٹس کے تحت وارنٹی 30 سال کردی ہے! اور اگر حکومت کی مہربانی شاملِ حال رہی تو ہم لائف ٹائم وارنٹی بھی دینے لگیں گے! نہ ہوگی بجلی، نہ چلے گا ریفریجریٹر۔ مال ڈبّہ پیک ہی رہے گا، دیکھتے رہیے اور خوش ہوتے رہیے! بجلی نہ ہونے کے اِتنے فائدے ہیں اور ہم اِس بحران کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم بجلی سے جان چُھڑالیں۔ بجلی وہ شے ہے جس نے منتخب حکومتوں کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا۔ گزری ہوئی حکومت کو یہ بجلی جھٹکے دیتی رہی۔ اب نئی جمہوری حکومت کی آمد آمد ہے تو اُس کے سر پر بھی بجلی کے بحران کا سایہ منڈلا رہا ہے۔ بے چاری نئی حکومت شروع ہی سے دباؤ میں رہے گی۔ اچھا ہے کہ بجلی رہے نہ اُس کا بحران اور نہ ہی نئی حکومت کے لیے کوئی دردِ سر پیدا ہو!