قوم کو کڑوی گولی نگلنی پڑی ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ سَر مُنڈاتے ہی اولے پڑے ہیں۔ لوگ پہلے ہی اُلٹی سیدھی بولیاں بول رہے تھے اور اب حالت یہ ہے کہ اول فول بکنے کی بھی ساری حدیں پار کرلی گئی ہیں۔ کوئی یاد دلا رہا ہے کہ ہم نہ کہتے تھے پچھتاؤگے۔ کسی کا دعویٰ ہے کہ اُس نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ پردہ نہ اُٹھاؤ! بہتوں کو اِس بات پر فخر ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے بارے میں اُن کے اندازے درست نکلے۔ یعنی پیپلز پارٹی کے سِکّے کا رُخ تبدیل ہوا ہے! اور اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہ حکمراں جماعت نئے اندازے قائم کرنے کی تحریک دے رہی ہے! بجٹ میں کڑوی گولی دینا لازم تھا؟ مرزا تنقید بیگ کے خیال میں شاید ہاں۔ ’’معیشت ابتری کے دور سے گزر رہی ہے۔ سب کچھ ٹھہرا ہوا سا لگتا ہے۔ ایسے میں معاملات درست کرنے کے لیے کچھ تو ہٹ کر کرنا ہی پڑے گا، کوئی نہ کوئی ایسا قدم اُٹھانا ہی پڑے گا جو روایت سے تھوڑے سے انحراف پر مبنی ہو اور بہتری کی طرف لے جائے۔ لازم تو نہیں کہ بجٹ میں ہر بار دل بہلانے ہی کی بات کی جائے اور جھوٹ اور تصنع کا سہارا لیا جائے۔‘‘ ہم نے جان کی امان چاہتے ہوئے عرض کیا کہ اسحاق ڈار صاحب نے وفاقی بجٹ کے نام پر جو کچھ بھی کہا ہے اُس نے ہنگامہ کھڑا کردیا ہے۔ اینکرز چیخ پڑے ہیں۔ ردعمل کا طوفان سا آگیا ہے۔ مرزا نے واضح الفاظ میں لعنت ملامت کرتے ہوئے کہا۔ ’’اینکرز کا تو کام ہی انتہا سے گزرنا ہے۔ بجٹ کیا آیا ہے، لوگ لٹھ لیکر بجٹ اور اسحاق ڈار کے پیچھے پڑگئے ہیں۔ ایک اینکر نے لاہور کے ایک ویلڈرکے گھر کی فلم دکھائی اور سوال کیا کہ مسلم لیگ (ن) اِس غریب کے گھر کا بجٹ بناسکتی ہے؟ نوازش علی کی 27 سالہ بیٹی جگر کے عارضے میں مبتلا ہے۔ اب معاملہ ٹرانسپلانٹ کی منزل میں پہنچ چکا ہے۔ اینکر نے سوال کیا کہ حکومت اِس لڑکی کے جگر کا ٹرانسپلانٹ کراسکتی ہے؟ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِس لڑکی کی حالت دیکھ کر دِل کو بہت دُکھ ہوا مگر جگر کے ٹرانسپلانٹ کا بجٹ سے کیا تعلق؟ صحتِ عامہ کا معیار بلند رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر انفرادی سطح پر چند بڑے خرچوں کے ذریعے مثال قائم کرنا تو غیر منطقی ہے۔‘‘ ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) نے چند وعدے کئے تھے۔ لوگ اُن وعدوں کو کیسے بھول سکتے ہیں؟ مرزا نے جواب دیا۔ ’’پانچ برس تک جو بویا گیا وہ تو کاٹنا ہی پڑے گا۔ وفاقی بجٹ میں چند سخت اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔ اگر ان اقدامات کے ذریعے کچھ بہتری آسکتی ہے اور معاملات کچھ درست ہوسکتے ہیں تو ہرج ہی کیا ہے؟ محض نوٹ چھاپتے رہنا تو مسائل کا حل نہیں۔ لیپا پوتی جیسے اقدامات پر چند غیر لچکدار فیصلوں کو ترجیح دی جانی چاہیے۔‘‘ ہم نے اُن کی بات سے اتفاق کیا تاہم نقطۂ اعتراض پر کہا کہ یہ سب تو مسلم لیگ (ن) کو اچھی طرح معلوم تھا۔ جو کچھ پانچ برس میں بویا گیا اُس کی بوائی کے وقت وہ خود بھی پیپلز پارٹی کے شانہ بہ شانہ موجود تھی اور خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا۔ اب وہ آوے کا آوا خراب ہونے کا عُذر تراش نہیں سکتی۔ مرزا نے مسلم لیگ (ن) کی طرف داری کی انتہا کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ سب ہم نہیں جانتے۔ ہمیں تو بس یہ معلوم ہے کہ اب موقع ملا ہے تو کسی نہ کسی نا اہلی اور کرپشن کی غلاظت دور کی جائے۔ معیشت کی زبوں حالی متقاضی ہے کہ آئینے میں دیکھ کر، اپنی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جائے۔ سابق حکومت نے ہر حد سے گزرنے پر فخر کیا۔ نوٹ چھاپنے، اخراجات بڑھانے اور سرکاری وسائل کو شیرِ مادر سمجھ کر پی جانے کو باعثِ افتخار سمجھا گیا۔ پانچ برس تک یہ سب ہوتا رہا۔ خسارہ بڑھتا گیا کہ بڑھنا ہی تھا۔ ملک و قوم کے لیے ہو تو ہو، حکمرانوں کے لیے یہ گھاٹے کا سودا نہ تھا۔ غریب عوام البتہ سودائی ہوگئے۔‘‘ مرزا کو کون سمجھائے کہ پانچ برس تک جو من مانی ہونے دی گئی اُس کا بالآخر یہی نتیجہ برآمد ہونا تھا۔ معیشت کو لونڈی سمجھا گیا۔ اور پھر ہم بدحالی کے مزید غلام ہوتے چلے گئے۔ یہ سب افسوسناک ضرور تھا، حیرت انگیز نہ تھا۔ جب ہوش و حواس کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی قبر کھودی جائے تو حیرت کیسی؟ مسلم لیگ (ن) کو وقت ضرور ملنا چاہیے۔ مگر اِس وقفے میں لازم ہے کہ وہ ٹھوس اقدامات کی محفل سجائے۔ مخالفین کو رام کرنے کے عمل میں وقت ضائع نہ کیا جائے۔ یہ عمل حد سے گزرے تو مینڈیٹ کا تیا پانچا کردیتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک بے بنیاد سوچ یہ پنپ چکی ہے کہ کسی بھی حکومت کو انتخابی فتح کی صورت میں ملنے والا مینڈیٹ پانچ سال کا ہے۔ مینڈیٹ کا تعلق میعاد سے نہیں، کارکردگی سے ہے۔ اگر کوئی پارٹی کام نہ کر پائے تو اسے اپنا بوریا بستر خود ہی لپیٹ لینا چاہیے۔ جاپان میں یہی تو ہوتا ہے۔ جو پارٹی حکومت کا گورکھ دھندا چلانے میں ناکام رہتی ہے، معذرت کرکے الگ ہوجاتی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو یہ بات ذہن سے کھرچ کر پھینک دینی چاہیے کہ مینڈیٹ پانچ سال کا ہوتا ہے۔ مینڈیٹ صرف اُس وقت تک کا ہوتا ہے جب تک کارکردگی اچھی رہے، نتائج حاصل ہوتے رہیں، قوم کو ریلیف ملتا رہے! وفاقی بجٹ حیرت اور سکتے میں ڈالنے والا ثابت ہوا ہے۔ مگر خیر، ابھی تو پوٹلی کھلی ہے۔ مزید بہت کچھ منظرِ عام پر آنا ہے۔ مسلم لیگ (ن) چودہ برس کا بن باس کاٹ کر دوبارہ، بلکہ سہ بارہ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئی ہے۔ بجٹ نے سب پر واضح کردیا ہے کہ شیر آچکا ہے اور رن بھی کانپ اُٹھا ہے! بس یہ سمجھ لیجیے کہ آگیا اور چھا گیا ٹھاہ کرکے! مخالفین نے شیر کے تیور سے ڈرایا تھا۔ یہ انتباہ کچھ غلط بھی نہ تھا۔ عوام کو بھی اندازہ ہے کہ شیر غضب ناک اور خطرناک حد تک شکار کے موڈ میں ہے۔ حد یہ ہے کہ شیر کے چاہنے والے بھی خوفزدہ ہیں! وہ کیوں متذبذب اور خوفزدہ ہیں، یہ ہم تو کیا خود وہ بھی نہیں جانتے! فرینڈلی اپوزیشن کرتے رہنے کا یہ نتیجہ تو نکلنا ہی تھا۔ دُعا یہ ہے کہ نفرت کے طوفان سے بچ نکلنے والے محبت کے ساحل پر نہ ڈوبیں!