سیاسی تجزیہ بھی کیا خوب فن، بلکہ فنِ لطیفہ ہے! اِس فن میں مہارت رکھنے والوں نے فُل اسپیڈ بک بک کے دوران بھی ہمیشہ دامن بچاتے ہوئے زبان کھولی ہے اور گفتگو کی برق رفتاری سے زیادہ اُن کی احتیاط پسندی سے لوگ محظوظ ہوئے ہیں۔ زمانے بھر کی ہانکنے کے بعد احتیاطاً کہا جاتا ہے ’’دیکھنا یہ ہے کہ اب حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں‘‘۔ یا پھر یہ کہ ’’ابھی پورے یقین اور وثوق سے کچھ بھی کہا نہیں جاسکتا‘‘۔ بعض ماہرین اپنی ہر بات کو حالات سے مشروط کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں یعنی اپنا کہا غلط بھی ثابت ہو تو الزام حالات کے سَر جائے! بقول ساحرؔ لدھیانوی ؎ ویسے تو تمہی نے مجھے برباد کیا ہے الزام کسی اور کے سَر جائے تو اچھا! کرکٹ میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ لوگ پوری توجہ سے ماہرین کو سُنتے ہیں کہ وہ کوئی کام کی بات بتائیں گے۔ اور ماہرین ارشاد فرماتے ہیں کہ وہی ٹیم جیتے گی جو اچھا کھیلے گی۔ لوگ حیران رہ جاتے ہیں کہ یہ بات تو اُنہیں بھی معلوم تھی، پھر ماہرین نے کیا تیر مارا۔ کرکٹ پر گہری نظر رکھنے والے بھی ’’کرکٹ بائی چانس‘‘ کہتے ہوئے دامن بچا جاتے ہیں۔ کرکٹ کے ماہرین اور مبصرین کا فن سیاست دانوں نے بھی سیکھ لیا ہے۔ اب وہ میڈیا کے سامنے کچھ بھی کہتے وقت خاصے ڈپلومیٹک ہو جاتے ہیں۔ بہت تول مول کر بولتے ہیں یعنی سیف سائڈ کھیلتے ہیں۔ جہاں بے لگام ہوکر بولنا ہو وہاں وہ بے لگام ہو جاتے ہیں اور جہاں معاملہ پیش گوئی تک پہنچے وہاں وہ کوئی بھی بات بہت سوچ سمجھ کر مُنہ سے نکالتے ہیں۔ سیاسی تجزیے کے میدان میں منظور وسان صاحب نے نئی راہ نکالی ہے۔ اگر کوئی بات سوچ سمجھ کر کی جائے تو اُس کے غلط نکلنے پر معاملات خراب ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے دامن بچاتے ہوئے اپنے تجزیوں اور پیش گوئیوں کو خوابوں کے آغوش میں ڈال دیا ہے۔ اُن کے خوابوں نے لِکھنے والوں کو نئی راہیں سُجھائی ہیں۔ لوگ منتظر رہتے ہیں کہ وہ کچھ کہیں یعنی کوئی خواب بیان کریں اور لِکھنا شروع کیا جائے۔ ہم نے بھی ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ویسے تو خیر ٹی وی ٹاک شوز کے کئی بزرجمہر بھی ہمیں بہت کچھ سِکھانے پر تُلے رہتے ہیں۔ وہ اندر کی ایسی باتیں بتاتے ہیں کہ کلیجہ مُنہ کو آتا ہے، بلکہ مُنہ کے راستے باہر آنے کو بے تاب رہتا ہے۔ تجزیوں کی کوکھ سے ایسے انکشافات جنم لیتے ہیں کہ وسوسے ابھرنے لگتے ہیں۔ کبھی کبھی تجزیوں کے پیچ و تاب میں ہم ایسے الجھتے ہیں کہ ایشو کا نام و نشان بھی حافظے میں باقی نہیں رہتا۔ ٹاک شوز وہ دھوبی گھاٹ ہیں جن پر موضوعات کو پٹخ پٹخ کر اُجلا کیا جاتا ہے اور بسا اوقات موضوعات کی حالت ایسی ہو جاتی ہے جیسے کسی محترمہ نے جلد کی رنگت اجالنے کے لیے تیزاب سے ہاتھ دھوئے ہوں۔ منظور صاحب نے نیا ٹرینڈ یہ دیا ہے کہ جب سیاست کے میدان میں کچھ اور کرنا ممکن نہ ہو تو خواب دیکھنا اور بیان کرنا شروع کردو۔ اِس میں آسانی یہ ہے کہ سیاسی معاملات خود کو اُلٹ پلٹ کر خوابوں کو ایک خاص حد تک تو سچا ثابت کر ہی دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پیپلز پارٹی کے ڈراؤنے خواب جیسے دور کو چند حسین اور سلونے خوابوں کی مدد سے بخوشی گزار لیتے ہیں! ڈھائی تین سال قبل بھی اُنہوں نے خواب بیان کرنا شروع کیا تھا اور لوگ سارے غم بھول گئے تھے۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی کڑوی کسیلی باتیں بھی منظور وسان کے میٹھے خوابوں میں ملفوف ہوکر قابلِ برداشت ہوگئی تھیں۔ عام انتخابات کے بعد منظور صاحب نے کہا تھا کہ سندھ میں جواں سال وزیر اعلیٰ ہوگا۔ اُن کی بات غلط نہیں تھی۔ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ سندھ کی وزارتِ اعلیٰ ایک بار پھر 85 سالہ سید قائم علی شاہ کو ملی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ انسان کو جانچنا ہے تو دِل دیکھنا چاہیے۔ کیا آپ نے نہیں سُنا کہ دِل ہونا چاہیدا جوان، عمراں اچ کی رکھیا! شاہ صاحب کا دِل ابھی تک جوان ہے اور اگر آپ کو بھی 85 سال کی عمر میں تیسری بار وزارتِ اعلیٰ مِل جائے تو آپ کا دِل بھی ایک بار پھر جوان ہو جائے۔ منظور صاحب نے جوان وزیر اعلیٰ کے آنے کی پیش گوئی کی تھی۔ پیپلز پارٹی نے اُن کی بات کا بھرم رکھنے کے لیے شاہ صاحب کو تیسری بار وزارتِ اعلیٰ دے کر جوان کردیا۔ اور یقین نہ ہو تو غور کیجیے کہ سندھ کی وزارتِ اعلیٰ تیسری بار سنبھالنے کے بعد سے وہ چھاپے مارتے پھر رہے ہیں۔ کبھی کِسی بازار کا چکر لگاکر قیمتوں کا جائزہ لیتے ہیں اور کبھی کسی پولیس سٹیشن میں غیر اعلانیہ طور پر قدم رنجہ فرماتے ہیں۔ لوگوں کو اُن کے تیسری بار وزیر اعلیٰ بننے پر جس قدر حیرت تھی اُس سے کہیں زیادہ تعجب اُن میں اچانک پیدا ہو جانے والی چُستی اور پُھرتی پر ہے! ویسے منظور وسان چاہتے تو یہ خواب بھی دیکھ سکتے تھے کہ پیپلز پارٹی جسے سندھ کا وزیر اعلیٰ بنائے گی وہ بڑھاپے کو خیرباد کہتے ہوئے دوبارہ جوانی کی قلمرو میں قدم رکھ دے گا! منظور وسان نے یہ بھی کہا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ بہت جلد سندھ حکومت کا حصہ بنے گی اور اب ایسا ہی ہونے والا ہے۔ سابق وزیرِ داخلہ رحمن ملک کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی ٹیم نائن زیرو، عزیز آباد میں متحدہ رہنماؤں سے ملاقات کرکے اسے سندھ حکومت میں شمولیت کی دعوت دے چکی ہے۔ الیکشن کے بعد سے یہ خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ متحدہ سندھ حکومت کا حصہ بن جائے گی۔ پیپلز پارٹی سے ویسے بھی اُس کا فطری اتحاد بنتا ہے۔ منظور وسان نے سندھ حکومت میں متحدہ کی شمولیت کا امکان ظاہر کرکے سب کو ایک بار پھر حیران کردیا۔ لوگ حیران کیوں نہ ہوتے؟ سندھ حکومت میں متحدہ کی شمولیت کا خواب دیکھنے کی سِرے سے ضرورت ہی نہیں تھی! ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے تحت الشعور کو ہدایت کر رکھی ہے کہ کوئی بھی خواب اُسی وقت دیکھنا ہے جب اُس کی تعبیر تیار ہوچکی ہو۔ یہ ایسا ہی معاملہ ہے جیسے کسی ٹیم کے تین کھلاڑی آؤٹ ہوئے ہوں اور دس اوورز میں محض تیس چالیس رنز اسکور کرنے ہوں تو بے فکر ہوکر اُس کی فتح کی ’’پیش گوئی‘‘ کیجیے۔ منظور وسان بھی تیقن کی منزل پر پہنچنے کے بعد ہی اپنا خواب اہلِ وطن سے شیئر کرتے ہیں یعنی ہوش خواہ کتنے جاچکے ہوں، فرزانگی برقرار رہتی ہے! یہی سبب ہے کہ اُن کی خواب ناک پیش گوئیاں سُن کر پہلے واہ واہ اور پھر مبارک سلامت کا شور بلند ہوتا ہے۔ حکومت میں متحدہ کی شمولیت کا معاملہ بھی ایسا ہے کہ خواب دیکھنے کی ضرورت ہے نہ تجزیہ کاروں کو اٹکل کے گھوڑے دوڑانے کی۔ ایک شخص نے خواب دیکھنے کا ہنر سیکھ رکھا ہے تو متحدہ نے خوابوں کو تعبیر سے ہمکنار کرنے میں یدِ طُولیٰ حاصل کر لیا ہے۔ ایک کو خواب راس آتے ہیں اور دوسری کو تعبیر۔ یہ ہماری سیاست کا کمال ہے کہ خواب دیکھنے والوں کو تعبیر تلاش کرنے کے بکھیڑوں سے نجات دلادی ہے اور جن میں تعبیر کا اہتمام کرنے کی سکت پائی جاتی ہے وہ خواب دیکھنے کے مُکلّف نہیں رہتے۔ اِن دو انتہاؤں کے بیچ عوام کا وہی حال ہے جو سنت کبیر داس نے بیان کیا تھا۔ یعنی دو پاٹن کے بیچ میں باقی بچا نہ کوئے