اور بہت سے، بلکہ بیشتر پاکستانیوں کی طرح مرزا تنقید بیگ بھی آج تک سمجھ نہیں پائے کہ پاکستان بار بار نازک موڑ پر کیوں کھڑا ہو جاتا ہے اور مشکل مرحلے سے کیوں گزرنے لگتا ہے۔ لوگ نئی حکومت کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے۔ اب نئی حکومت قائم ہوچکی ہے مگر ملک ہے کہ اب تک نازک موڑ پر کھڑا ہے! جب بھی کوئی یہ کہتا ہے کہ ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور نازک موڑ پر کھڑا ہے تو مرزا بھڑک اٹھتے ہیں۔ اُن کا استدلال یہ ہے کہ خطرات اور خدشات سے جس قدر ڈرایا گیا ہے اُس کی روشنی میں تو اب تک ہم سب کا وجود ہی، خدا نخواستہ، مِٹ جانا چاہیے تھا! مگر دیکھ لیجیے کہ ہم زندہ ہیں۔ ہاں، یہ اندازہ نہیں ہو پاتا کہ یہ استقامت ہے یا ہٹ دھرمی! مرزا کو شاعری سے زیادہ شغف نہیں مگر چند کام کے اشعار یاد کر رکھے ہیں تاکہ بہ وقتِ ضرورت بیان کو مستند بنانا ممکن ہو۔ قوم کی عجلت پسندی نے مرزا کو شدید کوفت سے دوچار کر رکھا ہے۔ وہ عبدالحمید عدمؔ کو دُعا دیتے ہیں جو کیا خوب کہہ گئے ہیں ؎ عدمؔ خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں پاکستانی قوم کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ سبھی ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں۔ خواہش ہے تو بس اِتنی کہ جو کچھ عشروں میں بگڑا ہے وہ چند دِنوں میں سنور جائے۔ مسلم لیگ (ن) نے تیسری بار اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ع ابھی آئے، ابھی بیٹھے، ابھی دامن سنبھالا ہے اور قوم ہے کہ پل بھر میں تمام مسائل کو پھانسی گھاٹ پر دیکھنے کے لیے بے تاب ہے۔ اس کیفیت نے مرزا تنقید کو بہت پریشان کیا ہے۔ قوم کی یہ روش اُن کی سمجھ میں نہیں آتی کہ راتوں رات سب کچھ درست ہوتا ہوا کیوں دیکھنا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے وابستہ توقعات کے بارے میں مرزا کہتے ہیں۔ ’’جو کچھ برسوں، بلکہ عشروں میں بگڑا ہے وہ آن کی آن میں کیسے سنور سکتا ہے؟ ؎ پَل میں کیسے کسی کے ہو جائیں؟ یہ تو اِک عمر کی ریاضت ہے خدا خدا کرکے ایک جمہوری دور تکمیل کی منزل تک پہنچا ہے۔ بہت سی خرابیاں موجود تھیں اور اُن میں اچھا خاصا اضافہ بھی ہوا۔ اب خرابیوں کو دور کرنے کی سبیل نکلی ہے، مسائل کے حل کی امید پیدا ہوئی ہے تو لوگ اُتاؤلے ہوئے جارہے ہیں۔‘‘ ہم نے سمجھایا کہ لوگ اِس لیے اُتاؤلے ہوئے جارہے ہیں کہ سابق دورِ حکومت میں جیب خالی ہو جانے پر وہ باؤلے ہوگئے تھے۔ مرزا بولے: ’’اگر سابق حکومت نے جسم و جاں کو عذاب سے دوچار کر رکھا تھا تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ موجودہ حکومت کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا جائے اور تنقید کے ڈونگرے برساکر اُس کا ناطقہ بند کردیا جائے۔ ابھی سے قومی اسمبلی کے فلور پر نئی حکومت کو مطعون کیا جارہا ہے۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ ابھی تو انتخابات کی گرد بھی نہیں چھٹی۔ مطلع صاف ہو جائے، کچھ دِکھائی دینے لگے تو کچھ کہا جائے۔ ابھی سے اندازوں کے تیر اور تنقید کے میزائل برسانا عجلت پسندی کی انتہا ہے۔‘‘ مرزا کی بات سے ہمیں اتفاق ہے مگر اِس قدر بھی نہیں کہ زمینی حقائق فراموش کردیں۔ مرزا تو کسی بھی معاملے میں آنکھ بند کرکے آگے بڑھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اُنہیں اِس بات سے بظاہر کچھ غرض نہیں ہوتی کہ منطق کیا کہتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو گریس مارکس ضرور ملنے چاہئیں مگر ابھی سے تھوڑی سی grilling میں کچھ ہرج نہیں۔ اِس صورت میں پارٹی کو اپنے وعدے یاد تو رہیں گے۔ خُدا جانے مرزا کیوں جزبز ہوتے ہیں؟ اگر بحث کیجیے تو وہ کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔ ایک بار کسی نے پوچھ لیا کہ لوگ تیزی سے سارے وعدوں کی تکمیل کیوں نہ چاہیں کہ وعدے کرنے والے بھی آنکھ بند کرکے ہر طرح کے وعدے کرتے چلے جاتے ہیں۔ سیاست دان بھی تو سبز باغ دِکھانا ترک نہیں کرتے۔ اُنہیں چکنی چُپڑی باتوں کے سِوا آتا کیا ہے؟ کسی نہ کسی طرح عوام کو بہلا پُھسلاکر ووٹ حاصل کرنا اور اِس کے بعد سب کچھ بھول بھال جانا اُن کی پُرانی روش ہے۔ پھر لوگ کیوں نہ چاہیں کہ تیزی سے نتائج سامنے آئیں؟ یہ باتیں سُن مرزا بھڑک اُٹھے۔ جلاکر راکھ کردینے والے لہجے میں بولے: ’’لوگوں سے کس نے کہا ہے کہ توقعات کے پوٹلے سیاست دانوں کے سَروں پر دھریں؟ مسائل کو پیچیدہ ہونے میں وقت لگتا ہے تو حل کرنے کے لیے بھی وقت دیا جانا چاہیے‘‘۔ ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ اب قوم مزید تاخیر کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ جو ہونا ہے وہ تیزی سے ہو جانا چاہیے۔ یہ سُننا تھا کہ مرزا کا پارا چڑھ گیا۔ دندناتے ہوئے لہجے میں اُنہوں نے ہم پر چڑھائی کردی: ’’اِس قوم کو تو اللہ ہی سمجھے۔ پہلے سب کچھ جھیلتی رہتی ہے، معاملات کو بگڑنے دیتی ہے اور جب معاملات درست کرنے کی کچھ راہ نکلتی ہے تو پلک جھپکتے میں منزل تک پہنچنا چاہتی ہے۔ یہ تو سراسر بے ایمانی ہے۔‘‘ بے ایمانی کیوں؟ ہم نے جان کی امان چاہتے ہوئے استفسار کیا۔ مرزا نے کمال شفقت سے وضاحت فرمائی: ’’ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ جس طرح مسائل کو پنپنے دیا گیا اُسی طور مسائل حل کرنے کے میکینزم کو بھی پنپنے دیا جائے۔ مگر اِس قوم میں صبر ہے کہاں؟ سب یہ چاہتے ہیں کہ کچھ دیر کے لیے آنکھیں بند کریں اور جب آنکھیں کُھلیں تو سب کچھ بدل چکا ہو۔ جادو کی چھڑی بھی اپنا کمال دکھانے میں کچھ وقت تو لیتی ہے۔ لوگ کسی بھی حکومت کو اِتنا وقت دینے کے لیے تیار نہیں۔ ہر معاملے میں جب جادو کی چھڑی کے کمالات کی توقع وابستہ کی جائے تو پھر معاملہ ڈنڈے تک جا پہنچتا ہے!‘‘ ہم نے وضاحت کی نیت سے کہا: قوم وقت اِس لیے نہیں دینا چاہتی کہ کہیں پھر دیر نہ ہو جائے۔ مرزا کا استدلال تھا: ’’اب کیا دیر ہونی ہے؟ کِس معاملے میں دیر نہیں ہوگئی؟ بہت کچھ ہم بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ غالبؔ کی زبان میں کہیے تو ہم پر اِتنی مشکلیں پڑی ہیں کہ سَر بہ سَر آسان ہوگئی ہیں! تھوڑی بہت تاخیر ہوتی ہے تو انسان پریشان ہوتا ہے۔ جب معاملات ہاتھ سے نکل ہی چکے ہوں تو کیسا افسوس، اور کیوں؟ معاملات جب ہاتھ سے نکلے جارہے ہوتے ہیں تب تو ہمیں ہوش نہیں آتا اور جب اُنہیں درست کرنے کا محل ہو تو عجلت کے ہاتھوں مزید خرابیاں پیدا کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ خدا جانے ہم عقل اور صبر سے کام لینا کب شروع کریں گے؟‘‘ اب مرزا کو کون سمجھائے کہ قوم کے حافظے سے بہت کچھ مٹ گیا ہے۔ بالخصوص صبر اور تحمل۔ جب کوئی نئی حکومت قائم ہوتی ہے تو لوگوں کو کچھ بھی یاد نہیں رہتا کہ کوئی بھی مسئلہ حل ہونے میں کتنا وقت لے گا۔ سب چاہتے ہیں راتوں رات دُنیا کچھ کی کچھ ہو جائے۔ جب پورا ماحول ہی عجلت پسندی کا ہو تو مرزا جیسے عقل پرستوں اور منطق پسندوں کی بات پر کون کان دھرے؟ مسلم لیگ (ن) کے حصے میں مسائل سے زیادہ اُن کی پیچیدگی آئی ہے۔ بہت کچھ ہے جو خاصا الجھ گیا ہے۔ اب دُعا یہ ہے کہ یار کا پاؤں زُلفِ دراز میں اُلجھ کر نہ رہ جائے اور صیّاد اپنے ہی دام میں نہ آ جائے۔ مُلک کی مجموعی حالت ایسی ہے کہ جنہیں مسلم لیگ (ن) ایک آنکھ نہیں بھاتی اُنہیں بھی اِس کی بھرپور کامیابی کے لیے دُعاگو رہنا چاہیے۔ اور اِس دُعا کے مانگنے میں بھی عجلت پسندی ہی کا مظاہرہ کرنا چاہیے!