دُنیا اب تک ہزار پندرہ سو سال پہلے کی دُنیا میں جی رہی ہے۔ اُس کے پاس آئیڈیاز کی کمی ہے۔ اور کمی کیا، قِلّت کہیے۔ دُنیا والے نئی بات سوچنے کے لیے پتا نہیں کیا کیا جتن کرتے ہیں۔ مگر یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ع یہ رُتبۂ بلند مِلا جس کو مِل گیا دُنیا والے ہر معاملے میں ندرت تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اِس کوشش میں کبھی کبھی ایسی باتیں بھی کر جاتے ہیں کہ آدمی سُنے تو ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جائے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ دُنیا بھر میں کام کرنے کو ہر قسم کے تناؤ اور دباؤ سے پاک، پُرسکون زندگی بسر کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ہم ایسی باتوں پر ہنس ہی سکتے ہیں۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہمارے ہاں اِس تصور کے برخلاف کام نہ کرنے کے تصور کو گلے لگاکر کِتنی آسانیاں پیدا کی گئی ہیں۔ دُنیا بھر میں عمومی تاثر اور تصور یہ ہے کہ کام کیجیے تو خوش حالی آئے گی۔ ہم تو یہ ساری باتیں سُن کر ہنس دیا کرتے ہیں۔ اپنے ماحول کا جائزہ لے کر ہم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جو لوگ کام کرتے ہیں وہ تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں۔ زندگی بھر کام کرنے والے اِس باریک نُکتے کو سمجھ ہی نہیں پاتے کہ سارا وقت کام میں لگا دیا جائے تو آدمی زندگی کا لطف کب پائے گا۔ کام پر جانا اور واپس آنا اہلِ جہاں کے نزدیک کوئی دلچسپ بات ہوگی، ہمارے ہاں تو یہ ایک ایسی آزمائش ہے جس کا صِلہ صرف اللہ دے سکتا ہے! کام پر جانے اور وہاں سے واپس آنے سے محظوظ ہوا جاسکتا ہے؟ آپ شاید یہ سوال پڑھ کر ہنس رہے ہیں۔ یقین کیجیے دُنیا والے تحقیق میں جُتے ہوئے ہیں کہ کام کے ماحول کو کِس طور زیادہ سے زیادہ پُرلطف بنایا جائے۔ آپ ہی بتائیے اِس سے بڑھ کر مضحکہ خیز بات کون سی ہوسکتی ہے؟ ارے صاحب! گھر بیٹھ کر سُکون سے ٹی وی دیکھنے یا جہان بھر کے موضوعات پر بَتیانے سے زیادہ سُکون کسی عمل میں پایا جاسکتا ہے؟ معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینا اِنسان کے لیے لازم ہے کہ ایسا کیے بغیر وہ کچھ پا نہیں سکتا۔ یہ اہلِ جہاں کی سوچ ہے۔ ہمارے ہاں اِس حوالے سے بھی نئے تصورات پنپ چکے ہیں۔ اگر دُنیا اِن تصورات کی ایک جھلک بھی دیکھ لے تو عَش عَش کر اُٹھے اور پھر غَش کھاکر گِر پڑے۔ بُھوسے کے ڈھیر میں سُوئی تلاش کرنے کا ہُنر پاکستانی قوم پر ختم ہے۔ گنّے کے جس پُھوس سے مزید ایک قطرہ بھی کشید نہ کیا جاسکتا ہو اُس سے ہم گلاس بھر رَس نکال کر دِکھا سکتے ہیں۔ معاشی سرگرمیوں کے معاملے میں ہم نے ایسا ہی کیا ہے۔ کچھ نہ کرکے لوگ زیادہ کماتے ہیں اور محنت کرنے والے تاریک کمرے میں ایسی کالی بلی تلاش کرتے رہتے ہیں جو وہاں ہے ہی نہیں۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ مہم جوئی کے لیے پہاڑوں پر چڑھا کرتے تھے، بیویوں کی چوٹیاں نظر انداز کرکے پہاڑی چوٹیاں سَر کرنے کے فراق میں رہا کرتے تھے۔ کوئی جنگلات میں عجیب الخلقت چیزیں تلاش کرنے نکلتا تھا اور کوئی ویرانوں کی خاک چھان کر مہم جوئی کے شوق کو تکمیل سے ہمکنار کیا کرتا تھا۔ مگر یہ سب گزرے ہوئے زمانے کی باتیں ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے بعض سَر پِھرے اب بھی ایسا ہی کرتے پھرتے ہیں۔ اب کوئی اُنہیں کیسے سمجھائے کہ زمانہ بدلا ہے تو مہم جوئی کا مفہوم بھی بدل گیا ہے۔ ہم جس ٹائپ کی حکومتوں کو برداشت کرتے آئے ہیں وہ بھی مہم جوئی ہی کی ایک شکل ہے۔ دُنیا والے معاشی سرگرمیوں کو زیادہ سے زیادہ پُرلطف بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ کِسی کو کیا معلوم کہ ہم نے کام پر جانے کو بھی مہم جوئی کے زُمرے میں داخل کردیا ہے۔ جو لوگ ڈیوٹی پر جانے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں ذرا غور سے اُن کے چہروں پر نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ حُزن و ملال کا درجۂ کمال کیا ہوتا ہے! اگر مصور غور کریں تو کام پر جاتے ہوئے لوگوں کے چہروں پر بکھرے ہوئے تاثرات کی مدد سے تجریدی آرٹ کے بہترین نمونے معرضِ وجود میں لاسکتے ہیں۔ یہ ’’اہلِ درد‘‘ جب کام پر روانہ ہوتے ہیں یعنی گھر سے قدم باہر رکھتے ہیں تو ’’مُغلِ اعظم‘‘ کا کورس یاد آنے لگتا ہے۔ ع تمہاری دُنیا سے جارہے ہیں، اُٹھو ہمارا سلام لے لو یونان کی کِسی شپنگ کمپنی کے مالک کو اگر دو تین جہازوں کے ڈوبنے کی اطلاع ملے تب بھی اُس کے چہرے پر شاید وہ کرب پیدا نہ ہوگا جو ہمارے ہاں ہفتہ وار تعطیل کے بعد پیر کی صبح کام پر جانے والوں کے چہروں پر پایا جاتا ہے! میر تقی میرؔ فرماتے ہیں ؎ ہم کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب ہم نے درد و غم کِتنے کیے جمع تو دیوان کیا میرؔ کو کیا معلوم تھا کہ ایک زمانہ وہ بھی آئے گا جب ہر پاکستانی اُن کے دیوان کی مجموعی کیفیت کو چہرے پر سجائے پھرا کرے گا۔ علامہ راشد الخیری کو بے حد احترام کے ساتھ ’’مُصوّرِ غم‘‘ کہا جاتا ہے۔ اُن کی تحریر خون کے آنسو رُلاتی ہے۔ علامہ اگر اُکھڑے اُکھڑے قدموں سے کام پر جانے والوں کو ایک نظر غور سے دیکھتے تو تحریر میں مزید اور لازوال سوز پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے‘ خواہ میر دردؔ اور فانیؔ بدایونی کی زندگی غم کی حقیقی کیفیت بیان کرتے گزری۔ ہمارا خیال ہے وہ بھی غم اور کرب کا حق ادا نہ کرسکے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کچھ دیر کو آج کی دُنیا میں آئیں اور ذرا دیکھیں کہ پاکستانی قوم کے جوانانِ باکمال ڈیوٹی پر جاتے ہوئے کِس دردناک مرحلے سے گزرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ حواس کی دُنیا میں ہیجان برپا کرنے والا یہ منظر اُن کے شعورِ غم کی سطح کچھ بلند کردے۔ ایک زمانہ تھا جب فلموں میں ہیرو کی انٹری غضب ناک ہوا کرتی تھی۔ بہت سی فلمیں تو ہیرو کی انٹری والے سین کی بنیاد پر یاد رکھی جاتی تھیں۔ ہمارے بہت سے ہیروز جب صبح کام پر پہنچتے ہیں تو اُن کی انٹری بھی قابلِ دید اور قابلِ داد ہوتی ہے! چہرے پر اُداسی، پریشانی، وحشت، بے چینی، مایوسی اور خدا جانے کون کون سے احساسات کی دُکان سجی ہوئی ہوتی ہے ۔ اُنہیں دیکھ کر دُنیا کی بے ثباتی کا پوری شِدّت سے احساس ہوتا ہے۔ یقین آنے لگتا ہے کہ اِس دُنیا میں اگر کچھ ہے تو وہ بس غم ہے، باقی تو سب مایا ہے۔ بعض ہیروز جب دفتر یا فیکٹری میں انٹری دیتے ہیں تو اُنہیں دیکھتے ہی محمد رفیع کا گایا ہوا فلم ’’آن‘‘ کا گانا کانوں میں گونجنے لگتا ہے۔ ؎ دِل میں چُھپاکے پیار کا طوفان لے چلے ہم آج اپنی موت کا سامان لے چلے ڈیوٹی پر آکر بہت بڑا معرکہ سَر کرنے والوں کو دیکھ کر اُن کے ساتھی سہم جاتے ہیں۔ کِس کی مجال ہے کہ مُنہ پر بارہ بجنے کا سبب پوچھے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے تک لوگ دور دور رہتے ہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ اُنہیں کوئی کام نہ دیا جائے۔ خدشہ یہ ہوتا ہے کہ کہیں پھٹ نہ پڑیں۔ بقول غالبؔ پُر ہوں میں درد سے یوں راگ سے جیسے باجا اِک ذرا چھیڑیے، پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے اگر آپ نے کچھ ہمت اپنے اندر پیدا کی اور چہرے کے ہَوَنّق پن کا سبب پوچھ بیٹھے تو سمجھ لیجیے گئے کام سے۔ آن کی آن میں دوغزلہ، سہ غزلہ اور پتا نہیں کون کون سا غزلہ، بلکہ شہر آشوب سُننے کو مِلے گا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے جو سراپا الم تھا، اوپر سے نیچے تک ملال ہی ملال تھا اُس نے شیر کی طرح دہاڑنا شروع کردیا۔ اور آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گا کہ اِس درندانہ مزاج کو کنٹرول کِس طرح کیا جائے! آپ سوچتے ہی رہ جائیں گے کہ یہ کون سا شیر ہے جس کی آمد سے پورا دفتر رَن کی طرح کانپ رہا ہے۔ اِس بار آپ ہفتہ تعطیل کے بعد دفتر، فیکٹری یا دکان پہنچیں تو غور سے دیکھیے کہ آپ کے ماحول کا ہیرو کِس طرح انٹری دیتا ہے۔ اُسے دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ دلیپ کمار کو لوگ خواہ مخواہ ’’شہنشاہِ جذبات‘‘ کہتے ہیں۔ اور نَیّر سُلطانہ مرحومہ کا غم بدوش چہرہ بھی آپ کو بے معنی سا لگنے لگے گا۔