لاکھ سوچا، قیاس کے گھوڑے دوڑائے اور عقل کو بھی زحمت کی کہ کچھ سوچے، سمجھے اور توضیح و تشریح کی منزل تک پہنچے۔ مگر پھر یہ ہوا کہ سائنس دان ہار گئے۔ اُنہیں تو ہارنا ہی تھا۔ ساری دُنیا اِس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ اگر آکسیجن نہ ہو تو جینا ممکن نہ رہے کیونکہ سانسوں کا آنا جانا آکسیجن کے دم سے ہے۔ اگر آکسیجن نہ ہو تو سانسوں کا صرف جانا ہی جانا رہ جائے۔ پاکستان میں یہ آکسیجن والا کُلیہ بھی دم توڑ گیا۔ ہم آکسیجن کے بغیر تو زندہ رہ سکتے ہیں، سالن میں ٹماٹر ڈالے بغیر زندہ رہنا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ سبزی کے آڑھتی کِسی زمانے میںکھلے بازار کی معیشت کے اصول کی بنیاد پر کام کرتے تھے۔ سودے نیلام کے ذریعے ہوا کرتے تھے۔ اب اُنہوں نے نیلام کے نظام کو نیلام کرکے بند کمرے کی معیشت متعارف کرادی ہے یعنی اجارہ داری قائم کرلی ہے۔ چند بڑے مل بیٹھتے ہیں اور پھر مشاورت سے فیصلہ کرتے ہیں کہ کس سبزی کو انڈیکس میں اوپر لانا ہے اور کِسے ذِلّت اور گراوٹ سے دوچار کرنا ہے۔ کبھی پیاز اوپر ہوتی ہے تو کبھی آلو کا وقار بڑھ جاتا ہے۔ مگر ٹماٹر میں خدا جانے ایسی کیا بات ہے کہ اِس کی گُڈّی اونچی ہی اُڑتی رہتی ہے۔ سبزی منڈی میں کبھی بِھنڈی کے دام بڑھتے ہیں تو کبھی لوکی کے۔ کبھی آلو بُلندی پر جاتا ہے اور کبھی پیاز کے نخرے بڑھ جاتے ہیں۔ کبھی اروی مہنگی ہو جاتی ہے تو کبھی ادرک گاہکوں کا مُنہ چِڑانے لگتی ہے۔ مگر صاحب، ٹماٹر ہے کہ اپنی جگہ سے ہِلنے کا نام نہیں لیتا۔ جس بھارت سے بیشتر وقت ہماری ٹھنی رہتی ہے اُس کے آگے بھی ہماری ناک یہ ٹماٹر ہی نیچی کرتا ہے۔ ہاں، کبھی کبھی دِلّی سرکار بھی ٹماٹر خریدنے کی خاطر ہم سے جُھک کر مِلتی ہے۔ سلیم کوثر کا دعویٰ ہے کہ عالمِ ذات میں درویش بنا دیتا ہے عِشق اِنسان کو پاگل نہیں ہونے دیتا ہر سبزی کی الگ تاثیر ہوتی ہے۔ کِسی کا ذائقہ تیکھا ہوتا ہے اور اثر اُس سے بھی تیکھا۔ کوئی سبزی ذرا کڑوے ذائقے کی ہوتی ہے اور اثر کے معاملے میں زیادہ کڑوی ثابت ہوتی ہے۔ ٹماٹر کہنے کو کَھٹّا ہوتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جب اِس کی گُڈّی اُونچی اُڑ رہی ہو تو ذائقے میں کَھٹاس کے ساتھ ساتھ تیکھا پن بھی شامل ہو جاتا ہے۔ اور اگر گھر سے حُکم مِلا ہو کہ سبزی والے سے ٹماٹر کِسی بھی قیمت پر خریدکر ہی دوبارہ گھر میں قدم رکھنا ہے تو سمجھ لیجیے کہ آپ کو ٹماٹر میں کھٹاس اور تیکھے پن کے ساتھ ساتھ تھوڑی بہت کریلے کی تاثیر بھی مِلے گی۔ جب ٹماٹر بہت مہنگے ہو جاتے ہیں تو بہت سی خواتین سالن میں دَہی ڈالتی ہیں یا لیموں نچوڑ لیتی ہیں۔ ایسا کرنے سے سالن کَھٹّا تو ہو جاتا ہے مگر وہ ٹماٹر والی بات بہر حال پیدا نہیں ہوتی۔ شاید ایسی ہی کیفیت کو حالیؔ نے یوں بیان کیا تھا۔ ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور عالم میں تجھ سے لاکھ سہی، تو مگر کہاں ٹماٹر کے دام بڑھنے پر کبھی کبھی خواتین یہ سوچ کر سالن میں کیچ اپ ڈال لیتی ہیں کہ کیچ اپ کی رگوں میں بھی خون تو ٹماٹر ہی کا دوڑ رہا ہے۔ ایسی صورت میں کچن تجربہ گاہ کا درجہ اختیار کرلیتا ہے۔ کیا پکانے نکلے ہیں یہ تو سب کو معلوم ہوتا ہے مگر کیا پَکے گا، یہ کوئی نہیں جانتا۔ ایسے عالم میں خواتین وہی طرزِعمل اختیار کرتی ہیں جو پاکستان کے معاملے میں اختیار کی گئی ہے، یعنی سب کچھ اللہ کے کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ سالن میں اگر کیچ اپ اندازے سے زیادہ ہو جائے تو بیٹھے بٹھائے کانٹی نینٹل ڈِش بن جاتی ہے۔ فطری عُلوم کی تجربہ گاہوں میں بہت سی چیزیں اتفاق سے ایجاد ہوئی ہیں۔ یہی حال کچن کا بھی ہے۔ پکایا جاتا ہے کچھ اور پک جاتا ہے کچھ۔ ویسے آج کل سفارت کاری بھی یونہی random کے اُصول پر کام کر رہی ہے! کِسی مسئلے کو حل کرنے بیٹھیے تو اُس بُنیادی مسئلے کے سِوا سبھی کچھ راہ پر آ جاتا ہے۔ پاک بھارت سفارت کاری ہی کو لیجیے۔ کشمیر کا مسئلہ وہیں کا وہیں ہے اور ہم آلو، پیاز اور سب سے بڑھ کر ٹماٹر کا معاملہ طے کرنے میں مصروف رہتے ہیں! دونوں ممالک کشمیر جیسے انتہائی بُنیادی مسئلے کو ’’بالائے طاق کے اُوپر‘‘رکھ کر سبزی کی تجارت کو ترجیحات میں سرِ فہرست رکھے ہوئے ہیں۔ اور سبزیوں میں بھی ٹماٹر کے معاملات سب سے آگے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم زندہ رہنے کی خاطر نہیں کھاتے بلکہ کھانے کے لیے زندہ ہیں۔ اور کھانے کا اہتمام کرنے کے نام پر بھی ساری دوڑ دھوپ صرف ٹماٹر کی موجودگی یقینی بنانے کے لیے ہے۔ جس طرح غالبؔ کا شِکوہ یہ تھا کہ مقطع میں سُخن گسترانہ بات آن پڑی ہے بالکل اُسی طرح ہمارے خیالات کے گھوڑے بھی گھر گرہستی کے معاملے میں ٹماٹر کی منزل پر پہنچ کر اِس طرح رُک جاتے ہیں کہ پھر ٹَس سے مَس نہیں ہوتے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہماری زندگی میں ٹماٹر نہ ہو تو کیا ہو؟ ہم نے سنا ہے کہ ٹماٹر یورپ میں پھل کی حیثیت سے معروف تھا، ہم نے یہاں اُگایا اور سبزی بنا ڈالا۔ یعنی ٹماٹر مہنگا ہی نہیں، متنازع بھی ہے۔ خیر، ٹماٹر متنازع ہو یا نہ ہو، ہمیں ہر حالت میں ’’جیسا ہے، جہاں ہے‘‘ کی بُنیاد پر قبول ہے۔ قبول کیوں نہ ہو؟ یہ ہماری روزمرّہ اور بالخصوص گھریلو زندگی کا آئٹم نمبر ہے۔ اِسی کے دم سے ذہن سوچنے کی تحریک پاتا ہے۔ اگر ٹماٹر کو سالن اور زندگی سے نکال دیا جائے تو ہمارے پاس ایسا کون سا موضوع رہ جائے گا جس پر کِسی بھی وقت بحث کی جاسکے! پھر تو بے دِلی ہی بے دِلی رہ جائے گی۔ اور جون ایلیا کہہ گئے ہیں۔ بے دِلی! کیا یونہی دِن گزر جائیں گے؟ صرف زندہ رہے ہم تو مَر جائیں گے شُعرا، دانشور، فلسفی ہمیں پتا نہیں کون کون سی دُنیاؤں کی خبر دیتے ہیں۔ اُن کی پوری کوشش ہے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں پائے جانے والے تمام دلچسپ معاملات کی بساط لپیٹ دیں اور فارغ ہوکر غور و فکر کی دُنیا میں گم اور سوچوں کے سمندر میں غرق ہو جائیں۔ اچھا ہے کہ ٹماٹر جیسی معمولی سی دِکھائی دینے والی چیز ہماری زندگی میں رہے اور رونق میلہ لگا رہے۔ نہ فرصت ہوگی اور نہ ہم غالبؔ کی طرح پری چہرہ لوگوں، غمزہ و عشوہ و ادا، سبزہ و گل، ابر، ہوا اور دوسری ’’فضول‘‘ سی چیزوں کے بارے میں سوچیں گے! ذرا سوچیے، ایک معمولی سے ٹماٹر نے ہمیں کِتنے فِکری بکھیڑوں سے بچا رکھا ہے۔ سارے دُکھڑے بھول جائیے، بس اِتنا یاد رکھیے کہ زندگی سالن ہے۔ اور ٹماٹر کے دَم سے یہ سالن حسیں ہے ٹماٹر نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے