کبھی آپ نے کوئی ایسی فیکٹری دیکھی ہے جس میں مختلف، بلکہ تمام شعبوں کے مستند ترین ماہرین از خود تیار ہوتے ہوں؟ آپ کو شاید یہ سوال پڑھ کر ہنسی آرہی ہے۔ ہنسنے کی ضرورت نہیں۔ سوچیے اور خوب غور کرکے جواب دیجیے۔ یہ کیا؟ آپ تو چند ہی لمحوں میں ہار مان بیٹھے! چلیے، آپ کی سہولت کے لیے ہم بتائے دیتے ہیں کہ جہاں تمام شعبوں کے ماہرین ازخود تیار ہوتے ہیں اُس فیکٹری کو عُرفِ عام میں پاکستان کہا جاتا ہے۔ دُنیا بھر میں یہ ہوتا ہے کہ کِسی شعبے میں کام کی ابتدا ہوتی ہے، لوگ کام کرتے جاتے ہیں، شعبہ پنپتا جاتا ہے اور پھر اُس شعبے میں ماہرین نمودار ہونے لگتے ہیں۔ یعنی ماہرین کی آمد شعبے کی موجودگی سے مشروط ہوتی ہے۔ جو لوگ پہلے ہی سے کام کرتے آرہے ہوں اُنہیں ماہرین بتاتے ہیں کہ کِس طرح کام کرنا ہے۔ ہم اِس معاملے میں بازی لے گئے ہیں۔ ابھی کوئی شعبہ باضابطہ شروع بھی نہیں ہوا ہوتا اور اُس کے ماہرین منصۂ شہود پر جلوہ افروز ہونے لگتے ہیں۔ یہ بھی بہت منفرد آئیڈیا ہے کہ ماہرین پہلے آئیں اور شعبے کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ یعنی رُخسار پر تِل تو دُنیا نے دیکھے ہی ہیں۔ ہم تِل کا اہتمام کرکے اُس کے لیے رُخسار کا بندوبست کرتے ہیں اور انکسار ملاحظہ فرمائیے کہ اِس کمال پر کبھی غرور بھی نہیں کرتے۔ مرزا تنقید بیگ کی زندگی کا بڑا حصہ زمانے کی ناقدری کا رونا روتے ہوئے گزرا ہے۔ اور اِس میں غلط کیا ہے؟ بات کچھ یوں ہے کہ مرزا کسی بھی معاملے میں اپنی ماہرانہ اور ناقدانہ رائے پورے وثوق اور اعتماد کے ساتھ دینے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں مگر کوئی پوچھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا۔ اور ایک مرزا پر کیا موقوف ہے، ہمارے ہاں قدم قدم پر نابغے بکھرے ہیں مگر کسی کو ایک نظر دیکھنے کی توفیق ہی نہیں ملتی۔ اگر سوچنے پر قید ہوتی تو ہم کیا کرتے؟ ہم پاکستانیوں کے پاس سوچنے کی خصلت اور عادت کے سِوا اب رہ کیا گیا ہے؟ اور سوچنے کا عمل بھی حالات کے تابع نہیں۔ محل ہو یا نہ ہو، ہم سوچتے رہتے ہیں۔ اپنی آنکھ کا شہتیر چھوڑ کر دوسروں کی آنکھ میں تِنکے تلاش کرکے ان کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں۔ کوئی ہمیں ہماری اپنی آنکھ کا شہتیر یاد دلائے تو جواز یہ گھڑا جاتا ہے کہ اپنی تکلیف پہاڑ جیسی بھی ہو تو گوارا ہے، مگر دوسروں کا درد دیکھا اور سہا نہیں جاتا! ع سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے جب سوچنا ہی ٹھہرا تو سوچنے کا جواز سوچنے میں کہاں کا ہرج اور کیسی قباحت؟ اور جو بات سوچ لی اُس کے اظہار میں کون سا امر مانع ہوسکتا ہے؟ یہ معاملہ از خود توجہ مبذول کرنے کا ہے۔ سوچنا کہیں بھی اور کبھی بھی شروع کیا جاسکتا ہے۔ اور جب سوچنا شروع کردیا تو کون سی حد نظر میں رہتی ہے؟ سوچنے اور رائے دینے کی عادت نے پاکستانی قوم کو ماہرین کے ایک عظیم الشان گروپ میں تبدیل کردیا ہے۔ حکومتیں بھی کیسی کوتاہ نظر ہیں۔ ماہرین کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں اور قدم قدم پر بکھرے ہوئے ماہرین اُنہیں دکھائی نہیں دیتے۔ شاید حکومتوں کی قریب کی نظر کمزور ہوا کرتی ہے! ذرا ٹھیلوں، ٹِھیوں، چبوتروں اور تھڑوں پر نظر دوڑائیے، جہاں تہاں نابغے پڑے ہیں، رُل رہے ہیں۔ یہ وہ ’’اللہ لوگ‘‘ ہیں جو کائنات کے تمام مسائل چُٹکی بجاتے ہی حل کردیتے ہیں۔ اگر ایک مسئلہ بیان کیجیے تو ایسا حل بتاتے ہیں جو کم از کم دس مسائل کو بخوبی کور کرسکتا ہے۔ معیشت، قومی سلامتی اور خارجہ و داخلہ امور سے گلی محلے کی سطح تک کون سا مسئلہ ہے جو ہر کوچے میں پائے جانے والے ان ماہرین کی رینج سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو؟ جب یہ رائے دینے پر آتے ہیں تو مسائل ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں یعنی جس طرح چاہو حل کرو۔ مگر ناقدری کا عالم دیکھیے کہ حکومتیں اِن سے رائے لینے کی زحمت گوارا نہیں کرتیں۔ اگر متوجہ ہوں تو مسائل آن کی آن میں حل ہوں اور زندگی آسان ہو جائے۔ مگر بھئی ہمارے ہاں آسانیاں تلاش کرنے کی کِس کو پڑی ہے؟ سبھی زیادہ سے زیادہ مشکلات کو گلے لگانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ اور پھر مشکلات کی بہتات کو آسانی میں تبدیل کرکے پُرسکون بیٹھ رہتے ہیں۔ جو رضاکارانہ طور پر ماہرین کے منصب پر آ بیٹھے ہیں وہ کہاں دستیاب نہیں؟ ٹی وی پر، اخباری کالموں میں، شادی کی تقریبات میں، دوستوں کی محفل میں اور دشمنوں کے جُھرمٹ میں۔ غرض یہ کہ یہ ہر جگہ پائے جاسکتے ہیں۔ یہ مقام کے پابند ہیں نہ وقت کے۔ اخباری کالموں پر نظر دوڑائیے تو ایک سے بڑھ کر ایک ماہرین جلوہ فرما نظر آئیں گے۔ اگر ارباب بست و کشاد باقاعدگی سے ٹی وی دیکھیں اور اخباری کالم پڑھا کریں تو مسائل کے حل کی ایسی راہ پائیں گے جس پر گامزن ہوکر داد و تحسین کے حصول کی منزل تک پہنچنا کچھ دشوار نہ ہوگا۔ کسی ہسپتال کی حدود میں قدم رکھیے تو عیادت کے لیے آنے والوں میں کئی ’’ڈاکٹر‘‘ ملیں گے۔ ایم بی بی ایس کرنے والے بے چارے کیا خاک جانتے ہیں۔ آپ کو جو کچھ پوچھنا ہے اُن سے پوچھیے جو از خود ڈاکٹر کے منصب پر فائز ہو جاتے ہیں۔ یہ آپ کو بتائیں گے کہ کون سی بیماری کیوں پیدا ہوتی ہے اور اُس کا تدارک کِس طور ممکن ہے۔ اگر اِن کے مشوروں پر عمل کیا جائے تو بیماریاں ایسی ناپید ہوں کہ پھر کبھی سَر اُٹھانے کا نام نہ لیں۔ ہم اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ قانونی نکات کے بارے میں سب سے زیادہ جج صاحبان جانتے ہیں۔ یہ ہماری خام خیالی ہے۔ عدالتی اُمور کا اُنہیں زیادہ علم ہے جو ہوٹلوں کے باہر کرسیوں پر بیٹھ کر رات رات بھر بحث کرتے ہیں۔ پاکستان شاید واحد ملک ہے جہاں گھر کا کاٹھ کباڑ اور بُھوسی ٹکڑے خریدنے والے بھی چیف جسٹس اور آرمی چیف کے بیانات پر رائے زنی کرنے سے نہیں چُوکتے! ’’شعور‘‘ کی ایسی بلندی مغربی دُنیا کی ترقی یافتہ اقوام کو بھی اب تک نصیب نہیں ہو پائی۔ دانائی پر مبنی مشوروں کی گنگا بہہ رہی ہے۔ منہ ہاتھ دھونے میں کیا رکھا ہے، آپ چاہیں تو اشنان بھی کیجیے۔ دانائی بکھیرنے والے جب اپنی موج میں بہتے ہیں تو اِس سیّارے تک محدود نہیں رہتے۔ اپنی حدوں سے نکل کر وہ بہت دور سے، بلکہ نظامِ شمسی کے دوسرے سیّاروں سے بھی کوڑیاں لاتے ہیں۔ جب یہ بات سے بات نکالنے پر آتے ہیں تو ’’دانش‘‘ کی ایک عجیب دُنیا آباد ہو جاتی ہے۔ ع وہ پَو پھٹی، وہ کرن سے کرن میں آگ لگی جب یہ لوگ کرکٹ کا میچ دیکھ رہے ہوتے ہیں تو کپتان کی حکمتِ عملی پر لعنت بھیجتے ہوئے ایسے مشورے صادر فرما رہے ہوتے ہیں کہ اگر کپتان عمل کر بیٹھے تو پہلے ہی میچ میں ٹورنامنٹ جیت لے۔ معاملہ شادی کا ہو یا خریداری کا، میت کی تدفین کا مرحلہ ہو یا بچے کے عقیقے کا، یہ خدائی فوجدار مشوروں کے ساتھ حاضر ہیں۔ اور مشورے بھی مفت۔ قوم کے غم میں گُھلنے والے یہ سادہ و پُرکار لوگ مشوروں کے چلتے پھرتے سُپر اسٹورز ہیں۔ جب اور جو جی میں آئے، خریدیے۔ یہ سُپر اسٹورز چوبیس گھنٹے اور سال بھر کھلے رہتے ہیں اور اسٹاک ختم ہونے کا بھی کوئی ڈر نہیں۔