"MIK" (space) message & send to 7575

ہمیں بھی کاش کوئی پیر مل جائے!

ہر مشکل میں جس صدر کو پہاڑوں سے دور، ساحل کے نزدیک رہنے کا مشورہ دیا جاتا رہا ہے اب اُس کی کشتی کنارے پر آ لگی ہے۔ صدر زرداری کا پانچ سالہ دور ختم ہونے کو ہے۔ اِس مدت کے دوران قوم کتنے ہی طوفانوں سے بِِھڑتی رہی ہے۔ صدر کے لیے تو بہت آسان تھا کہ طیارے میں بیٹھیں اور کراچی پہنچ جائیں۔ کراچی میں وہ صدارتی کیمپ آفس میں اطمینان سے بحرانی کیفیت گزارتے تھے۔ قوم بے چاری کہاں جاتی؟ وہ ہر بحرانی کیفیت میں طوفانی لہروں ہی کے ’’رحم و کرم‘‘ پر رہی۔ غوطہ خور موتی لانے کی شہرت رکھتے ہیں۔ مگر ہر بحران کی تہہ میں قوم کے ہاتھ کنکر ہی آئے۔ بحرانوں کی تہہ میں عوام کے لیے کنکر ہی ہوا کرتے ہیں۔ موتی نیفے میں اُڑس کر اُڑن چُھو ہوجانے والوں کے لیے علامہ اقبالؔ نے کہا ہے ع اب اُنہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر! ایک زمانے سے یعنی چار پانچ برسوں سے ہم سُنتے آئے ہیں کہ صدر کے ایک پیر ہیں جو ہر معاملے میں اُن کی معاونت کرتے ہیں۔ ہم ابتدا میں حیران ہوئے تھے کہ آصف علی زرداری کو کیا واقعی کسی پیر کی ضرورت ہے؟ وہ بلا شرکتِ غیرے ایسے کمالات کے حامل ہیں کہ ایک دُنیا اُنہیں ’’مُرشد‘‘ ماننے پر راضی ہے! اِسی لیے تو چاہنے والے اُنہیں سب پر بھاری بھی قرار دیتے آئے ہیں۔ پھر خیال آیا ایوان ہائے اقتدار کی پیچیدہ گتھیاں سُلجھانے کے لیے ممکنہ طور پر اُنہیں کسی بڑے پیر کی ضرورت پڑتی ہوگی۔ جو صدر زرداری کے لیے بھی پیر ہوں وہ تو واقعی بڑے پیر صاحب ہوئے! آصف علی زرداری بے حد خوش نصیب ہیں کہ اُنہیں ایک عدد مستند پیر صاحب مِل گئے۔ پیر صاحب نے اُن کی کشتی کو ڈوبنے اور کسی چٹان سے ٹکرانے سے بچایا۔ پانچ برسوں کے دوران کیسے کیسے نازک مراحل آئے مگر صدر کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔ ہوتا بھی کیسے؟ پیر صاحب جو موجود تھے ان کا مکمل تحفظ یقینی بنانے کے لیے! چند برس پہلے تک حالت یہ تھی کہ صدر کی کرسی بچانے کے لیے ایوانِ صدر میں روزانہ کالے بکروں کی قربانی دی جاتی تھی۔ یعنی قوم کے ساتھ ساتھ بکروں کی بھی شامت آتی! یا یہ کہ قوم اور بکروں کا مُقدّر اور انجام یکساں تھا! خیر، صدر کے پیر نے انہیں مختلف نازک لمحات میں محفوظ رکھا۔ کیسے محفوظ نہ رکھتے؟ پانچ سال کا ’’ٹھیکہ‘‘ جو تھا۔ صحافیوں کے اعزاز میں صدر زرداری کی طرف سے الوداعی عشائیے میں اُن کے پیر اعجاز نے بتایا کہ آصف زرداری سے اُن کا پانچ سال کا ٹھیکہ تھا۔ جو وعدہ کیا، پورا کیا۔ آصف زرداری نے ایوانِِ صدر میں مزید قیام کی خواہش ظاہر نہ کی ورنہ وہ اِس کا بندوبست بھی کردیتے! ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ آصف علی زرداری کے دِل میں ایک اور مدت کے لیے صدر بنے رہنے کی ہوس نہیں تھی۔ پیر صاحب کی گواہی کے بعد ہماری نظر میں صدر کی وقعت بڑھ گئی ہے۔ عشائیے کے بعد صحافیوں کو پیٹ بھرے کی مستی سُوجھی تو پیر اعجاز کو گھیر لیا اور اُن پر سوالوں کی بوچھار کردی۔ سوالوں کے جواب پیر اعجاز نے جس انداز سے دیئے اُس سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوگیا کہ صحافیوں کا سامنا کرنے کی تربیت اُنہیں صدر زرداری نے دی ہے یا وہ اِس معاملے میں بھی صدر زرداری کے ’’مُرشد‘‘ ہیں! ہونٹوں پر ہنسی اور ماتھے پر کوئی شکن نہیں! پریشان ہونے کے لیے قوم ہے تو سہی، پھر ایوان ہائے اقتدار کے مکین بھلا کیوں کوئی بات دل پر لیں؟ پیر اعجاز فرماتے ہیں کہ وہ روکھی سوکھی کھاکر گزارا کرتے ہیں۔ جہاں دو وقت کی روٹی ملے گی، پڑ رہیں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آصف زرداری بادشاہ ہیں۔ وہ دوستوں کے دوست ہیں۔ اب جینا مرنا اُن کے ساتھ ہے، اُنہی کے ساتھ رہیں گے۔ صحافیوں سمیت پوری قوم کو یاد رکھنا چاہیے مُرید تو بھولے ہوسکتے ہیں، پیر کبھی بھولے نہیں ہوتے۔ وہ ’’روکھی سوکھی‘‘ کے لیے بھی مُرید سوچ سمجھ کر چُنتے ہیں! جیسی پیر اعجاز نے پسند کی ہے ویسی ’’روکھی سوکھی‘‘ اللہ پوری پاکستانی قوم کو عطا فرمائے! صحافی یہ جاننے کے لیے بے تاب تھے کہ پیر اعجاز نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ پیر صاحب نے پُرسکون لہجے میں بتایا کہ وہ خالی ہاتھ ایوانِ صدر میں آئے تھے اور خالی ہاتھ ہی جارہے ہیں۔ ثبوت کے طور پر اُنہیں نے اپنی دونوں خالی جیبیں بھی صحافیوں کو دِکھائیں! اِس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُنہوں نے اقتدار کے اعلیٰ ایوان کو اپنے کمالات صرف دکھائے نہیں بلکہ چند ایک کمالات سیکھے بھی ہیں! صحافی بھی کیسے بھولے ہیں جو یہ توقع رکھتے ہیں کہ کوئی اگر مال بنائے گا تو جیب میں لیے لیے پھرے گا! پیر اعجاز کا یہ بھی کہنا تھا کہ مقدمات سے آصف زرداری کا پہلے کچھ بگڑا ہے نہ اب بگڑے گا۔ رسمی کارروائی ہوتی رہے گی۔ صدر کا بال بھی بیکا نہ ہوگا۔ پیر اعجاز درست فرماتے ہیں۔ جس ملک میں رسم ہی یہ ہو کہ ہر معاملے میں صرف رسمی کارروائی سے کام چلایا جائے وہاں کسی بھی معاملے کے منطقی انجام تک پہنچنے کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے؟ مرزا تنقید بیگ نے جب صدر کے پیر کی باتیں اخبار میں پڑھیں تو اُن کے گرویدہ، بلکہ مُرید ہوگئے۔ جب نام ہی اعجاز ہو تو کمالات کیونکر ہویدا نہ ہوں؟ جو صدر کے بھی مُرشد ہوں اُن کی ذہانت کا کوئی کیا اندازہ لگائے؟ مرزا کہتے ہیں۔ ’’اِس ملک کے پیر کوئی کچّا کام نہیں کرتے۔ صرف اُسی کے سَر پر دستِ شفقت پھیرتے ہیں جس کی نوکری پَکّی ہو! مستقبل اُن کا محفوظ کرتے ہیں جو پہلے ہی بادشاہ گر ہوں! اگر ایسا کوئی مُرید میسر ہو تو ہم بھی پیری کے میدان میں قدم رکھنے کو تیار ہیں!‘‘ آصف علی زرداری بہت سے معاملات میں ’’قابلِ رشک‘‘ رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ قوم اپنی ’’بد نیتی‘‘ کے ہاتھوں مجبور ہوکر کبھی کبھی رشک میں سے ’’ر‘‘ نکال دیتی ہے! اب یہی دیکھیے کہ اُنہیں سیاسی پلیٹ فارم ہی نہیں، روحانی پلیٹ فارم بھی مل گیا یعنی ہر پریشانی سے بچانے والے پیر کا دستِ شفقت بھی سَر پر رہا۔ دوسری طرف قوم ہے کہ اُس کے نصیب میں ایسا ایک تو کیا، آدھا پیر بھی نہیں جو لوڈ شیڈنگ کا عذاب ختم یا کم کرنے کا وظیفہ بتائے۔ اے کاش! ہمارے نصیب میں بھی کوئی ایسا پیر ہوتا جو کرپشن کی لعنت جڑ سے ختم کرنے کا تعویذ عنایت کرتا! آصف زرداری کو تو پیر اعجاز مل گئے جنہوں نے پانچ سال کا ٹھیکہ پورا کر دکھایا۔ ہمارے نصیب میں کوئی پیر صاحب نہیں جو افلاس اور بے روزگاری ایک سال ہی کے لیے ختم کرنے کا ٹھیکہ لیں! قوم اب تک کسی ایسے پیر صاحب کی راہ تک رہی ہے جو سخت بحرانی کیفیت میں کسی ایسی جگہ جانے کا مشورہ دیں جہاں جانا ممکن ہو۔ دیکھتے ہیں قوم کے دن کب پِھریں اور کوئی بڑے پیر صاحب اِس غریب کی طرف بھی آ نکلیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں