"MIK" (space) message & send to 7575

اچھا ہے‘ ہم دُور سے پہچانے جائیں!

’’لگتا ہے آپ پاکستان سے آئے ہیں۔‘‘ آٹو رکشا کے ڈرائیور نے یہ بات زیرِ لب مسکراہٹ کے ساتھ کچھ اِس انداز سے کہی کہ میں چونکے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ واقعہ نومبر 1997 ء کا ہے جب میں پاکستان سے متصل بھارتی ریاست گجرات کے سب سے بڑے شہر احمد آباد گیا تھا۔ شہر میں کسی سے ملنے گیا تو رکشا سے اُترنے پر ڈرائیور نے بتایا کہ 17 روپے ہوئے ہیں۔ میں نے 20 روپے دیے اور جانے لگا۔ تب ڈرائیور نے وہ بات کہی جو آپ پہلے جُملے میں پڑھ چکے ہیں۔ پاکستان کے ذکر پر چونکتے ہوئے میں نے پوچھا تمہیں کیسے اندازہ ہوا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں۔ ڈرائیور نے مُسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’یہ کون سی مُشکل بات ہے صاحب؟ یہاں جب بھی کوئی رکشا سے اترتا ہے تو میٹر کی مدد سے ایک ایک پائی کا حساب لگاکر کرایہ دیتا ہے۔ کوئی دس پیسے بھی نہیں چھوڑتا اور پاکستانی تو پانچ دس روپے تک چھوڑ دیتے ہیں!‘‘ یہ بات سُن کر فوری طور پر تو عجیب سا احساس پیدا ہوا۔ دو تین ساعتوں کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ عجیب سا احساس دراصل تفاخر ہے۔ خِسّت (کنجوسی) سے عبارت، گھٹن زدہ بھارتی معاشرے میں پاکستانیوں کی فراخ دِلی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے کم نہیں ہوتی۔ ڈرائیور نے وضاحت کی کہ رکشا کا میٹر پیسے نہیں، پوائنٹس بتاتا ہے۔ ریٹ کارڈ میں پوائنٹس کے سامنے رقم لکھی ہوتی ہے۔ مسافر کسی بھی جنرل اسٹور سے کارڈ خرید کر اپنے پاس رکھ سکتا ہے تاکہ خود حساب لگاکر کرایہ دے! اچھی بات یہ ہے کہ معاملہ حساب کتاب سے طے ہوتا ہے۔ سِتم ظریفی یہ ہے کہ لوگ دس بیس پیسے بھی نہیں چھوڑتے! بات اُصولی طور پر تو درست ہے مگر انسانیت کے بھی کچھ تقاضے ہوا کرتے ہیں۔ ضروری تو نہیں کہ ہر معاملہ ہر بار اُصولی انداز ہی سے طے کیا جائے۔ ؎ اچھا ہے دِل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل لیکن کبھی کبھی اِسے تنہا بھی چھوڑ دے! جن معاشروں میں اُصولوں اور حساب کتاب کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے اُن میں بہت کچھ درست انداز سے چل رہا ہوتا ہے مگر رویّوں میں اچھی خاصی سَفّاکی بھی در آتی ہے۔ بھارت میں آج بھی سائیکل رکشے چلتے ہیں۔ دِلّی جیسا بڑا اور بین الاقوامی انداز کا شہر بھی اِس سے نجات نہیں پاسکا۔ بھارت کے بیشتر چھوٹے بڑے شہروں میں سائیکل رکشے چلائے جارہے ہیں۔ یہ رکشے، ظاہر ہے، انسان ہی چلاتے ہیں۔ اور چلانا کیا ہے، کھینچتے ہیں۔ سائیکل رکشے چلانے والوں کے گردے خاصی چھوٹی عمر میں جواب دے جاتے ہیں اور وزن کھینچتے رہنے سے جب پھیپھڑے کمزور ہو جاتے ہیں تو اُنہیں سانس کی بیماریاں بھی لاحق ہو جاتی ہیں۔ پاکستانی جب اِن سائیکل رکشوں میں بیٹھتے ہیں تو چڑھائی آنے پر اُتر جاتے ہیں اور چلانے والے کے ساتھ خود بھی سائیکل رکشے کو دَھکّا لگانے لگتے ہیں۔ کوئی بھی اس منظر کو دیکھ کر آسانی سے اندازہ لگا لیتا ہے کہ مُسافر پاکستان سے آئے ہیں! مقامی مُسافر چڑھائی آنے پر بھی رکشے سے نہیں اُترتے، خواہ رکشے پر خاصا بوجھ بھی ہو اور چلانے والا ساٹھ سال سے زیادہ ہی کا کیوں نہ ہو! بھارتی معاشرے میں پاکستانی دور سے اِس لیے بھی پہچان لیے جاتے ہیں کہ وہ خوب کھاتے ہیں، جی بھر کے خرچ کرتے ہیں، کسی ضرورت مند کو دینے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ سچ تو یہ ہے کہ کپڑوں کی نوعیت اور چال ڈھال ہی بتا دیتی ہے کہ بندہ پاکستان سے آیا ہے! فراخ دِلی پاکستانیوں کی بنیادی شناخت ہے۔ ہر طرح کے حالات میں زندہ دِلی کا مظاہرہ کرنا پاکستانیوں کا ایک نمایاں وصف ہے۔ ہزار خرابیوں اور عِلّتوں کو اپنانے کے باوجود پاکستانیوں کی اکثریت نے اب تک چند بنیادی اوصاف ترک نہیں کئے۔ بیشتر پاکستانی اب تک غیر ضروری تو کیا، ضروری طور پر بھی خِسّت سے کام نہیں لیتے۔ ہر معاملے میں حساب کتاب کی عادت اِنسان کی نفسی اور حِسّی ساخت سے بہت کچھ کھینچ کر، نکال کر پھینک دیتی ہے۔ لین دین میں حساب کتاب لازم ہے مگر ایسی بند ذہنیت کے ساتھ نہیں کہ پورا روحانی اور اخلاقی ڈھانچا ہی داؤ پر لگ جائے۔ مرزا تنقید بیگ رشتہ داروں سے ملنے کئی بار بھارت جاچکے ہیں۔ اور ہر دورے میں ان کا تجربہ وہی رہا ہے جو آپ نے پڑھا۔ یہ بات مرزا کے حلق سے بھی نہیں اُترتی کہ ایسی اُصول پسندی کس کام کی جو انسان دوستی جیسے عظیم وصف ہی کا گلا گھونٹ دے؟ ہر معاملے کو حساب کتاب کی عینک سے دیکھنے کا کبھی کبھی بہت بھیانک نتیجہ بھی برآمد ہوتا ہے۔ انسان کو کسی بے کس اور لاچار عورت پر بھی ترس نہیں آتا۔ اِس کی سَند مرزا ہی کی زبانی سُنیے۔ ’’پندرہ سولہ سال قبل میں بھارت گیا تو جس رشتہ دار کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا اُس کے گھر سے تین مکان چھوڑ کر کوئی مکان بن رہا تھا۔ چند مزدور عورتیں وہیں ڈیرا ڈالے ہوئے تھیں۔ ہر مزدور عورت کو یومیہ پندرہ بیس روپے ملتے تھے۔ ایک دن صبح کے وقت دیکھا کہ ایک مزدور عورت گود میں بچہ لیے ہر دروازے پر جارہی ہے اور کچھ مانگ رہی ہے۔ ساتھ میں اُس کی بوڑھی ماں بھی ہے۔ معلوم ہوا کہ پچھلی رات کو بچے کی ولادت ہوئی تھی اور مفلوک الحال زچّہ گھر گھر جاکر مدد مانگ رہی ہے تاکہ کچھ اچھا پکاسکے۔ ساتھ ہی یہ دِل خراش حقیقت بھی سامنے آئی کہ سات آٹھ گھروں کے دروازے کھٹکھٹانے پر بھی بمشکل ڈھائی روپے جمع ہو پائے ہیں۔ جب وہ عورت بچے اور بوڑھی ماں کے ساتھ ہمارے دروازے تک آئی تو میں نے اُسے سو روپے دیے تاکہ وہ کچھ اچھا پکالے۔ پندرہ سولہ سال پہلے بھی یہ کوئی بہت بڑی رقم نہیں تھی۔ اور کسی پاکستانی کے لیے تو یقیناً نہیں تھی! یہ منظر دیکھ کر میرے رشتہ دار نے کہا کہ تم پاکستانی نواب بن جاتے ہو اور پیسے لُٹاکر لوگوں کی عادت خراب کرتے ہو۔ میں نے اُسے سمجھایا کہ اللہ کے بندے! اگر رب تعالیٰ نے کچھ دیا ہے تو غریبوں کی مدد کرنی چاہیے تاکہ اُن کا بھی تھوڑا سا وقت اچھا گزر جائے۔‘‘ ہزار خرابیوں کے باوجود اللہ نے اب تک ہم میں چند خوبیاں رہنے دی ہیں۔ فراخ دِلی ہمارا ایک بنیادی اثاثہ ہے۔ اچھا ہے کہ ہمارے دِلوں کی یہ وُسعت برقرار رہے اور غیر ہمیں دُور سے پہچان لیا کریں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں