عندلیبؔ شادانی مرحوم نے کہا تھا ؎ کہتے ہیں تاریخ ہمیشہ اپنے کو دُہراتی ہے اچھا، میرا خوابِ جوانی تھوڑا سا دُہرائے تو باقی دُنیا کی تو اُس کے رہنے والے جانیں، البتہ کراچی میں ہم نے اِس بات کو کئی بار درست ثابت ہوتے دیکھا ہے۔ کراچی کا ’’خوابِ جوانی‘‘ کیا ہے؟ شر پسندوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن۔ اور اِس خواب کو تاریخ پوری دیانت کے ساتھ وقفے وقفے سے دُہراتی رہتی ہے۔ شاید اِس خیال سے کہ کہیں ذہنوں سے مِٹ نہ جائے۔ یہ رکاوٹوں والی دوڑ ہے۔ اہلِ کراچی تھوڑا سا چلتے ہیں کہ آپریشن کی ’’ہرڈل‘‘ سامنے آجاتی ہے ؎ ہے انتہائے یاس بھی اِک ابتدائے شوق پھر آ گئے وہیں پہ‘ چلے تھے جہاں سے ہم انگریزی میں ایک کہاوت ہے کہ تمام راستے روم کو جاتے ہیں۔ کراچی میں برپا کیے جانے والے آپریشن اور روم میں خاصی مماثلت ہے۔ اہلِ کراچی خواہ کسی راہ پر گامزن ہوں، آپریشن تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔ بقول شیونؔ رضوی ؎ لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے کراچی کو ویسے تو اور بھی بہت کچھ درکار ہے مگر شدید ترین ضرورت امن کی ہے۔ کسی بھی معمورے کو امن سے ہمکنار رکھنا قانون نافذ کرنے والوں کا منصبی فرض ہے۔ جب وہ اپنے حِصّے کا کام نہیں کرتے تو لوگوں کو اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ کراچی کے اصلی اور نام نہاد‘ ہر دو طرح کے اسٹیک ہولڈرز ایک دوسرے کو ’’پُرامن‘‘ رکھنے پر تُلے رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں شہر امن سے ہمکنار کم اور دوچار زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ ایک دوسرے کو ’’پُرامن‘‘ رکھنے کی خواہش اور کوشش نے آبادیوں کو قبرستان بنایا ہے اور قبرستان مزید ’’آباد‘‘ کیے ہیں۔ جو کام مرہم پٹی سے ہوسکتا ہے اُس کے لیے آپریشن کے اہتمام کی روایت کچھ ہمی پر ختم ہے۔ معمولی سی خراش کو فری ہینڈ دیا جاتا ہے کہ زخم میں تبدیل ہو اور زخم کو ناسُور بننے سے کوئی نہیں روکتا۔ ہر دبی ہوئی چنگاری کو اجازت، بلکہ صلائے عام ہے کہ اُبھرے، بھڑک کر شعلہ بنے اور سب کچھ خاکستر میں تبدیل کردے۔ معمولی سے معاملات کو اِس حد تک بگڑنے دیا جاتا ہے کہ لوگ آپریشن کی تمنا کرنے لگیں۔ معاملات بے قابو ہونے لگتے ہیں تو اچانک آپریشن کا غلغلہ بلند ہوتا ہے۔ شہر میں اپنے اسٹیک پر جن کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگتی ہے وہ آپریشن کی آرزو کرنے لگتے ہیں۔ بقول قمرؔ جلالوی ع غُنچے اپنی فریادوں میں بجلی کو پُکارا کرتے ہیں جن کا پَلّہ بھاری ہو وہ آپریشن کے نام سے بِدکتے ہیں کیونکہ اُن کا اسٹیک داؤ پر لگ جاتا ہے۔ وہ آپریشن کو ایسی چُھری کے روپ میں دیکھتے ہیں جو اُن کے مفادات کے گلے پر پِھرتی ہے۔ آپریشن کے لیے بے ہوشی لازم ہے مگر یہ کیسا آپریشن ہے جس کے شروع ہوتے ہی لوگ ہوش میں آ جاتے ہیں بلکہ ہوش ٹِھکانے آ جاتے ہیں۔ کل جماعتی کانفرنس کے نام پر ہمارے ہاں مَکّھی پر مَکّھی بٹھانے کی روایت برقرار ہے۔ کسی زمانے میں گول میز کانفرنسز کا غلغلہ بلند رہا کرتا تھا۔ ان کانفرنسز میں شریک ہونے والے گھوم پھر کر اُسی بات پر واپس آ جاتے تھے جس سے مکالمہ شروع ہوا ہوتا تھا۔ آج کی اے پی سیز بھی گول میز کانفرنس ہی کا تسلسل ہیں۔ یہ بھی ’’نشستند و گفتند و برخاستند‘‘ سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتیں۔ اے پی سیز کو لہو گرم رکھنے کے بہانے سے بڑھ کر کچھ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ آج کی گول میز کانفرنسز بھی گول مول باتوں ہی کے لیے مختص ہیں اور اِس بے عملی کے نتیجے میں بہتر حالات کا بوریا بستر گول ہوتا رہتا ہے اور خرابی بڑھنے پر معاملہ آپریشن ٹیبل تک جا پہنچتا ہے۔ کراچی ایک بار پھر آپریشن ٹیبل پر ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اِس شہر کے اسٹیک ہولڈرز ہنسی خوشی آپشن ٹیبل تک آجاتے۔ جب مذاکرات کی میز کا بازار گرم نہیں ہوتا تو آپریشن ٹیبل کا میلہ لگتا ہے۔ جب آپشن کو گلے نہیں لگایا جاتا تو آپریشن گلے پڑتا ہے۔ آپشن ٹیبل کا آپشن تو ہمیشہ موجود رہتا ہے مگر لوگ اُسے اپنانے سے گریز کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نشتر چبھونے کی روایت گرم جوشی سے برقرار رکھی جاتی ہے۔ آپریشن کب ہوتا ہے؟ جب جسم میں فاسد مادے ہوں‘ یعنی خاصی محنت سے فاسد مادے پیدا کیے جاتے ہیں یا پیدا ہونے دیے جاتے ہیں۔ عام سی گولی سے دُور ہو جانے والے درد کا تدارک ہم آپریشن سے چاہتے ہیں۔ شاید معمولی سی بیماری کا علاج تلاش کرنا ہماری شان کے خلاف ہے۔ کوئی بھی درد جب تک دردِ سَر نہ بنے، لُطف ہی نہیں دیتا۔ معاملات خوب بگڑیں گے تب ہی تو درست کرنے میں لطف آئے گا۔ بعض لوگ بات بات پر ڈاکٹر کی طرف دوڑتے ہیں۔ معمولی نزلہ بھی ہو تو بدحواس ہو جاتے ہیں۔ معمولی سی کھانسی اُٹھے تو گھبرا جاتے ہیں، دِل بیٹھنے لگتا ہے۔ کہیں ہم بھی تو کسی ایسے ہی نفسیاتی مخمصے کا شکار نہیں ہوگئے؟ کہیں ایسی ہی بدحواسی ہماری نفسی ساخت کا حصہ تو نہیں بن گئی؟ آپریشن ٹیبل سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپشن ٹیبل کو تسلیم اور قبول کیا جائے مگر اِس آسانی کی طرف مشکل سے آتے ہیں۔ معاملات کو ٹال مٹول کی قبر میں لِٹاتے رہیے یعنی مذاکرات کی میز کے گرد کرسیوں پر نہ بیٹھیے تو آپریشن ٹیبل پر لیٹنا پڑتا ہے۔ کراچی ایک بار پھر آپریشن کے مرحلے میں ہے۔ ہم تویہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ع دیکھیے اِس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ کیا اُچھلنا ہے۔ اُتھلے پانی سے کچھ نہیں اُچھلا کرتا۔ ہم گھوم پھر کر وہیں آ جاتے ہیں جہاں سے سفر کا آغاز کیا ہوتا ہے۔ آنکھوں دیکھی مَکّھی نِگلنے کا عمل ترک نہیں کیا جارہا۔ امن بے چارا کسی کونے میں کھڑا پکار رہا ہے ع ہم سے تو تم کو ضِد سی پڑی ہے یہ ضِد اب ختم ہونی چاہیے۔ بات بات پر بات آپریشن تک نہیں پہنچنی چاہیے۔ اِس سے کہیں کم درجے کے آپشن بھی موجود ہیں اور آزمائے جانے کے منتظر ہیں۔ نشتر زنی ترک نہیں کی جائے گی تو نوبت نشتر سے علاج تک پہنچتی رہے گی۔ ہمارے لیے operational ہونے سے کہیں زیادہ ضروری، بلکہ ناگزیر rational ہونا ہے۔ کسی زمانے میں توپ سے گولے داغ کر فصیلیں توڑی جاتی تھیں، قلعے مُسخّر و مسمار کیے جاتے تھے۔ آج بھی توپ بڑی تباہی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اُس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جو توپ سے چڑیا کا شکار کرے؟ کراچی میں آپریشن کے نام پر یہی تو ہوتا آیا ہے۔ چڑیا کو مارنا ہو تو گولا داغا جاتا ہے اور درندوں کا شکار کرنا ہو تو غلیل ’’آپریٹ‘‘ کی جاتی ہے! آپریشن تمام خرابیوں کے مکمل خاتمے کے لیے ہونا چاہیے اور ویسی ہی تیاری بھی ناگزیر ہے۔ جیسا شکار ویسا ہتھیار۔