"MIK" (space) message & send to 7575

خواب سے پیش گوئی تک

سیاست کے اہلِ کرم کی مہربانی ہے کہ لِکھنے کے معاملے میں ہمارے لیے خاصی آسانی کا اہتمام کر رکھا ہے۔ وہ بولتے ہیں اور ہم لکھتے ہیں۔ آپ پڑھتے پڑھتے ہنستے ہیں اور ہم مُفت میں کریڈٹ پاتے ہیں! خیر، ہنسنے اور ہنسانے پر مائل کرنا اب کچھ اہلِ سیاست پر موقوف نہیں۔ حال اور ماحول یہ ہے کہ جو بھی زبان کھولتا ہے، خامہ فرسائی کی دعوت دیتا ہے! کبھی کبھی تو بیانات پڑھ کر غش آجاتا ہے اور فیصلہ نہیں ہو پاتا کہ کس کی نُکتہ آفرینی پر طبع آزمائی کریں اور کسے بخش دیں! رحمٰن ملک، فضل الرحمٰن، عمران خان، شیخ رشید احمد، حافظ حسین احمد، عابد شیر علی، رانا ثناء اللہ خان، راجہ ریاض اور دوسرے بہت سے سیاسی کرم فرماؤں نے ہمیں بیشتر مواقع پر مایوس نہیں کیا۔ جب بھی ہمیں ذہن کے سَوتے خُشک ہوتے محسوس ہوئے، کسی نہ کسی نے آگے بڑھ کر یعنی کوئی مَن موہ لینے والا بیان داغ کر، تھوڑی سی شگفتہ بیانی فرماکر ہماری مشکل آسان کی ہے۔ مگر اِس معاملے میں منظور وسان صاحب کا جواب نہیں۔ وہ جب بھی پریس کانفرنس یا کسی موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہیں، ہم الرٹ ہو جاتے ہیں کہ اب لِکھنے کے لیے مواد نازل ہوا سمجھیے! اُن کی باتیں ذہن کو متحرک کردیتی ہیں اور ہم یہ سوچ کر دِل بہلاتے ہیں کہ ع آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں منظور وسان کسی زمانے میں میڈیا سے باتیں کرتے وقت ایسی رَو میں بہنے لگتے تھے کہ اُن کے محکمے کا اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا تھا۔ وزیر داخلہ کی حیثیت سے اُن کا دائرۂ کار سندھ تک محدود تھا مگر دائرۂ خیال کی وسعت کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ہوتا بھی کیسے؟ وہ آن کی آن میں ذہنی جست لگاتے ہوئے خوابوں کی دُنیا میں داخل ہوجایا کرتے تھے۔ اور خوابوں کی دُنیا میں داخل ہونے کے بعد کسی کا اپنے آپ پر اختیار کب رہتا ہے؟ خوابوں کی دُنیا میں فاصلے کی کوئی قید تو ہے نہیں اِس لیے منظور وسان وہاں سے دُور کی کوڑیاں لایا کرتے تھے۔ ایک زمانے تک ہم اُنہیں ’’وزیرِ خواب و خیال‘‘ سمجھتے رہے۔ اُن کے عجائب خانۂ خواب کے تذکرے سے ہم نے کئی بار اپنے کالم میں تازگی اور شگفتگی کا سامان کیا۔ منظور وسان صاحب کی باتوں سے مُرَصّع کالم لکھنے کے بعد ہم یہی محسوس کرتے تھے کہ ع ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں! کیا کیجیے کہ دیکھتے ہی دیکھتے زمانہ ایسا بدل گیا ہے کہ منظور وسان کے خواب بھی بیشتر قومی اداروں کی طرح ماضی کا قصہ ہوتے جارہے ہیں! جب سے سندھ کے وزیر جیل خانہ جات کا منصب ملا ہے، اُن کی زندگی سلاخوں، پھاٹکوں اور سرچ لائٹس میں اُلجھ کر رہ گئی ہے۔ قیدیوں کی بہبود کا غم اُنہیں کچھ اِس طرح کھائے جارہا ہے کہ اُنہوں نے کالم نگاروں کا بھلا سوچنا تقریباً چھوڑ ہی دیا ہے۔ شگفتہ بیانی کا عملی مظاہرہ ہو تو کچھ بات بنے، کچھ رنگ جمے۔ جب سے جیلوں پر حملوں کے خدشے سے متعلق خبریں آئی ہیں، منظور وسان صاحب کی راتوں کی نیند اُڑ گئی ہے۔ اور جب نیند ہی اُڑ گئی تو کیسے خواب، کہاں کے خواب! منظور وسان نے کراچی میں شرجیل میمن اور مُراد علی شاہ کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایک رُوح فرسا انکشاف کیا۔ (واضح رہے کہ ہم اپنی رُوح کی بات کر رہے ہیں!) ہم تو یہ سوچ کر پریس کانفرنس کی رُوداد پڑھنے بیٹھے تھے کہ شاید کچھ کام کی باتیں نکل آئیں اور ہمارے دو تین کالموں کا پیٹ بھرنے کا اہتمام ہوجائے۔ مگر ہمیں کیا معلوم تھا کہ منظور وسان صاحب ایک ایسا اعتراف آمیز انکشاف کریں گے کہ ہماری اور ہمارے قلم کی رُوح فنا ہوتے ہوتے رہ جائے گی۔ منظور وسان صاحب نے بتایا کہ پرویز مشرف دور میں پیرول پر رہا ہونے والے 70 ملزمان تاحال لاپتا ہیں۔ خدشہ ہے کہ اُن میں سے بیشتر بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ امن و امان کی صورتِ حال کے باعث سندھ کی چار جیلیں انتہائی حساس ہیں۔ حملے کے خدشے کے پیش نظر سکیورٹی بڑھادی گئی ہے۔ سندھ کی 25 جیلوں میں 16 ہزار سے زائد قیدی ہیں۔ ان میں کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 221 قیدی اور 79 ٹارگٹ کِلرز بھی شامل ہیں۔ 27 قیدی سزائے موت پر عمل کے منتظر ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے، کہاں خوابوں کی دُنیا اور کہاں جیلوں کا جہاں! قائم علی شاہ صاحب نے پورا خیال رکھا ہے کہ کسی کو موزوں قلم دان نہ ملے! ہلکی پھلکی باتیں کرنے والوں کو ثقافت یا پھر اطلاعات کا محکمہ دیا جانا چاہیے۔ اور سونپ دیا گیا جیلوں کے نظم و نسق کا معاملہ! منظور وسان نے پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ جس جیل میں قیدی سے موبائل فون برآمد ہوگا اس کے سپریٹنڈنٹ کے خلاف مقدمہ درج ہوگا۔ یہ پڑھ کر ہمیں ہنسی آگئی۔ اِس طرح تو مقدمات کی تعداد کے لحاظ سے ہمارے جیلرز کے نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کا حصہ بن جائیں گے! موصوف نے یہ نہیں بتایا کہ پرویز مشرف دور کے جو قیدی پیرول پر رہائی کے بعد سے روپوش ہیں، اُنہیں رہا کرنے کی اجازت کس مجبوری کے تحت دی گئی تھی۔ خبر پڑھتے پڑھتے ہم مایوس ہوچلے تھے کہ قدرت کو ہم پر رحم آگیا۔ آخری سطور میں دو شگفتہ نکات نظر سے گزرے۔ اور بس یہ سمجھیے کہ طبیعت بحال ہوگئی۔ منظور وسان کا کہنا تھا کہ بہتر سکیورٹی کے لیے جیلوں کے پانچ ہزار اہلکاروں کو کمانڈو کی ٹریننگ دی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ ان اہلکاروں کو اب تک کس کام کی ٹریننگ دی گئی تھی؟ کیا وہ با اثر قیدیوں کے لیے باہر سے کھانے پینے کی اشیاء لانے پر مامور رہے ہیں؟ سندھ کے وزیر جیل خانہ جات نے جو کام کی بات کہی وہ خبر کے آخر میں تھی۔ فرماتے ہیں کہ اب اُنہوں نے خواب دیکھنا ترک کرکے پیش گوئی کا شغل اپنالیا ہے۔ اور ساتھ ہی پیش گوئی بھی فرمائی کہ آئندہ وزیر اعظم بلاول بھٹو زرداری ہوں گے۔ منظور وسان صوبائی وزیر جیل خانہ جات کی حیثیت سے خواہ کتنے ہی دباؤ میں ہوں، پیش گوئی کے معاملے میں خاصی ’’سیف سائڈ‘‘ کھیلنے کے مُوڈ میں دکھائی دیتے ہیں۔ پہلی پیش گوئی بھی کی ہے تو اچھی طرح چھان پھٹک کے بعد۔ منظور وسان صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک میں ’’باری‘‘ کا نظام چل رہا ہے۔ میاں صاحب کی باری ختم ہوگی تو ظاہر ہے چھوٹے میاں یعنی بلاول بھٹو زرداری کی باری آئے گی۔ سِکّے کے دو ہی رخ ہوتے ہیں۔ ایک رُخ سامنے ہو تو دوسرے کے بارے میں کچھ کہنا پیش گوئی سے بڑھ کر ’’حقیقت گوئی‘‘ کہلائے گا۔ سندھ کے وزیر جیل خانہ جات نے خوابوں کا زندان تج کر پیش گوئی کا قفس منتخب کرکے کچھ عجب نہیں کیا۔ ویسے دونوں میں کچھ خاص فرق نہیں۔ خواب بند آنکھوں میں سماتے ہیں اور دل کی تمنا جب بھرپور بیداری کے عالم میں زبان پر آتی ہے تو پیش گوئی کہلاتی ہے۔ منظور وسان صاحب نے بلاول بھٹو زرداری کے وزیر اعظم بننے کی پیش گوئی کے ذریعے پارٹی اور بھٹو خاندان سے وفاداری کا حق بھی ادا کردیا! یعنی ایک تیر میں کئی نشانے! منظور وسان صاحب کو خوابوں کی دُنیا سے باہر تو آنا ہی تھا۔ پیپلز پارٹی کے اقتدار کا سُندر سپنا بھی تو ٹوٹ ہی گیا ہے۔ بقولِ غالبؔ تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ جب آنکھ کھل گئی، نہ زیاں تھا نہ سُود تھا! مگر یہ صرف کہنے کی بات ہے۔ قوم کی پانچ سالہ نیند ٹوٹی ہے تو ہر طرف زیاں کا دیدار ہو رہا ہے۔ سارا سُود وہ لے اُڑے جن کے محاسبے کی تمام کوششیں بے سُود رہی ہیں! پانچ سالہ پی پی پی دور نے بہت کچھ خواب و خیال کے طاق پر سجادیا ہے! ایسے میں اگر منظور وسان صاحب نے بھی اپنا مشغلۂ خواب گوئی طاقِ نسیاں پر سجادیا ہے تو کسی کو زیادہ حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ مگر خیر، ہم اب بھی دُعاگو ہیں کہ منظور وسان خواب دیکھیں اور سُنائیں تاکہ ہم کچھ ہلکا پھلکا لکھنے کی تحریک پائیں۔ اور اِس بہانے آپ بھی کچھ ایسا پڑھیں جو دِل سے اُداسی کا غُبار مِٹادے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں