"MIK" (space) message & send to 7575

دو مُردوں کی گفتگو

جس کسی کے ذہن میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ باتوں سے کیا ہوتا ہے وہ اپنی رائے سے رجوع کرے۔ ذرا ماحول پر نظر ڈالے اور دیکھے کہ پوری کی پوری قوم باتوں کا کھا رہی ہے، باتوں ہی کے دم سے جی رہی ہے! جس طرف بھی نظر ڈالیے، صرف باتیں ہو رہی ہیں۔ لوگ ایک بات ختم کرکے دوسری بات شروع کرتے ہیں۔ دوسری ختم ہونے پر تیسری بات کی باری آتی ہے۔ ڈرائنگ روم، چبوترے اور ہوٹل آباد ہیں۔ لوگ رات رات بھر بَتیاتے ہیں مگر مُنہ تھکتا ہے نہ دِل بھرتا ہے۔ باتوں کا شوق اب اِس حد تک پہنچ چکا ہے کہ قبرستان میں مُردے بھی باتوں کے بغیر ’’جی‘‘ نہیں سکتے! آپ سوچیں گے مُردوں کو ’’جینے‘‘ سے کیا مطلب اور باتوں سے کیا غرض؟ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو معلوم ہی نہیں مُردے اب باتوں کے کتنے شوقین، بلکہ ’’دَھتّی‘‘ ہوچکے ہیں۔ باتوں پر گزارے کی حد تک اِس قوم کے زندہ اور مُردہ سب ایک ہیں! کل رات ہم نے خواب میں دیکھا کہ قبرستان میں دو مُردے اپنی اپنی قبر پر بیٹھے حالاتِ حاضرہ پر گفتگو فرما رہے ہیں۔ اُن کی گفتگو جس قدر یاد رہ گئی وہ ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں:۔ پہلا مُردہ : حالات دِن بہ دِن بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ دوسرا مُردہ : یہ کم بخت حالات جان چھوڑنے کا نام نہیں لیتے۔ جیتے جی بھی حالات کا رونا تھا۔ اور اب مرنے کے بعد بھی حالات ہی نے ’’جینا‘‘ حرام کر رکھا ہے۔ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ مرگئے تو جان چھوٹ جائے گی مگر کیا معلوم تھا کہ مرنے کے بعد بھی سُکون کے چند لمحات میسر نہ پائیں گے۔ پہلا مُردہ : میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔ جیتے جی میرا یہ خیال تھا کہ مر جاؤں گا تو حالات کے تذکرے سے نجات ملے گی۔ لوگوں کا ’’سیاسی شعور‘‘ پروان چڑھ کر میرے سَر پر چڑھ چکا تھا۔ مرتے وقت خوش تھا کہ چلو ’’سیاسی شعور‘‘ سے گلو خلاصی تو ہوئی۔ مگر یہ کیا؟ یہاں قبرستان میں بھی لوگ حالاتِ حاضرہ پر بحث کے ایسے شوقین ہوگئے ہیں کہ اب کچھ دیر بھی ’’غیر سیاسی‘‘ زندگی بسر نہیں کرسکتے! دن رات سیاسی گفتگو کے شوق نے قبرستان کا سُکون بھی غارت کردیا ہے۔ دوسرا مُردہ : تم ٹھیک کہتے ہو۔ میرے پڑوس والی قبر کا مُردہ بھی اکثر غائب رہتا ہے۔ میں نے ایک دن پوچھا بھائی! شام ہوتے ہی کہاں چلے جاتے ہو؟ کیا لوگوں کو ڈرانے کا شوق چَر آیا ہے؟ کہنے لگا۔ ’’میں کیا اور میرا ڈرانا کیا؟ اب تو زندہ لوگوں سے ڈر لگتا ہے! ہم مُردوں کے بھی کچھ نہ کچھ اُصول تو ہیں۔ جہاں سب کچھ random چل رہا ہو‘ وہاں دھڑکا ہی لگا رہتا ہے کہ کب کیا ہوجائے! ساتھ والی بستی کے ہوٹل میں ٹی وی لگا ہوا ہے۔ وہاں بیٹھ جاتا ہوں اور نیوز چینلز دیکھتا رہتا ہوں۔ حیران ہوتا ہوں کہ ہمارا ملک ہر روز کتنا تبدیل ہو رہا ہے۔ کبھی کبھی تو یقین ہی نہیں آتا کہ یہ وہی ملک جس میں کبھی میں نے چالیس سال گزارے تھے۔ مجھے قبرستان میں آباد ہوئے ابھی صرف سات سال ہوئے ہیں مگر مُلک اِتنا بدل گیا ہے کہ پہچانا نہیں جاتا۔ لوگ بھی بہت بدل گئے ہیں۔‘‘ پہلا مُردہ : کئی دِنوں سے طبیعت بہت بوجھل سی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں؟ کبھی کبھی تو دَم گھٹنے لگتا ہے؟ دوسرا مُردہ : تو کچھ دیر کیلئے قبر سے نکل آیا کرو۔ پہلا مُردہ : وہ تو ٹھیک ہے مگر دَم گھٹنے کا سبب قبر کی گھٹن نہیں۔ میری قبر تو خاصی کشادہ ہے۔ میں نے پنکھا بھی لگوا رکھا ہے۔ دوسرا مُردہ : وہ کیسے؟ میری قبر میں تو کوئی پنکھا ونکھا نہیں۔ پہلا مُردہ : میرے بیٹے پریشان رہا کرتے تھے کہ میرے لیے بعد از مرگ کچھ کیا جائے۔ میں نے سوچا کہیں وہ رقم ایصالِ ثواب کے نام پر کسی فضول سرگرمی کی بھٹی میں نہ جھونک بیٹھیں‘ اِس لیے تینوں بیٹوں کے خواب میں جاکر پنکھا لگوانے کی فرمائش کردی۔ دوسرا مُردہ : یہ تو اچھا آئیڈیا ہے۔ میں بھی اپنے بیٹوں کے خواب میں جاکر کوئی سہولت مانگ لوں گا۔ پہلا مُردہ : ضرور، مگر دیکھ بھال کر۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بیٹوں کی ’’کڑکی‘‘ چل رہی ہو اور تمہاری فرمائش سے وہ چِڑ کر پُھول چڑھانا بھی چھوڑ دیں! دوسرا مُردہ : ٹھیک ہے۔ ہاں، یہ تو بتاؤ کہ گھٹن کِس بات سے محسوس ہوتی ہے؟ پہلا مُردہ : کبھی کبھی میں بھی قبرستان سے باہر نکل کر ہوٹل پر اخبار پڑھتا، ٹی وی دیکھتا ہوں۔ جاتا تو دِل بہلانے کے لیے ہوں مگر دُکھے ہوئے دِل کے ساتھ واپس آتا ہوں۔ قبرستان واپس پہنچنے کے بعد یہ سوچ کر دِل کو تھوڑا سا سُکون ملتا ہے کہ ہم زندہ نہیں! اگر آج ہم ’’زندہ اور پائندہ قوم‘‘ کا حصہ ہوتے تو پتا نہیں کیا کیا جھیلنا پڑتا۔ دوسرا مُردہ : تم اخبار پڑھنا اور ٹی وی دیکھنا چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ پہلا مُردہ : کیا کروں؟ جب زندہ تھا تب کی کچھ عادتیں اب تک چمٹی ہوئی ہیں۔ دوسرا مُردہ : ہاں یار، یہ تو ہے۔ بُری عادتیں مرنے پر بھی پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ مُجھے دیکھو۔ اِدھر میرا دَم نکلا، اُدھر صرف چھ ماہ بعد میری بیوی بھی زندگی کی بازی ہار کر میرے برابر والی قبر میں آ سوئی! بے چارے زندہ پاکستانیوں پر ترس آتا ہے کہ کیسے کیسے عذاب جھیل رہے ہیں۔ کہنے کو زندہ ہیں مگر حال مُردوں سے بدتر ہے۔ اور اِدھر ہم یہ سوچ کر خوش ہیں کہ ایسے بے ہنگم ماحول میں زندہ نہیں۔ پہلا مُردہ : میں تو حیران ہوں کہ اِس قوم کو کیا ہوگیا ہے۔ ہوس کی کوئی حد رہی نہ بے شرمی کی۔ دُنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ایک ہماری قوم ہے کہ اب تک ’’پستیوں کی بلندیاں‘‘ چُھونے میں مصروف ہے۔ ایک دوسرے کے گلے پر چُھری پھیرنے کے عمل سے بھی دِلوں کو سُکون نہیں ملا تو اب بچوں سے زیادتی کے بعد اُنہیں قتل کرنے پر کمر کَس لی گئی ہے۔ الحفیظ و الامان۔ کہیں دو تین بہنیں حالات سے تنگ آکر نہر میں کود جاتی ہیں۔ کہیں کوئی شخص بے روزگاری سے تنگ آکر اپنے بچوں کے گلوں پر چُھری پھیر دیتا ہے۔ راہ چلتی عورتوں اور بچیوں کے کانوں سے بالیاں تک نوچ لی جاتی ہیں۔ اللہ نے جن مَردوں کو عورتوں کا کفیل اور رکھوالا بناکر بھیجا ہے وہ اُنہیں لُوٹنے اور اُن کی عصمت سے کِھلواڑ کرنے میں مگن ہیں۔ دوسرا مُردہ : سچ کہتے ہو بھائی۔ پستی کی بھی کوئی نہ کوئی حد تو ہوگی مگر ایسا لگتا ہے ہماری قوم نے طے کرلیا ہے کہ ہر پستی کو حد سے بے نیاز کرکے دَم لے گی۔ یہ بھی خیر درندگی ہی ہے کہ تین چار سال کے معصوموں سے بھی زیادتی کی جائے یا تاوان کے لیے اغوا کرنے کے بعد اُنہیں قتل کرکے پھینک دیا جائے۔ مگر اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر اب خبیثوں کو ضِد سی ہوگئی ہے۔ بچوں سے زیادتی کے کسی واقعے کو جب میڈیا میں اُچھالا جاتا ہے تو شیطان کے چیلے مزید دیدہ دِلیری کا مظاہرہ کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ نئے واقعات منظرِ عام پر آجاتے ہیں۔ درندگی اور سَفّاکی کی نئی حدود پار کرنے کی دوڑ سی شروع ہوجاتی ہے۔ پہلا مُردہ : ایسی خباثت کا تو ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ کیا اچھے دن تھے جب ہم زندہ تھے۔ بُرائیاں تھیں مگر ایک حد تک۔ لوگوں میں لالچ کی سطح بھی خطرناک اور شرم ناک حد تک بلند نہ ہوئی تھی۔ جُرم پسند ذہنیت تھی مگر خاصی شرم کے ساتھ۔ کوئی بُرا کام کرتا تھا تو چُھپ چُھپاکر، بچ بچاکر۔ اب تو چُھپ چُھپاکر کسی جُرم کا ارتکاب بجائے خود جُرم سا لگتا ہے! جس کا انتقال چالیس پچاس سال پہلے ہوا ہو اُسے دوبارہ زندہ کرکے موجودہ پاکستانی معاشرہ دکھایا جائے تو ذرا سی دیر میں چکراکر گر پڑے اور ایسے جینے پر مُردہ رہنے ہی کو ترجیح دے! دوسرا مُردہ : جینے اور مرنے کا فرق ختم ہوگیا ہے۔ لوگ ایسے جی رہے ہیں کہ مُردے بھی دیکھیں تو شرمسار ہوں۔ جو زندہ ہیں اُنہیں کچھ تو ایسا کرنا چاہیے کہ کوئی مُردہ نہ سمجھے۔ اگر مرُدوں کا سا انداز اختیار کرنا ہے تو پھر زندہ رہنے کا تکلف کیوں؟ پہلا مُردہ : بس اتنا ہو کہ زندہ اِنسان کچھ ایسا نہ کریں کہ ہم مُردے اُن کے حالات جان کر پریشان پھریں۔ زندوں کو تو مرنے کا آسرا ہے۔ ہم اگر مرگئے پھر بھی چین نہ پاسکے تو کہاں جائیں گے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں