"MIK" (space) message & send to 7575

جانے وہ دِن کب آئے؟

کوئی ایک کہانی ہو تو سُنائی جائے۔ کوئی ایک فسانہ ہو تو کسی نہ کسی طور بیان بھی ہو پائے۔ کوئی ایک دُکھڑا ہو تو کسی کے گوش گزار کرکے دل کا بوجھ ہلکا کیا جائے۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ ایک مصیبت آتی ہے اور ایک جاتی ہے۔ اور یہ بھی صرف کہنے کی حد تک ہے۔ کوئی مصیبت آجائے تو پھر جاتی کہاں ہے؟ ہمارے اندر ہی کہیں نہ کہیں بیٹھ جاتی ہے اور وقتاً فوقتاً درشن دیتی رہتی ہے۔ عوام کی حالت اب عجیب بھی ہے، غریب بھی۔ یعنی اُنہیں دیکھ کر غربت کا شدید احساس بھی ہوتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ تعجب بھی ہوتا ہے کہ اب تک زندہ ہیں! یہ سب کچھ اِس لیے ہے کہ اِس قوم میں بعض ایسے ہیں جو بہت ’’عجیب و امیر‘‘ ہیں! ہمیں تو سڑک کے کنارے لگی ہوئی گنّے کا رس نکالنے کی مشینوں کے پہلو میں پڑے ہوئے پھوس پر رشک آتا ہے۔ جب گنے سے رس نکالا جاچُکتا ہے تو پُھوس کو ایک طرف ڈال دیا جاتا ہے۔ عوام کو یہ سہولت میسر نہیں۔ حکومتیں اُن سے رس نکالتی رہتی ہیں اور ایک طرف ڈالنے کا سوچتی بھی نہیں‘ یعنی اُنہیں پھوس کی منزل میں بھی نہیں رہنے دیتیں۔ یہ تو عوام ہی کا حوصلہ ہے کہ کسی نہ کسی طور دوبارہ جی اُٹھتے ہیں۔ فی زمانہ یہ بھی معجزے سے کم نہیں۔ دنیا بھر کے سائنس دان دیکھیں اور غور کریں تو حیران رہ جائیں بلکہ غش کھا جائیں۔ بھلا ایسا بھی کہیں ہوتا ہے کہ گائے سے صرف دودھ دوہ لیا جائے اور چارا نہ ڈالا جائے؟ یہ کس طور ممکن ہے کہ کھیت سے صرف فصل لی جائے اور صفائی کرکے، کھاد وغیرہ ڈال کر زمین کی زرخیزی بحال کرنے کا اہتمام نہ کیا جائے؟ کوئی بھی مشین کیا صرف پروڈکشن دینے کے لیے ہوتی ہے؟ کیا اُس کی مینٹیننس لازم نہیں ہوا کرتی؟ دنیا بھر کے ماہرین دیکھیں تو (اپنے) دانتوں تلے انگلیاں دبالیں بلکہ چبا ڈالیں کہ پاکستان کے عوام وہ مشین ہیں جنہیں بظاہر کسی سطح پر مینٹیننس کی ضرورت نہیں۔ ماہرین پاکستانیوں کی ذہنی ساخت (!) کا معائنہ کریں تو ایسی مشینیں تیار کرنے کے قابل ہوجائیں جو مینٹیننس کی خواہش کئے بغیر محض کام کرتی رہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ سڑکوں پر رکشے دُھواں دیتے ہوئے گزرتے ہیں۔ بہت سے گاڑیاں چلتے چلتے اچانک بند ہوجاتی ہیں۔ دھاتوں سے بنے ہوئے بے زبان انجن بھی مینٹیننس نہ ہونے پر بند پڑ کر احتجاج کرتے ہیں، اشارا دیتے ہیں کہ بس بہت ہوچکا۔ یعنی مینٹیننس کا اہتمام کیا جائے۔ اور ایک ہم ہیں کہ چلے جارہے ہیں۔ تاسّف ہے نہ احتجاج۔ ع خوشی ہے غم کی، نہ غم خوشی کا پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوتی جارہی ہیں، توانائی کے نرخ بلند ہوتے جارہے ہیں اور جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوتا جارہا ہے مگر اِس کے باوجود سب کچھ چل رہا ہے۔ کہیں، کسی بھی سطح پر کچھ بند ہو تو ’’گڈ گورننس‘‘ کے دعویداروں کو اندازہ ہو کہ عوام کچھ چاہتے ہیں۔ پیغام ضرور جائے گا کہ اُن کی بنیادی ضرورتیں پوری نہیں ہوں گی تو زندگی کی گاڑی نہیں چلے گی، ملک جہاں ہے وہیں پڑا رہے گا۔ ایک زمانے سے پاکستان سیلف بیلینسنگ سسٹم کے تحت چل رہا ہے۔ اکاؤنٹنگ میں سیلف بیلینسنگ ایک معروف طریقہ ہے۔ ہر انٹری کے بعد سب کچھ بدل جاتا ہے اور اکاؤنٹ کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یعنی ایک انٹری جتنی تبدیلیاں لاتی ہے وہ تمام کی تمام خود بخود واقع ہوتی جاتی ہیں۔ یہی حال پاکستانی معاشرے کا ہے۔ جب پٹرولیم کے نرخ بڑھتے ہیں تو نقل و حمل کے اخراجات بڑھتے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں ہر چیز کے دام بڑھتے ہیں۔ چائے، پراٹھا، مکھن، پاپے، دودھ، ڈبل روٹی، سالن، چکن تکہ، چرغہ، مکانات اور بس کا کرایا، سینما کا ٹکٹ، اسکول کی فیس، میڈیکل ٹیسٹ کے چارجز، کنسلٹیشن فیس، گڑھا کھودنے والے کی دیہاڑی غرض سبھی کچھ بڑھ جاتا ہے۔ سب اپنے اپنے دام بڑھاتے جاتے ہیں۔ یعنی جب حکومت ہمیں لُوٹنے کا اہتمام کرتی ہے تو ہم ایک دوسرے کو لُوٹ کر اپنا نقصان پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں! اِس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت خواہ کچھ کرلے، ہم اپنے لیے کوئی بھی دباؤ پیدا ہی نہیں ہونے دیتے۔ مہنگائی سے نمٹنے کا اِتنا اچھا طریقہ کم اقوام ہی کو سُوجھا ہوگا۔ ایک زمانے سے لوگ اخباری کالموں اور تجزیوں میں اندازے لگاتے آئے ہیں کہ مہنگائی بڑھتی رہی تو عوام کا کیا بنے گا۔ اور عوام تمام تجزیوں اور اندازوں کو غلط ثابت کرتے آئے ہیں۔ صحافتی دُنیا کے بزرجمہروں کی مُوشگافیوں پر یقین کیجیے تو اِس ملک کے عوام کب کے ختم ہوچکے۔ یہ تو بس عوام کا ملبہ ہے جو تاحال ہٹایا نہیں گیا۔ مہنگائی زلزلے کے جھٹکوں کی طرح ہے۔ یعنی مہنگائی کے جھٹکے آتے رہتے ہیں اور ہم اپنی جگہ قائم و دائم رہتے ہیں۔ اہلِ وطن کی استقامت کا اندازہ لگانا ہے تو صرف اِس امر کا جائزہ لینا کافی ہے کہ وہ مہنگائی کو کسی بھی طور، کسی بھی سطح پر خاطر میں نہیں لاتے۔ جب بھی حکومت کچھ مہنگا کرتی ہے تو لوگ بھی خم ٹھونک کر میدان میں آجاتے ہیں۔ ؎ اِدھر آ سِتم گر! ہنر آزمائیں تو تیر آزما، ہم جگر آزمائیں گویا ستم گری اور ستم رسی کے درمیان مقابلہ ہے۔ کہنے کو سِتم گر کامیاب رہتے ہیں مگر ذرا سوچیے کہ وہ کہاں سے کامیاب ہوں اگر سِتم جھیلنے والے نہ پائے جاتے ہوں۔ برِصغیر کی عظیم فیچر فلم ’’مغلِ اعظم‘‘ میں انار کلی کے مسئلے پر شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر اور اُن کے لاڈلے اِکلوتے بیٹے نورالدین جہانگیر عرف شہزادہ سلیم میں ٹھن جاتی ہے۔ شہنشاہ اکبر پوری مغلیہ شان و شوکت کے ساتھ مجبور و بے کس انار کلی پر واضح کرتے ہیں: ’’سلیم تمہیں مرنے نہیں دے گا، اور ہم تمہیں جینے نہیں دیں گے!‘‘ سنت کبیر داس نے اِسی بات کو یوں کہا ہے کہ دو پاٹن کے بیچ میں باقی بچا نہ کوئے۔ پاکستان کے عوام بھی انار کلی والا نصیب لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے چاہتے ہیں کہ ہم زندہ نہ رہیں۔ اور ہمارے دیسی حکمران مجبور ہیں کہ ہر حال میں ہمیں زندہ رکھیں۔ اگر ہم ہی نہ رہے تو وہ حکومت کِس پر کریں گے۔ دیکھیے آزمائے جانے کا سلسلہ کب ختم ہو، یہ پاپ کب کٹے، کب اِس الم نصیب شب کی سحر ہو، حکمرانی کے نام پر عوام سے صرف کِھلواڑ کرنے والوں کا ضمیر بیدار ہو اور وہ سِتم پر سِتم ڈھانے سے باز آئیں، اپنے گریبان میں جھانک کر کچھ سوچیں اور عوام کے لیے چند ایک آسانیاں یقینی بنانے پر متوجہ ہوں۔ جب ایسا ہوگا تو عوام بھی روش بدلیں گے اور مہنگائی کے ہر تازیانے پر اپنے دِل سے یہ کہنا چھوڑیں گے ؎ اُٹھائے جا اُن کے سِتم، اور جئے جا یونہی مُسکرائے جا، آنسو پئے جا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں