"MIK" (space) message & send to 7575

کرکٹ کا خیمہ، میڈیا کا اونٹ

کھیل ہی کھیل میں جب بہت کچھ برباد ہوچکا ہے تو پھر کھیل کود کا معاملہ کیوں کر بچا رہتا؟ جس قوم کی نفسیات تمام معاملات میں اُلجھ چکی ہے وہ کھیل کے معاملے میں بھی عجیب و غریب رویّوں کے اظہار کی عادی ہوچکی ہے۔ کھیل کا میدان سجا ہو تو مقابلہ جنگ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ اور نوبت جب واقعی جنگ تک پہنچ جائے تو کھیل تماشے کی سُوجھتی ہے! حال جب یہ ہو تو خرابی کے دریا کی طغیانی برقرار کیوں نہ رہے؟ بدلتے زمانے کے ساتھ کھیلوں کے معاملے میں بھی ہمیں نئے اطوار اپنانے پڑے ہیں۔ دُنیا بھر میں آج بھی کھیلوں کے مقابلے میدانوں میں ہوتے ہیں۔ ہم اِس معاملے میں بھی انوکھے واقع ہوئے ہیں۔ اب ہمارے ہاں کھیل کے لیے مٹی دُھول کے میدان لازم نہیں۔ اور اگر لازم ہوتے تب بھی ہم لاتے کہاں سے ؟ وہ سب تو لینڈ مافیا پر نثار ہوچکے! جس طرح کرکٹ اپنی مرضی کی ہے بالکل اُسی طرح اب ہمارے ہاں میدان بھی ہماری ہی مرضی کے ہیں۔ دہشت گردی کی چھاپ نے جب دُنیا بھر کی کرکٹ ٹیموں کو پاکستان آنے سے روک دیا تو یاروں نے نئی راہ نکالی۔ آئینے میں جھانکا تو اپنے آپ پر مر مِٹے۔ یعنی اسٹوڈیوز ہی میں کرکٹ کا میدان سجالیا۔ تماشائی بھی خوش ہیں کہ اسٹیڈیم تک جانے کی زحمت سے پنڈ چھوٹا۔ کرکٹ میچ ٹی وی چینلز کے اسٹوڈیوز میں ہو رہے ہیں اور ناظرین گھر بیٹھے اِس کرکٹ نما کھیل کا لطف پا رہے ہیں۔ میڈیا کا معاملہ تو یہ ہے کہ ع 
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں 
ٹی وی چینلز کے پرائم ٹائم کی سُولی پر قوم کا ہر اہم معاملہ لٹکا رہتا ہے۔ پھر بھلا کرکٹ جیسے پرائم ٹائم معاملے کی عزت کیوں کر محفوظ رہتی؟ کرکٹ کے شوق کو جنگی جنون میں تبدیل کرنا تھا سو وہ کیا جاچکا۔ کرکٹ سے شغف رکھنے والا ہر نوجوان ٹی وی اسکرین کے سامنے کچھ دیر بیٹھ کر خود کو محاذِ جنگ پر ڈٹا ہوا مجاہد سمجھنے لگتا ہے۔ کسی بھی اہم میچ سے دو تین دن قبل ماہرین اور مبصرین مائیکرو فون کے بیٹ تھام کر اور اعداد و شمار کی کیپ سر پر سجاکر کیمرے کی پچ پر آجاتے ہیں۔ اور اگر مقابلہ پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ہو تو الیکٹرانک میڈیا والے (ماہرین اور مبصرین کی مدد سے) ''مہا سنگرام‘‘ کا ماحول پیدا کرکے دم لیتے ہیں۔ اپنی اپنی ٹیموں کو کچھ کا کچھ ثابت کرنے کے لیے کرکٹ کی دُنیا کے بُزرجمہر بہت دُور نکل جاتے ہیں تاکہ جو کچھ بھی وہ لائیں وہ واقعی دُور کی کوڑی کہلائے! مقابلہ شروع ہونے سے بہت پہلے مُنہ کی حد تک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور پچھاڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لَفّاظی کی جنگ زور اور طول پکڑتی جاتی ہے۔ باتوں ہی باتوں میں ایسے چوکے اور چھکے لگ رہے ہوتے ہیں کہ کرکٹرز بھی دیکھ کر سوچتے تو ہوں گے کہ اب ہم ایسے چوکے اور چھکے کس طرح لگائیں، ایسا ٹیلنٹ اور مہارت کہاں سے لائیں! میچ سے قبل میڈیا والے وارم اپ میچ کے طور پر عجیب و غریب 
پیش گوئیوں پر مبنی تجزیوں اور تبصروں کی ''شب دیگ‘‘ تیار کرتے ہیں۔ اِس دیگ میں وہی کچھ پایا جاتا ہے جو قدیم زمانوں کی جادوئی داستانوں میں پایا جاتا تھا! شب دیگ کے کھچڑے کی لذت پر قربان جائیے۔ بہت سے لوگ میچ سے زیادہ اِس ''کھچڑا قبل از میچ‘‘ کا یوں لطف لیتے ہیں کہ کرکٹ کے مزے اِس پر وار دیتے ہیں! 
لت یعنی شدید عادت خواہ کسی چیز کی ہو، بُری ہوتی ہے۔ رات کی ڈیوٹی انجام دینے کے باعث بیشتر صحافی سگریٹ اور دوسری بہت سی چیزوں کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنے ایک ساتھی کا قصہ سُناتے ہیں، لت کی شدت کا اندازہ آپ خود لگائیے۔ موصوف ایک دن مین نیوز ڈیسک پر بیٹھے ہوئے خبریں بنا رہے تھے کہ دفتر کے نمبر پر اُن کے لیے کال آئی۔ اُنہوں نے کال اٹینڈ کی اور ایڈیٹر صاحب کو بتایا کہ والد کی طبیعت خراب ہے، فوراً بلوایا ہے۔ ایڈیٹر صاحب نے کہا فوراً جاؤ۔ موصوف نے اپنے حصے کی خبریں ساتھیوں میں تقسیم کیں اور اپنے سسٹم (کمپیوٹر) کو شٹ ڈاؤن کرکے کمرے سے نکل گئے۔ تین چار منٹ بعد وہ دوبارہ کمرے میں داخل ہوئے اور خاموشی سے اپنی کرسی پر بیٹھ گئے۔ ایڈیٹر صاحب نے، جو کام میں مگن تھے، چند لمحات کے بعد اُنہیں دیکھا تو حیرت سے پوچھا گھر کیوں نہیں گئے، آپ کے تو والد کی طبیعت خراب تھی۔ موصوف بولے۔ ''بس جی، میں جا ہی رہا تھا تو دیکھا کینٹین والا لڑکا ٹرے لیکر آ رہا ہے۔ میں نے سوچا اب چائے پی کر ہی جاؤں۔‘‘ دیکھا آپ نے؟ ایسی ہوتی ہے چائے کی لت! اِس قوم کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ حالات خواہ کچھ ہوں، یہ اپنی کوئی لت چھوڑتی ہے نہ مشغلہ۔ کرکٹ ہی کو لیجیے۔ کرکٹ کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ ع 
چُھٹتی نہیں ہے مُنہ سے یہ کافر لگی ہوئی!
حالات خواہ کوئی رخ اختیار کر رہے ہوں، قوم کرکٹ کی راہ پر گامزن رہتی ہے۔ اِسی دریا کی موجوں میں بہتے رہنا اِسے پسند ہے۔ ماحول بنانے میں مثالی مہارت رکھنے والے ہمارے میڈیا نے کھلواڑ کرتے کرتے اب کرکٹ کو بھی بارہ مسالوں کی چاٹ میں تبدیل کردیا ہے۔ کل تک جو صرف کھیل تھا وہ آج بہت سے عجوبوں کی آماجگاہ ہے، نقطۂ اتصال ہے۔ لوگ کرکٹ کے نام پر گلیمر، لَفّاظی، ڈرامائیت، کامیڈی، چاپلوسی، تنقید اور پتہ نہیں کس کس چیز کے مزے پارہے ہیں۔ یاروں نے ایسا میلہ لگایا ہے کہ اسٹوڈیوز اب میدان کی ساری رنگینیاں اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب لوگ ڈراموں کا بے چینی سے انتظار کیا کرتے تھے۔ اب سیاست اور کرکٹ دونوں کے نام پر اِتنے ڈرامے پیش کئے جارہے ہیں کہ لوگ اصلی تے نسلی ڈراموں کو بھول بیٹھے ہیں! نام کرکٹ کا ہے مگر جہاں کرکٹ تھی وہاں اب دُنیا بھر کے کھیل تماشے براجمان ہیں۔ نہیں ہے تو بس ایک کرکٹ ہی نہیں ہے۔ ؎ 
نشاں بھی کوئی نہ چھوڑا کہ دِل کو سمجھائیں 
تِری تلاش میں جائیں تو ہم کہاں جائیں! 
کرکٹ کے مقابلوں کی کوریج کے نام پر جلووں کا ایسا اژدہام ہے کہ لوگ کرکٹ کا سُراغ لگانے میں ناکام رہتے ہیں۔ خیمہ کرکٹ کا تھا مگر اِس میں ''میڈیائی‘‘ تبصروں اور تجزیوں کا اونٹ یوں گھس بیٹھا ہے کہ بے چاری کرکٹ کبھی کڑاکے کی سردی میں ٹھٹھر رہی ہوتی ہے اور کبھی تپتی دوپہر میں ایڑی سے چوٹی تک اُس کا پسینہ بہتا دکھائی دیتا ہے! اے کاش کہیں سے، جادوئی داستانوں کی کتابوں سے کوئی جادوگر نکل کر آئے اور کرکٹ کے خیمے سے اوٹ پٹانگ اور سنسنسی خیز تبصروں اور تجزیوں کے اونٹ کو نکال باہر کرے۔ کھیل ہی کھیل میں کھیلوں کو ٹھکانے لگانے کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔ لوگ ہر کھیل کو اُس کی اصل حالت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ کرکٹ بھی اِس خواہش سے مُستثنٰی نہیں۔ کھیلوں کے نام پر ڈرامائیت، سنسنی خیزی اور کامیڈی دیکھنا شائقین کی خواہش نہیں۔ یہ سارے تماشے تو اب پورے ماحول میں جگہ جگہ بکھرے پڑے ہیں۔ ٹی وی سیٹ آن کئے بغیر بھی لوگ اپنے ماحول کے ذریعے محظوظ ہوسکتے ہیں! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں