"MIK" (space) message & send to 7575

… کھائیں گے کیا!

وقت کا کام گزرنا ہے، گزرتا رہتا ہے۔ اِس بات کی پروا کئے بغیر کہ اس کے گزرنے سے دوسروں پر کیا گزرتی ہے! زمانے کو بدل جانے کے سوا آتا کیا ہے؟ اگلے وقتوں کی قدریں اب کہاں؟ ہر شعبہ اور ہر معاملہ انقلابات کی زد میں ہے۔ فِتنے ہیں کہ سَر اُٹھاتے جاتے ہیں اور اِنسان ہے کہ زیرِبار ہوا جاتا ہے۔ زمانے کی روش دیکھ کر کِس کا ذہن ہے کہ ماؤف ہوکر نہ رہ جائے۔ بُزدِلی اور دِلیری دونوں ہی کا مفہوم بدل چکا ہے۔ کل تک جس کام کو ذرّہ بھر توقیر کے قابل نہ سمجھا جاتا تھا وہ اب سَر پر سوار رہتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ سَر پر سوار کرنے کے شوقین بھی تو دَم بہ دَم موجود ہیں! رات گزرتی ہے، سُورج طلوع ہوتا ہے اور خلقت بیدار ہوتی ہے تو کام کی سُوجھتی ہے۔ یہ زمانے کا دستور اور معمول ہے۔ ہوتا ہوگا۔ ہمیں کیا؟ ہمیں تو اپنے معمولات کی فکر لاحق ہونی چاہیے۔ آج کل اہلِ پاکستان ''علی الصبح ‘‘ (یعنی دِن کے گیارہ بارہ بجے!) بیدار ہوتے ہیں تو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ پکائیں گے کیا اور کھائیں گے کیا؟ کھانے پینے کی ہر چیز اب کھانے والوں کو کھانے پر تُلی ہوئی ہے، اور وہ بھی ڈکار لیے بغیر! کھانے پینے کی یومیہ ضرورت کو ہم نے یوں لَت میں تبدیل کیا ہے کہ جو چیزیں کل تک برائے نام بھی وقعت نہ رکھتی تھیں وہ اب ہم سے ہماری حیثیت پوچھتی پھرتی ہیں! 
طرح طرح کی سماجی خدمات کے بلند بانگ دعوے کرنے اور اُن پر ناز کرنے والوں کو اب تک خیال نہیں آیا کہ لوگوں کو مہنگائی کے جھٹکوں سے محفوظ رکھنا بھی لازمی خدمت ہے۔ ہر شے کے دام یومیہ بنیاد پر بڑھ رہے ہیں۔ گرانی کا ایک سیلاب ہے کہ اُمڈا آتا ہے اور سَر گرانی میں اضافے کا بازار گرم رکھتا ہے۔ یہ کیفیت بلند فشارِ خون میں مبتلا افراد کی تعداد بڑھاتی جاتی ہے۔ یہ بھی عجب تماشا ہے کہ حکومت لوگوں کی رگوں سے خون نچوڑنے پر تُلی رہتی ہے اور دوسری طرف خون ہے کہ لوگوں کی آنکھوں میں اُترتا رہتا ہے! حکومت شاید مہنگائی کے ذریعے لوگوں میں اشتعال ختم کرنا چاہتی ہے۔ لوگوں کی آنکھوں میں خون تو تبھی اُترے گا جب رگوں میں موجود ہوگا! روز افزوں مہنگائی نے ایک طرف آنکھوں سے نیند کا کاجل چُرا لیا ہے اور دوسری طرف خوابوں کو بھی بے طور و بے ہنگم کردیا ہے۔ کسی نہ کسی طور نیند کی آغوش میں پہنچے تو ناپسندیدہ نوعیت کے خواب ہڑبڑاکر اُٹھ بیٹھنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ 
کل ہم نے خواب میں دیکھا کہ شامیانے کی چار دیواری میں قائم میڈیکل کیمپ میں لوگ قطار بند کھڑے ہیں۔ ڈاکٹر چیک اپ کرتا اور پرچی تھماتا جارہا ہے۔ کسی کسی کو وہ روک کر ایک طرف بیٹھنے کی ہدایت بھی کردیتا ہے۔ جنہیں پرچی ملتی ہے وہ خاصے پُرسکون اور تمتماتے چہرے کے ساتھ کیمپ سے نکل کر پڑوس میں مرکزی دروازے پر پہنچتے ہیں۔ وہاں کھڑا شخص پرچی دیکھ کر اُنہیں بچت بازار میں داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے! 
ہم نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے تو اُنہوں نے بتایا کہ کئی ہفتوں سے یہ ہو رہا ہے کہ لوگ بازار میں داخل ہوتے ہیں اور پھر سبزیوں، پھلوں کے دام سُن کر اُنہیں غش آ جاتا ہے۔ کئی لوگ چکرا کر گرے اور زخمی ہوئے۔ اور ہوش میں آنے کے بعد بے چاری سبزیوں کو مغلظات سے نوازا! ہم نے ایک سماجی تنظیم کی مدد سے یہ انتظام کیا ہے تاکہ اختلاجِ قلب یا بلند فشارِ خون کے عارضے میں مبتلا افراد سبزیوں یا پھلوں کے دام سُن کر لڑھک نہ جائیں! اب مضبوط اعصاب اور مستحکم قلبی حالت والے ہی کلیئرنس ملنے پر بازار میں داخل ہوسکتے ہیں! ڈاکٹر کی یہ بات سُن کر ہماری عجیب حالت ہوئی اور میرؔ کے بقول ع 
پھر اِس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی!
یعنی ہماری آنکھ کھل گئی۔ 
ہماری آنکھ تو کھل گئی مگر قوم کی آنکھیں ہیں کہ کھلنے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ مہنگائی کے ہاتھوں زخم کھانے سے دِل نہیں بھرتا، مہنگائی کا شکار ہوئے بغیر جی نہیں لگتا۔ ؎ 
میرؔ کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب 
اُسی عَطّار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں! 
عجیب ہے کہ پاک سرزمین پر جو چیز جتنی مہنگی ہوتی جاتی ہے اُس کی طلب اُتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔ اگر کِسی چیز کی قلت کی افواہ اُڑ جائے تو لوگ گھروں سے اُڑتے ہوئے دکانوں اور ٹھیلوں پر پہنچتے ہیں اور اُس چیز کی طرف لپکتے ہیں۔ گویا وہ رخصت رُوئے زمین سے رُخصت ہو رہی ہو اور کبھی پلٹ کر اِس سَیّارے پر آنے کا کوئی ارادہ نہ ہو! اللہ کا عذاب تو اپنے مقررہ وقت پر نازل ہوگا۔ اِس سے بہت پہلے ہم نے اپنے لیے چند عذاب رضاکارانہ اپنے ا وپر نافذ کرلیے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء کے نرخوں کا آسمان سے باتیں کرنا بھی عذاب ہی کی ایک شکل ہے۔ یہ بھی کیا زندگی ہے کہ صبح آنکھ کھلے تو سب سے پہلے یہ فکر لاحق ہو کہ آج کیا اور کیسے پکے گا؟ جس چیز کے پکانے کا سوچیے اُس کے نرخ کا سوچ کر دِل بیٹھا جاتا ہے۔ چیز تو بعد میں پکے گی، دِماغ پہلے پکنے لگتا ہے! ٹی وی پر کوکنگ شو دیکھ دیکھ کر خواتین جب دِل کے ہاتھوں مجبور ہوکر کوئی اچھی ڈش تیار کرنے کا سوچتی ہیں تو مطلوبہ اشیاء کے دام سُن کر ہاتھوں کے طوطے ایسے اُڑتے ہیں کہ پھر کسی صورت واپس اپنی ڈال پر نہیں آتے۔ کوئی ڈھنگ کا آئٹم تیار کرنے کا بیڑا اُٹھائیے تو چار پانچ سُرخ نوٹ اپنی جان سے جاتے ہیں! زندگی جیسی نعمت ہمیں ضائع کرنے کے لیے تو عطا نہیں کی گئی۔ ہم کون ہیں، روئے زمین پر ہمیں کیوں بھیجا گیا ہے، ہم اِس دنیا کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کے لیے کیا کرسکتے ہیں اور اِسی قبیل کے دوسرے بہت سے سوالات ہیں جن پر غور کرنا ہے، اپنے آپ کو دوسروں کے لیے زیادہ مفید بنانا ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے محدود وقت کا ایک بڑا حصہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی فکر پر صرف، بلکہ ضائع ہو رہا ہے۔ دو وقت کی روٹی کی فکر نے ہمیں چباکر نگل لیا ہے۔ جسے دیکھیے وہ زندگی اور کائنات کے تمام معاملات بھول کر صرف اِس فکر میں غلطاں ہے کہ کل کیا پکا تھا اور آج کیا پکانا ہے! خواتین کو اب فیشن زدہ ہونے کا طعنہ کیا دیجیے، اُن کی زندگی میں تو اب صرف چولھے اور ہانڈی کی فکر رہ گئی ہے۔ 
ٹی وی اسکرین پر کوکنگ شو میں کھانے کی ترکیب بتاتے وقت جب اجزائے ترکیبی گنوائے جاتے ہیں تب اُن کی مقدار بھی بتائی جاتی ہے۔ فلاں چیز اِتنی اور فلاں چیز اُتنی۔ نمک حسبِ ذائقہ۔ کل کو یہ بھی ہوگا کہ کسی ڈش کی ترکیب بتاتے وقت کہا جائے گا نمک اور مرچ تو ضرورت کے مطابق ڈالیں اور پیاز، ٹماٹر اور ادرک لہسن کا پیسٹ اوقات کے مطابق! پیاز اور ٹماٹر کی وقعت دیکھ کر اپنی بے توقیری کا شِدّت سے احساس ہوتا ہے! جو چیز ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی وہ سَر چڑھ کر تو ناچے گی ہی۔ کل تک پیاز صرف رُلاتی تھی، اب خون کے آنسو رُلا رہی ہے! ٹماٹر کا یہ حال ہے کہ ایک آدھ کلو بھی خریدیں تو گھریلو بجٹ کا کیچ اپ نکل جاتا ہے! بہت سے غریب تو ٹھیلے والے سے سبزیوں کے دام سُن کر اپنا سا منہ لیکر رہ جاتے ہیں۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ وہ سبزی کے ٹھیلوں اور ٹِھیوں سے بچ بچ کے گزرنے لگتے ہیں۔ عزت تو غریب کی بھی ہوتی ہے اور اُسے پیاری بھی ہوتی ہے!غالبؔ نے کہا تھا ؎ 
ہے اب اِس معمورے میں قحطِ غمِ اُلفت اسدؔ 
ہم نے یہ مانا کہ دِلّی میں رہیں، کھائیں گے کیا! 
اہلِ وطن کا بھی اب کچھ ایسا ہی حال ہے۔ کرپشن، لوٹ مار، دہشت گردی اور قتل و غارت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو بھی گئے تو جسم و جاں کا رشتہ کیسے برقرار رکھیں گے؟ کھائیں گے کیا؟ پیاز، ٹماٹر، ادرک اور لہسن جیسی اشیاء ہمیں بندۂ بے دام بنانے پر تُلی ہیں۔ زندگی کی جنگ میں یہ پہلا اور قریب ترین محاذ ہے۔ اور اِس محاذ پر ہی زندگی اپنی جنگ ہارتی دکھائی دیتی ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں