"MIK" (space) message & send to 7575

ڈھنگ کا مزاح

ایک رائے یہ سامنے آئی ہے کہ ملک میں ڈھنگ کا مزاح لکھنے والے ناپید ہوتے جارہے ہیں۔
مُلک جن حالات سے گزر رہا ہے وہ فوری توجہ اور ہمدردی کے طالب و مستحق ہیں کیونکہ در حقیقت مشکل میں تو حالات ہیں جن پر سے یہ مُلک گزر رہا ہے۔اب الگ سے کوئی نوحہ گر رکھنے کا چلن اور گنجائش نہیں کہ زمانہ ''سیلف سروس‘‘ کا ہے۔ اپنے کاندھوں پر اپنا جنازہ اور اپنے غم پر اپنا ماتم، یہی اب عصرِ حاضر کی ریت ٹھہری ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ اِس قوم نے عشروں تک جو ''محنت‘‘ کی ہے اُس کی ''کمائی‘‘ پر کچھ لوگ افسردہ ہیں، کبیدہ خاطر ہیں۔ اگر غریبوں کی یہ کمائی بھی لُٹ گئی تو اُن کے پاس بچے گا کیا؟ بقول ساحرؔ لدھیانوی ؎ 
لے دے کے اپنے پاس یہی اِک ''نظر‘‘ تو ہے 
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم؟
حالات کی خرابی پر کُڑھنا اپنی جگہ، لوگوں کا حال دیکھ کر ملول ہونا بھی درست مگر ہم یہ نہیں مان سکتے کہ مُلک میں ڈھنگ کا مزاح لکھنے والے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے دانشورمعاملے کو اُس طرح نہیں دیکھ رہے جس طرح دیکھنا چاہیے۔ قصہ یہ ہے کہ مزاح لکھنے والوں کی تعداد اِتنی بڑھ گئی ہے اور مزاح کی فاضل پیداوار کا یہ عالم ہے کہ اب آنکھوں کے سامنے کا مزاح بھی دکھائی نہیں دے رہا! انگریزی میں اِس کیفیت کو eyes wide shut کہتے ہیں اور اگر احمد فرازؔ کی زبانی کہیے تو ؎ 
یہ میرے ساتھ کیسی روشنی ہے؟ 
کہ مُجھ سے راستہ دیکھا نہ جائے! 
مزاح لکھنے والے اب اتنی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں کہ موضوعات کے لیے دامن اور آبرو بچانا انتہائی دشوار ہوگیا ہے! یہ تو وہ برادری ہے جو شِدّتِ بے نیازی کے عالم میں بے موضوع بھی لکھتی ہے اور خوب لکھتی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ موضوع کے بغیر لکھنے اور پڑھنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ جب موضوع کے بغیر فلمیں بن سکتی ہیں، ٹاک شو ہوسکتے ہیں، سڑک چھاپ ہوٹلوں پر روزانہ گھنٹوں ''خوش کلامی‘‘ کی جاسکتی ہے تو پھر موضوع سے مُعّرٰی و مُبرّا مزاح کیوں نہیں لکھا جاسکتا؟ کبھی کبھی تو یہ بھی ہوتا ہے کہ تحریر کے دوران اگر موضوع ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیچ میں آ دھمکے تو لکھنے والا انتہائی سَفّاکی سے اسے کچلتے ہوئے آگے بڑھ جاتا ہے! معاملہ لکھنے کا ہو یا کسی اور کام کا، آگے بڑھنے والوں کے یہی اطوار ہوا کرتے ہیں۔ 
مزاح کا نیا رنگ روپ کچھ اتنا عجیب ہے کہ اب کسی بھی تحریر کو مزاح کے نمونے کی حیثیت سے شناخت کرانے کے لیے توضیحی الفاظ بھی تحریر کرنا پڑتے ہیں۔ بعض تحریروں کی ذیلی سُرخی کے آخر میں ''سیاسی تجزیہ‘‘ لکھا ہوتا ہے تاکہ پڑھنے والے فاضل مصنف کے ''رشحاتِ قلم‘‘ کو کچھ اور سمجھنے سے باز رہیں! قارئین کے صبر اور تحمل کا حقیقی امتحان تو یہ ہے کہ ایسی کسی بھی تحریر کو پڑھ کر ہنسی آ بھی رہی ہو تو ضبط کرنی پڑتی ہے کہ میاں مصنف بُرا نہ مان بیٹھیں! کبھی کبھی کسی تحریر کی ذیلی سُرخی میں ''فکاہیہ تجزیہ‘‘ لکھا ہوتا ہے جو قاری کو ایک زور دار قہقہے کے دریا میں غوطہ زن کرکے دم لیتا ہے! اگر قاری کی نظر ایسی تحریر میں مزاح تلاش کرنے نکلے تو پھر مشکل سے لوٹ کر آتی ہے! جس تحریر کو فکاہیہ قرار دے کر قارئین کے سامنے پروسا جاتا ہے وہ خاصی ''مزاحیہ‘‘ ثابت ہوکر دم لیتی ہے! 
جس طرح دریا ایک طویل مدت میں رخ تبدیل کرتے ہیں بالکل اُسی طرح ہمارے ہاں مزاح کا دریا بھی رخ بدل کر کامیڈی کی راہ پر گامزن ہے! اور اِس عمل میں راستے کا بہت سا کچرا بھی مزاح کا حصہ بن گیا ہے جس کے باعث دریائے مزاح کا پانی خاصا گدلا ہوگیا ہے۔مزاح تو اب بھی ڈھنگ ہی کا لکھا جارہا ہے مگر ہاں، ڈھنگ تبدیل ہوچکا ہے۔ یہ بالکل ہماری فلم انڈسٹری والا معاملہ ہے۔ فلم میکر سسپنس تھرلر پیش کرتے ہیں تو لوگ کامیڈی سمجھ کر دیکھتے ہیں! اور جب کسی فلم کو کامیڈی کا لیبل لگاکر پیش کیا جاتا ہے تو دیکھنے والوں کے آنسو نکل پڑتے ہیں! فیملی ڈراما کے قبیل کی بعض فلموں کو لوگوں نے ایکشن مووی سمجھ کر بھی انجوائے کیا ہے! کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حالات کی عکاسی کرنے کے لیے بنائی جانے والی فلم کو لوگ ''آنے والے مستقبل‘‘ کی جھلک پیش کرنے والی فلم سمجھ کر سَر دُھنتے کم اور پیٹتے زیادہ ہیں! 
مزاح اب لکھنے سے زیادہ بولنے اور کرنے (یا کر دکھانے) کی چیز ہے۔ جتنے بھی مزاح لکھنے والے تھے وہ اب پڑھنے کے نام پر کرنے کی چیز لکھنے پر کمر بستہ ہیں۔ اور کئی ایک تو ایسے ہیں کہ خود بھی کامیڈی کے کنویں میں ڈول ڈالنے کو بے تاب رہتے ہیں یعنی موقع ملتے ہی اسکرین پر نمودار ہوکر ناظرین کے صبر اور تحمل کی حدود آزمانے لگتے ہیں! جس چیز کا صرف پڑھ کر لُطف لیا جاسکتا ہے اُسے بھی عمل کی کسوٹی پر پرکھ کر پیش کیا جارہا ہے۔ یعنی زور پرفارمنس پر ہے۔ اِس روش نے مزاح کو بھی پرفارمنگ آرٹ میں تبدیل کردیا ہے۔ زمانہ پرفارمنس کا ہے اور جب سبھی پرفارم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں تو مزاح نگار کیوں پیچھے رہیں؟ وہ بھی اِس دیگ میں مقدور بھر حصہ ڈال کر گھوٹا چلا رہے ہیں! لوگ حیران ہیں کہ داد مزاح نگاری کی دیں یا مزاح کاری کی! 
جن سیاسی تجزیوں میں لوگ بصیرت تلاش کرتے ہیں اُن میں در حقیقت اِتنا مزاح پوشیدہ ہوتا ہے کہ دِکھائی دے جائے تو بصارت کا بوریا بستر گول ہوجائے! سیاسی صورتِ حال کے تجزیے کے نام پر لکھاریوں نے اپنے کاندھے مختلف سیاسی و غیر سیاسی توپوں کو مستعار دے رکھے ہیں۔ اور اِس ''خدمت‘‘ کا معاوضہ وہ ''مالکان‘‘ اور اخباری مالکان دونوں سے بخوبی وصول کر رہے ہیں! جب کسی کی خاطر (یعنی کسی کے خلاف) لکھا جائے تو منطق اور دلیل دونوں ہی کو خیرباد کہتے بنتی ہے۔ جب ایسا ہوگا تو یادگار مزاح کیونکر پیدا نہ ہوگا اور پھر اُس مزاح کو کامیڈی بننے میں کون سی دیر لگے گی؟ 
وہ زمانہ کب کا جاچکا جب لوگ اہلِ سیاست کی تضاد بیانی میںمزاح تلاش کیا کرتے تھے۔ اب تو خود لکھنے والوں کی تضاد بیانی مزاح کا خوب سامان کر رہی ہے۔ کسی کے لیے تمام حدود سے گزر جانا کبھی کبھی لافانی مزاح، بلکہ کامیڈی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ پڑھنے والے بھی چکرا کر رہ جاتے ہیں کہ لکھنے والے نے کِس صنف کی حدود سے نکل کر طبع آزمائی کی ہے۔ یا کہیں کوئی نئی صنف معرضِ وجود میں لانے کی کوشش تو نہیں کی! 
عمومی اندازِ تحریر میں مزاح اِس حد تک گھس بیٹھا ہے اور مزاح نگاروں کی ایسی کثرت ہے کہ سنجیدہ لکھنے والے جب قلم سنبھالتے ہیں تو سمجھ نہیں پاتے کہ تحریر میں مزاح کس طور پیدا نہ ہونے دیں۔ جس طرح کوئی اچھا فنکار اچھی پرفارمنس سے دانستہ گریز کی کوشش میں خاصی بھونڈی حرکتیں کرنے لگتا ہے بالکل اُسی طرح سنجیدہ لکھنے والے اپنی تحریر میں کہیں سے بھی مزاح کو داخل ہونے سے روکنے کی کوشش میں اچھا خاصا مزاح پیدا کر بیٹھتے ہیں! مگر خیر، لکھنے والے تو لاگت کو آگے بڑھاکر سُکون کا سانس لیتے ہیں۔ صحیح معنوں میں جو گزرنی ہے وہ تو قارئین پر گزرنی ہے کہ حتمی صارف تو وہ ہیں! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں