نیشنل جیوگرافک والوں کو اب تک خیال نہیں آیا کہ دُنیا بھر کی مُہم جوئی فلمانے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں روزانہ کام پر جانے کی مشقت بھی فلمالیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم علی الصبح جس طور گاڑیوں میں اور گاڑیوں پر سوار ہوکر کام پر جاتے ہیں اُس کے تفصیلی مناظر دُنیا والے دیکھ لیں تو اپنی ہر طرح کی مہم جوئی پر شرمندہ ہوں! پاکستانیوں کو روزانہ صبح بیدار ہونے پر کام کرنے سے زیادہ کام پر جانے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ روزگار کا حصول تو جاں گسل معاملہ ہے ہی، روزانہ روزگار کے مقام تک جانا بھی کچھ کم جاں سوز مرحلہ نہیں!
صبح کے اوقات میں پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں میں سوار ہونے کی مشقت دیکھ کر خیال آتا ہے کہ شیریں کے لیے دودھ کی نہر کھودنے میں فرہاد نے کِتنی محنت کی ہوگی! مگر صاحب، فرہاد کا ہم سے کیا مقابلہ؟ وہ کون سا روز روز دودھ کی نہر کھودتا تھا؟ اگر فرہاد مسافروں کو گاڑی میں ٹھونسے جانے کا منظر دیکھتا تو عشق کا بھوت سَر سے اُتر جاتا اور وہ کدال پھینک کر بھاگ کھڑا ہوتا!
جب بڑی بسوں، ویگنوں اور کوچوں میں مسافروں کو ٹھونسنے کی بھی گنجائش نہ رہی تو مارکیٹ میں چنگ چی رکشے متعارف کرائے گئے۔ ابتداء میں لوگ یہ سمجھے کہ شاید شہر میں کوئی بڑی سرکس کمپنی آئی ہے اور مختلف مقامات پر اِس موٹر سائیکل نما گاڑی کے ذریعے کرتب دکھا رہی ہے! جب یہ بھید کھلا کہ یہ کوئی سرکس کا آئٹم نہیں تب وہ لپکے کہ ''ٹیکنالوجی‘‘ کے اِس شاہکار سے مستفید اور محظوظ ہوں۔ دیو مالائی داستانوں میں ایسے جانداروں کا ذکر ملتا ہے جن کا بالائی دھڑ انسان کا اور زیریں دھڑ حیوان کا ہوا کرتا تھا۔چنگ چی کو دیکھ کر دیو مالائی داستانیں ذہن میں کوندنے لگتی ہیں۔ آگے سے موٹر سائیکل اور پیچھے سے ٹانگہ۔ ایک ٹکٹ میں دو مزے! لوگ رکشا یا ٹانگہ سمجھ کر بیٹھتے ہیں اور ڈرائیور موٹر سائیکل سمجھ کر چلاتے ہیں!
ابتداء میں لوگوں نے اِس یکتائے زمانہ گاڑی کو فاصلہ مٹانے کے لیے کم اور تفریحِ طبع کے لیے زیادہ استعمال کیا۔ گاڑی میں جُھولے کا مزا کہاں ملتا ہے؟ اور جُھولے سے بھی بڑھ کر مہم جوئی کا لطف! چنگ چی رکشا کبھی کشتی کے ہچکولوں سے روشناس کراتا ہے اور کبھی ٹانگے کا مزا دیتا ہے۔ زیادہ مُوڈ میں ہو تو رولر کوسٹر بننے میں بھی دیر نہیں لگاتا اور پھر پلک جھپکتے میں سڑک پلے لینڈ بن جاتی ہے! لگتا ہے Multi-tasking کا تصور چنگ چی کو دیکھنے کے بعد ذہنوں میں اُبھرا ہوگا۔ ایک ڈش میں سو کھانوں کا مزا! چنگ چی رکشے کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ توفیق دے تو انسان کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اور کر گزرتا ہے۔ چنگ چی کی ننھی سی جان اور اُس پر بارہ پندرہ افراد کا بوجھ۔ چار پانچ پچھلی سیٹ پر، تین چار اگلی پر۔ دو ڈرائیور کے پیچھے۔ ڈرائیور ٹینکی پر اور ایک آدھ بچہ ہینڈل پر! ابھی گنتی ختم نہیں ہوئی۔ دو تین چھت پر بھی جلوہ افروز ہوتے ہیں! ع
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا!
کبھی کبھی یہ تماشا بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ پچھلے حصے میں زیادہ لوگ سوار ہوجائیں تو چنگ چی رکشا مشتعل گھوڑے کی طرف پچھلے پہیوں پر کھڑا ہو جاتا ہے! یہی منظر سفر کے دوران پٹرول ختم ہوجانے پر بھی دِکھائی دیتا ہے۔ ٹنکی کے اگلے حصے سے پٹرول پچھے حصے میں لانے کے لیے تمام سواریوں کو سڑک پر کھڑا کرکے ڈرائیور چنگ چی کے پچھلے حصے کو جُھکاتا ہے اور مسافر حیرت کی تصویر بنے ڈرائیور کو تکنے لگتے ہیں! کچھ مدت تک تو چنگ چی کا کامیڈی سرکس چلتا رہا۔ پھر لوگوں کو خیال آیا کہ سفر کے نام پر موج مستی کب تک؟ کچھ سنجیدگی بھی اختیار کی جائے۔ یوں سی این جی رکشوں کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ شروع ہوا۔ سی این جی رکشوں میں زیادہ مسافروں کو قدرے سہولت سے بٹھانے کی گنجائش ہوتی ہے اور یہ زیادہ محفوظ بھی ہے۔ اِن رکشوں کو دیکھ کر ٹیکنالوجی میں پیش رفت کی تیزی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جب آمدنی بڑھتی دکھائی دی تو مارکیٹ میں سی این جی رکشوں کے نئے ورژن آنے لگے۔ اب 9 نشستوں والے سی این جی رکشے عام ہیں جو بس کی طرح چلائے جارہے ہیں۔ شُنید ہے کہ 12 نشستوں والے سی این جی رکشے بھی جلد متعارف کرائے جانے والے ہیں۔ ہمیں ڈر ہے یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے سی این جی ٹرین تک نہ جا پہنچے!
سی این جی رکشے بھی وکھری مخلوق ہیں۔ پُرانے ٹو اسٹروک انجن کے رکشوں کو سڑک کی فضا میں طیاروں کی طرح اُڑایا جاتا تھا۔ مسافر اُس میں دو یا تین ہوا کرتے تھے اِس لیے ایسا کرنا ممکن تھا۔ سی این جی رکشوں کے ڈرائیورز کو داد دینی پڑے گی کہ بارہ پندرہ بندے بٹھاکر بھی ہوا سے باتیں کرنے کی کوشش کرتے ہیں! بھائی شہاب بھی اپنے سی این جی رکشا کو شہابِ ثاقب کی طرح چلاتے ہیں۔ کوئی پوچھ بیٹھے کہ ہوا سے کون سی باتیں کرتے ہو تو اُن کا جواب چند ایسے الفاظ میں لپٹا ہوا ہوتا ہے جنہیں خوفِ فسادِ خلق کے باعث یہاں نقل نہیں کیا جاسکتا!
گاڑیاں رنگ اور ہیئت بدل رہی ہیں مگر مسافروں کا مقدر اب تک نہیں بدلا۔ سفر کرنے والوں کو بڑی بسوں، ویگنوں اور کوچوں میں بھی ٹھونسا جاتا تھا اور سی این جی رکشوں میں ٹھونسنے ہی کی کوشش کی جاتی ہے۔ شاید اِس لیے کہ سی این جی بھی ٹُھنسی ہوئی گیس ہی تو ہوتی ہے!
مُلک بھیڑ چال کے اُصول کے تحت جی رہا ہے۔ چند افراد جس چیز کو اپناتے ہیں سب اُسے اپنانے لگتے ہیں۔ چنگ چی مقبول ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے وباء کی شکل اختیار کرگیا۔ یہی حال سی این جی رکشوں کا ہے جن کی تعداد سائنس فکشن فلموں میں پائی جانے والی اِنسان دُشمن مخلوق کی طرح بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اب فضا میں آکسیجن کم اور سڑکوں پر سی این جی رکشے زیادہ ہیں! ذرا زور سے سانس لیجیے تو کہیں سے کوئی سی این جی رکشا کھنچتا ہوا آجائے گا۔ سی این جی رکشوں کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں ڈرائیور اپنے دائیں اور بائیں طرف ایک ایک سواری بٹھا سکتا ہے۔ بس، یہی سہولت فساد کی جڑ ہے۔ اگر پچھلی نشست پر دو افراد بیٹھے ہیں اور کوئی خاتون سوار ہونا چاہیں تو اُن دونوں مَردوں کو ڈرائیور کا ہم نشیں ہونا پڑے گا! اور خاتون کے اُترنے پر دونوں کو دوبارہ پچھلی نشست پر بیٹھنے کا موقع ملتا ہے۔ ایک دو اسٹاپ کے بعد پھر یہی تماشا ہوتا ہے۔ نصف سفر تو اِسی نشست و برخاست میں کٹ جاتا ہے۔ اور اگر کوئی خواتین کے لیے پچھلی نشست خالی کرنے سے انکار کردے تو سمجھ لیجیے سڑک کر تھیٹر سج گیا! پھر مسافروں اور ڈرائیور کے درمیان رُونما ہونے والا ڈراما لوگ رک رک کر، مڑ مڑ کر دیکھتے ہیں!
مسافروں کو دبوچنے کے لیے رکشا ڈرائیورز کے درمیان جو کشمکش ہوتی ہے وہ کبھی کبھی انڈر ورلڈ والوں کے تصادم کا مزا دیتی ہے۔ دس پندرہ روپے کے مسافر کے لیے ڈرائیورز دنگل کا ماحول پیدا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ بسا اوقات سوال دس پندرہ روپے کے مسافر کا نہیں، انا کا ہوتا ہے۔ مسافر کو کوئی اور کیوں اور کیسے لے اُڑے؟ اسٹاپ پر ایک شخص کھڑا ہو اور تین رکشے آکر رکیں تو بے چارا مسافر تماشا بن جاتا ہے! سب اُسے ہتھیانے کے لیے لپکتے ہیں۔ ایسی کشمکش تو کسی حسینہ کے لیے اُس کے جاں نثاروں میں بھی نہیں ہوا کرتی!