جہاں دانش وری کے نام پر صرف بَک بَک ہوتی ہو، علم کے نام پر بڑھکیں مارنے اور شعبدے دکھانے کا سلسلہ جاری رکھا جاتا ہو، کام کے نام پر صرف بے عملی کو رواج دیا گیا ہو، اداکاری کے نام پر بھونڈی حرکتیں پنپ رہی ہوں اور اپنائیت کے نام پر صرف چاپلوسی کو بڑھاوا مل رہا ہو وہاں اگر کھیلوں کے فروغ کے نام پر کھیلوں ہی سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے تو حیرت کیوں ہو؟
کرکٹ نے عجب رنگ پکڑا ہے۔ محتاجی اب وکٹ کی ہے نہ گراؤنڈ کی۔ جب کرکٹ نئی ہے تو گراؤنڈ نئے کیوں نہ ہوں؟ اور وکٹ میں بھی انفرادیت ہونی ہی چاہیے سو ہے۔
جنوبی افریقہ کے دورے سے واپسی پر طیارے کی لینڈنگ کے ساتھ ہی شاہد آفریدی کے صبر کا‘ تحمل کا طیارہ ٹیک آف کر گیا۔ انہوں نے ایسی ''خوبیٔ گفتار‘‘ کا مظاہرہ کیا تھا کہ لوگ انگشت بہ دنداں رہ گئے۔ جو چوکے اور چھکے اُن کا بَلّا نہ اُگل سکا‘ وہ اُن کی زبان نے لگائے۔ شاہد آفریدی کو جو غُصّہ جنوبی افریقہ کے میدانوں میں میزبان ٹیم کے بَلّے بازوں اور گیند بازوں پر اُتارنا تھا وہ اُنہوں نے اپنے اُن سابق ساتھیوں پر اُتار دیا جو کرکٹ سے سُبک دوش ہونے پر خاصی سُبک سَری سے موجودہ کرکٹرز کی کارکردگی کے گلے پر تبصرے کی چُھری پھیرتے ہیں۔ میڈیا سے گفتگو میں شاہد آفریدی نے ''مسٹر بین‘‘ اور ''ہیکل اینڈ جیکل‘‘ کو سیدھا کرنے کے لیے آڑے ہاتھوں لیا اور جم کر ''گگلیاں‘‘ کرائیں۔
کسی زمانے میں (ہمیں تو خیر ٹھیک سے یاد بھی نہیں کہ کب) کرکٹ کو شرفا کا کھیل کہا جاتا تھا۔ کرکٹ کے حوالے سے ایسی کوئی بات سُن کر فی زمانہ صرف ہنسا جا سکتا ہے۔ کرکٹ اگر شرفا کا کھیل ہے تو پھر اصولی بات یہ ہے کہ کرکٹ کے کسی بھی مقابلے کے لیے میدان میں اترنے والے ایک دوسرے سے بھائیوں جیسا برتاؤ کریں۔ خیر سے موجودہ اور سابق تمام ہی ٹائپ کے کرکٹرز اب ایک دوسرے کے لیے ''بھائی‘‘ ہیں! کسی معاملے پر اختلاف ہو تو ''مکالمے‘‘ سُن کر ایسا لگتا ہے کہ انڈر ورلڈ کے گینگ آپس میں دست و گریباں ہیں۔
بُوم بُوم آفریدی نے ناقدین کو آڑے ہاتھوں لیا اور ایئرپورٹ کے لاؤنج ہی میں میدان سجا لیا۔ مسافروں اور اُنہیں چھوڑنے یا لینے کے لیے آنے والوں کی تو چاندی ہو گئی۔ کرکٹ کا سُپر اسٹار دیکھنے کو ملا اور وہ بھی ''فاسٹ اینڈ فیوریس‘‘ حالت میں! ایسی حالت میں آٹو گراف سے زیادہ آڈیو گراف مزا دیتا ہے۔
کیمرے کے سامنے شاہد آفریدی کے آنے کی دیر تھی کہ سکندر بخت، شعیب اختر اور محمد یوسف نے بھی مورچہ سنبھال لیا۔ ٹی وی اسکرین جنگ کے میدان میں تبدیل ہوئی اور اِس کے بعد وہ گھمسان کا رن پڑا کہ توبہ۔
اللہ شعیب اختر کی عمر دراز کرے۔ وہ شائقین اور ناظرین کو ایسی تفریح فراہم کر تے ہیں کہ حاسدوں کی بُری نظر سے بچانے کے لیے اُن کے بازو پر سیاہ پٹی باندھنے کو جی چاہتا ہے۔ ویسے ہمیں یا اُنہیں سیاہ پٹی کی تلاش میں زیادہ دُور نہیں جانا پڑے گا۔ تبصرے کے نام پر شعیب اختر جن کی کھنچائی کرتے ہیں وہ احتجاجاً جو (نادیدہ) سیاہ پٹیاں بازوؤں پر باندھتے ہیں اُنہی سے نظر بَٹّو کا کام بھی لیا جا سکتا ہے۔ ہم (اور یقیناً آپ بھی) اب تک یہ سمجھ نہیں پائے کہ شعیب اختر نے جس دل جمعی سے تبصرے فرمائے اگر ویسی ہی استقامت اُنہوں نے کرکٹ کے میدانوں میں دکھائی ہوتی تو آج کرکٹ میں بھی اُن کا کچھ نہ کچھ مقام ضرور ہوتا۔ گیند وہ بہت تیز کراتے تھے۔ مگر پھر بھی کچھ رفتار بچا کر رکھی تھی جو اب تبصروں میں کام آ رہی ہے۔ امریکی بھی سوچتے ہوں گے کہ کاش یہ پُھرتی اُن کے پاس ہوتی تو آج افغانستان سے انخلا میں کام آتی۔
شعیب اختر نے شاہد آفریدی کی گگلی کے جواب میں باؤنسر پھینکتے ہوئے کہا: ''وہ اب تک بڑا نہیں ہوا۔ جاہل اور پڑھے لکھے میں یہی فرق ہوتا ہے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ شاہد آفریدی کی اوقات کیا ہے‘‘۔ ٹی وی اسکرین پر ''بے امنی کی آشا‘‘ کو جلوہ افروز دیکھ کر ناظرین بے چارے ''سَنکٹ‘‘ میں پڑ گئے۔ اُن کی سمجھ میں نہ آیا کہ جاہل کون ہے۔
محمد یوسف نے کہا: 'قوم چاہتی ہے شاہد آفریدی اب یہ طے کر لیں کہ زبان سے کھیلیں گے یا بَلّے سے‘۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ شاہد آفریدی اب تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ اُنہیں کرنا کیا ہے اور یہ کہ ابھی اُنہیں بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے خیال میں محمد یوسف کی رائے بعد از وقت ہے۔ شاہد آفریدی کرکٹ کے ساتھ اور بہت کچھ سیکھ چکے ہیں جبھی تو ٹیم میں ہیں۔ بیٹنگ میں نہیں چلتے تو بولنگ میں کچھ نہ کچھ کر دکھاتے ہیں۔ کبھی بولنگ میں فیل ہوئے تو تھوڑا بہت اسکور کر جاتے ہیں اور فیلڈنگ تو معیاری ہے ہی۔ ہم نہیں چاہتے کہ محمد یوسف کا مشورہ مان کر شاہد آفریدی ''اوور لرننگ‘‘ کے مرحلے سے گزریں۔ کوچز کو شکایت رہی ہے کہ شاہد آفریدی اُن کی بات نہیں مانتے۔ کوچز اُنہیں سمجھنے میں غلطی کرتے رہے ہیں۔ بات صرف اِتنی ہے کہ اُنہوں نے خود کو ہر مقام پر کھرا اور سچا آفریدی ثابت کیا ہے۔
بہت سے شائقین یہ سوچ کر خوش ہیں کہ کرکٹ میں تو اب مزا نہیں رہا۔ اچھا ہے کرکٹرز آپس میں کچھ مُنہ کی لڑائی لڑ لیا کریں اور ہمارا بھلا ہوتا رہے۔ تبصروں میں ایک دوسرے پر چپکائے جانے والے جملوں میں کرکٹ کا پورا مزا موجود ہے۔ مُنہ سے چھکا مارا جائے تو گیند بالعموم انکلوژر سے بھی باہر جا گرتی ہے۔ لوگوں کو تو محظوظ ہونے کا موقع چاہیے۔ اسٹیڈیم کی وکٹ نہ سہی، اسٹوڈیو کی پچ سہی۔
یاروں نے کمال کر دکھایا ہے۔ کرکٹ بھی مزے کی ہوتی ہو گی‘ مگر اِس کا پتا تو اُس وقت چلے جب ہم کرکٹ دیکھیں۔ اب تو لوگوں کو تبصروں اور جائزوں میں زیادہ لطف محسوس ہونے لگا ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ کرکٹ سے زیادہ محنت اب تبصروں پر کی جا رہی ہے۔ کرکٹ کے معاملے میں اب سفر اِتنا دلچسپ ہے کہ لوگ منزل کو بھول گئے ہیں۔ جو لوگ کسی زمانے میں اسٹیڈیم میں میچ دیکھتے ہوئے آپس کے جملوں سے محظوظ ہوا کرتے تھے وہ اب کرکٹ میچ کی لائیو کوریج کے دوران کرکٹ کے بزرجمہروں کی جملے بازی سے زیادہ محظوظ ہوتے ہیں۔
دُکھ اگر ہے تو صرف اس بات کا کہ اس پورے قضیے میں سکندر بخت جیسا شریف النفس، کم آمیز اور خوش گفتار انسان بھی داؤ پر لگ گیا! مگر خیر ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں