"MIK" (space) message & send to 7575

یہ تو کوئی بات نہ ہوئی!

کئی بار دھکے مارنے کے بعد اگر گاڑی اسٹارٹ ہو اور پھر آپ اچانک گاڑی نہ چلانے کا فیصلہ کریں تودھکے مارنے والے تو آپ کو لازمی طور پر شاندار''خراج تحسین‘‘پیش کریں گے!اور بھلا کیوں نہ کریں؟جب گاڑی چلانے کا ارادہ ہی نہیں تھا تو دھکے کیوں لگوائے تھے؟
ہماری قومی ٹیم کے کرکٹرز کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اول تو کھیلتے نہیں اور اگر کھیلنے پر آ ئیں تو دنیا کو حیران و پریشان کرتے چلے جاتے ہیں۔ اب دیکھیے نا‘کہاں تو جنوبی افریقہ کے خلاف دال گل ہی نہیں رہی تھی اور اب حالت یہ ہے کہ سری لنکن کرکٹ ٹیم کے خلاف پوری دیگ تیار کرڈالی ہے!قوم حیران ہے کہ محمد حفیظ کو ہو کیا گیا ہے۔ کہاں تو پروفیسر صاحب ایک آدھ لیکچر دینے کو بھی تیار نہیں تھے۔اور اب عالم یہ ہے کہ پوری سری لنکن ٹیم کی کلاس لینے پر تُلے ہوئے ہیں!اس کا مطلب یہ ہوا کہ محمد حفیظ کو لوگ پروفیسر ایویں ای نہیں کہتے۔ ہمارے ہاں کالج اور یونیورسٹی کے پروفیسرز یہی تو کرتے ہیں۔ سال بھر پڑھاتے نہیں اور پھر چند کلاسز ایسی لیتے ہیں کہ سال بھر کے نصاب کو پچھاڑ کر دم لیتے ہیں۔
قومی کرکٹ ٹیم یو اے ای میں فتوحات کے جو جھنڈے گاڑ رہی ہے وہ بہتوں کے دلوں میں خنجر بن کر کُھب گئے ہیں۔ کچھ لوگ تھے جو متبادل روزگار کے طور پر ٹی وی کے سامنے آتے تھے اور منہ کی کھاتے تھے یعنی منہ سے کچھ الٹا سیدھا نکالتے تھے تو چار پیسے ملتے تھے۔ اِن میں سرِفہرست شعیب اختر تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ ٹی وی پر کرکٹ کے حوالے سے شعلہ بیانی کرنے والوں کے کپتان شعیب اختر ہیں۔ اس میدان میں انہوں نے کپتانی کے تقاضے خوب نبھائے ہیں۔
جو لوگ قومی کرکٹ ٹیم کی ''دھکا اسٹارٹ‘‘ کارکردگی پر مزیدار بلکہ چٹخارے دار تبصرے سننے کے عادی ہو چکے ہیں ان کے ارمانوں پر تو بجلی گر گئی ہے۔شاہد آفریدی کے دھواں دار چھکے اپنی جگہ‘محمد حفیظ کی پے درپے سنچریاں بھی بہت خوب ہیں مگر شعیب اختر کے منہ سے نکلنے والے بائونسرز کاکوئی جواب ہے؟
سری لنکا کے خلاف قومی کرکٹ ٹیم کی شاندار کارکردگی نے کئی گھروں کے چولہے قدرے ٹھنڈے کر دیے ہیں۔ ٹی وی اسکرین پر پنجابی فلموں کے بڑھک دار مکالموں کے سے تیکھے جملے سننے کے شوقین بھی بجھ سے گئے ہیں!شعیب اختر جتنی تیز گیندیں کرتے تھے ‘اُس سے تیز جملے پھینک کر اپنے پرستاروں کی تشفی کر رہے ہیں۔ مگر کیا کیجیے کہ چند ہفتوں پہلے رونما ہونے والے مناقشے کے بعد سے شاہد آفریدی پر کچھ کر دکھانے کا جن سوار ہو گیا ہے اور وہ شعیب اختر کو نیچا دکھانے پر تل گئے ہیں۔ لوگ حیران ہیں کہ شاہد آفریدی کو آخر ہو کیا گیا ہے۔ بیٹنگ دیکھیے تو شاندار۔بولنگ دیکھیے تو لاجواب۔ اور فیلڈنگ کے شعبے میں ہی ان کی طبع خوب جولانیاں دکھا رہی ہے۔ سری لنکا کے خلاف تیسرے ایک روزہ میچ میں انہوں نے دشمنوں کا منہ مزید کالا کرنے کے لیے ایک انتہائی دشوار کیچ لے کر مداحوں کو خوش کر دیا۔ خدا ہی جانے کہ اس کیچ کو دیکھ کر ہیکل اور جیکل کے دِلوں پر کیا گزری ہو گی! شاہد آفریدی کو اچانک یاد آ گیا ہے کہ ان کا تعلق ایک قبیلے سے ہے اور یہ کہ انہیں دشمنوں اور بدخواہوں کو ڈٹ کر نیچا دکھانا ہے۔ پرانی فارمولا پاکستانی فلموں کی طرح یادداشت کی واپسی نے شاہد آفریدی کے پرستاروں کے لیے تو عید کا سماں پیدا کر دیا ہے مگر دوسری طرف منہ کے بائونسرز پھینکنے والے بے چارے بغلیں جھانک رہے ہیں۔ رہی سہی کسر محمد حفیظ نے پوری کر دی۔ وہ بھی اب سنچریاں اسکور کرنے پر تلے ہیں تو اللہ دے اور بندہ لے والا سماں پیدا کر دیا ہے۔
کرکٹرز کی خراب کارکردگی پر اسٹوڈیوز میں میدان سجانے والے متحرک ہو جاتے ہیں۔ یہ تو فطری بات ہے۔ مگر دیکھنے والوں کے پیسے وصول اس وقت ہوتے ہیں جب منہ کی کھانے والے واقعی منہ کی کھا جاتے ہیں۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب تنقید کے نام پر خاص تذلیل کا نشانہ بننے والے کرکٹرز شاندار کھیل پیش کر کے ٹی وی کے نام نہاد مبصرین کو یوٹرن لینے پر مجبور کرتے ہیں!ایسے مواقع پر مبصرین جس ڈھٹائی سے اپنے ''ممدوح‘‘کی ستائش کرتے ہیں اس کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی!ایک دن قبل جسے زیرو قرار دیا ہو اُسے ایسی تیزی سے ہیرو قرار دیتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے!جس کی تذلیل کرتے دِل نہیں بھرا ہوتا اس کی تعریف میں ایسے رطب اللسان ہوتے ہیں کہ دیکھنے اور سننے والے حیرت کے سمندر میں غرق ہو جاتے ہیں!
ہمارے کرکٹرز میں یہ بہت بری عادت ہے کہ اچھا خاصا کھیلتے کھیلتے اچانک جیتنے لگتے ہیں۔ ثابت ہوا کہ اہلِ جہاں درست کہتے ہیں کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم میں مستقل مزاجی کا فقدان ہے!مستقل مزاجی کے اِس فقدان کے باعث بہت کچھ الٹ پلٹ جاتا ہے۔ قوم جب کرکٹرز سے توقعات وابستہ کرتی ہے تو مایوسی کا شکار ہوتی ہے کیونکہ کرکٹ کے نام پر اور تو سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے‘ ایک بس کرکٹ ہی نہیں ہو رہی ہوتی!اور جب لوگ کرکٹ سے زیادہ اُس پر کئے جانے والے تبصروں سے محظوظ ہو رہے ہوتے ہیں تب چند فتوحات اچانک رنگ میں بھنگ ڈال دیتی ہیں!یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔
سری لنکا کے خلاف ایک روزہ میچوں کی سیریز میں 3-2سے کامیابی نے منی اسکرین کے مبصرین کو پھر مشکل میں ڈال دیا ہے۔لایا گیا ہے اُنہیں تذلیل کے لیے اور کرنی پڑ رہی ہے تعریف و توصیف ۔یعنی یوٹرن پر یوٹرن لینے پڑ رہے ہیں۔ پانچ میچوں کی سیریز میں 3-2سے فتح نے انہیں شش و پنج میں مبتلا کر دیا ہے۔ بے چارے بولنا کچھ چاہتے ہیں اور منہ سے نکل کچھ رہا ہے۔ یہ ہم کس مقام پر ہیں کہ ہماری شکست بھی بہت کچھ پلٹ دیتی ہے اور فتح بھی اچھا خاصا کہرام مچاتی ہے!اگر قومی کرکٹ ٹیم کا یہی چلن رہا تو منی اسکرین پر تبصروں کی شکل میں کھیلی جانے والی کرکٹ کا مزا خاک میں مل جائے گا۔ اگر مبصرین کی یونہی حوصلہ شکنی ہوتی رہی تو ہم کرکٹ کی باتوں میں پنجابی فلموں کی بڑھک کا لطف کہاں سے پائیں گے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں