"MIK" (space) message & send to 7575

مہا راج کی اُونچی اُڑان

مہا راج بہت خوش ہیں۔ خوش کیوں نہ ہوں؟ چاروں انگلیاں گھی میں اور سَر کڑاہی میں۔ ایک آدھ کے سِوا تمام بڑی قوتیں اُن کی دیوانی ہیں۔ ہر طرف سے لکشمی کی آمد ہو رہی ہے۔ مزید خوش ہونے کے لیے یہ حقیقت کافی ہے کہ ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لینے کے 43 سال بعد وہ ہمیں بربادی اور تباہی کے دہانے تک پہنچانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ 
مہا راج ویسے تو فطری طور پر بھی کچھ کم مستحکم اور طاقتور نہ تھے مگر اُنہوں نے فطرت ہی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اپنے طور پر بھی تمام پڑوسیوں کو کمزور کرنے کا ارادہ کیا۔ پھر اِس ارادے کو پوری دیانت اور ولولے سے عملی جامہ بھی پہنایا، بلکہ پہناتے چلے جارہے ہیں۔ اُنہیں یقین تھا کہ کوئی ایک (چھوٹا) پڑوسی بھی کمزور ہونے سے رہ گیا تو ''گھور انرتھ‘‘ ہوجائے گا۔ 
مہاراج کی چانکیہ نیتی نے تقریباً ہر پڑوسی کو مستقل نوعیت کی مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ لے دے کے بس ایک چین ہے جو مہا راج کی دست بُرد سے قدرے محفوظ رہا یا یوں کہہ لیجیے کہ اُس نے مہا راج کی ریشہ دوانیوں سے بچنے کے لیے از خود نوٹس کے تحت استثناء لے رکھا ہے۔ 
پاکستان اندرونی مناقشوں میں ایسا اُلجھا ہے کہ کم از کم فی الحال تو سَر اُٹھانے کی پوزیشن میں نہیں۔ مگر خیر، پاکستان ہے بہت سخت جان۔ بہت کچھ کھونے کے بعد بھی ایسا لگتا ہے جیسے ابھی ہاتھ سے کچھ نہیںگیا۔ اِس معاملے میں مہا راج کے دِماغ کی کشتی مخمصے کے بھنور میں گھومتی رہتی ہے۔ اُنہوں نے دبانے کی بہت کوشش کی مگر اسلام کی طرح اللہ نے پاکستان کی فطرت میں بھی لچک دی ہے۔ جتنا دبائیے، یہ اُتنا ہی اُبھر آتا ہے، مہا راج کے سینے پر مُونگ دَلنے کے لیے۔ 
بنگلہ دیش کو تو مہا راج کی چانکیہ نیتی نے ہر اعتبار سے طفیلیے میں تبدیل کرکے دم لیا ہے اور یہ نتیجہ کیونکر حاصل نہ ہوتا؟ وہاں تو مہا راج کو غداروں کی ایک پوری لیگ مل گئی‘ جو ڈگڈگی کے ردہم اور مداری کے اشارے پر ناچ رہی ہے۔ لیجیے، بات ہی ختم ہوگئی۔ سونار بنگلہ کی عظمت کی قسم کھانے والے جوئے بنگلہ کے نعرے لگاتے لگاتے جے ہند کے غلغلے بُلند کرنے والوں کے آغوش میں جا سوئے۔ 
سری لنکا میں بھی مہا راج نے بہت سے کھیل کھیلے اور بیشتر معاملات میں ذِلّت سے دوچار ہوئے۔ مگر خیر، سری لنکا ایسی پوزیشن میں نہیں کہ کسی بھی معاملے میں مہا راج کو چیلنج کرسکے۔ 
نیپال بے چارہ خشکی اور خُشک مزاج ہمسائے سے گِھرا ہوا ہے۔ یہ دنیا کی واحد اعلانیہ ہندو ریاست ہے مگر اُسے سیکولر ازم کے پردے میں لپٹی ہوئی اصل مگر غیر اعلانیہ ہندو ریاست نے دبوچ رکھا ہے۔ مہا راج سے نیپال کو صرف پریشانیاں اور بحران ملے ہیں۔ 
رہ گیا بھوٹان۔ وہ تو کسی گنتی ہی میں نہیں اور مالدیپ کب اِتنا اور ایسا ہے کہ مہا راج کو آنکھ دِکھانے کا سوچ بھی سکے؟ 
غیر معمولی ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب مہا راج کو پیٹ بھرے کی مستی سُوجھ رہی ہے۔ تجارت اور سیاحت کو تیزی سے فروغ دینے کے نام پر مہا راج نے خالص مغربی انداز سے 180 ممالک کے باشندوں کو آمد پر ویزا دینے کا نظام متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے۔ خیر سے اِس بار بھی پاکستان کو ''استثناء‘‘ دیا گیا ہے۔ یعنی پاکستان اُن معدودے چند ممالک میں شامل ہے جن کے باشندوں کو ایئر پورٹ پر ویزا کی سہولت میسر نہ ہوگی۔ اِن ممالک کے باشندوں کو بھارتی ویزا کے حصول کے لیے قطار بند ہونا پڑے گا۔ مہا راج کی طرف سے دوستی اور یگانگت کا یہ پُرخلوص اظہار ہمارے حکمرانوں کی طرف سے ہر وقت دوستی کا دم بھرتے رہنے کی روش کا نتیجہ ہے۔ اہلِ وطن ایک زمانے سے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے اربابِِ بست و کشاد ریشہ خطمی ہوئے جاتے ہیں اور مہاراج ہیں کہ پلٹ کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ 
ہزار کوششیں کر دیکھیے، مہا راج ہیں کہ مَن کر نہیں دیتے۔ اور رُوٹھنے کی ''وجہِ تسمیہ‘‘ بتانے پر بھی آمادہ نہیں ہوتے! پھر بھی ہم ہیں کہ اُن کے بچھائے ہوئے ہر دام کی راہ میں بندۂ بے دام کی صورت بچھے جاتے ہیں! جب یار کو منانا ٹھہرا تو پھر کون سی ذِلّت، کہاں کی ملامت اور کیسا پندار؟ ؎ 
دِل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے 
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے 
یک طرفہ محبت کا یہ عالم ہے کہ یار کا پُھولا ہوا مُنہ بھی لُطف دے رہا ہے۔ اِس طرف سے دلداری کا اہتمام ہے۔ اور اُس طرف سے بہانہ جُوئی ہے، اِنکار ہے۔ مگر دوستی کی راہ میں ون وے ٹریفک کے اُصول پر ڈٹے ہوئے لوگ حیلہ سازی اور بہانہ جُوئی سے بھی لَذّت کشید کرنے کا ہُنر سیکھ رہے ہیں ؎ 
وہ مان کر بھی نہیں مانتے تو کیا غم ہے 
کمال ہم تو ''اگر‘‘ اور ''مگر‘‘ کے دیکھتے ہیں 
مثبت یا منفی کی بحث تو بعد کا مرحلہ ہے، مہا راج کی طرف سے تو یارانِ وطن کی حاشیہ برداری کی رسید تک نہیں آتی! اُردو کے شُعراء جس بُتِ کافر کی باتیں کرتے ہیں اُس کا پُوجنا تو پھر بھی کچھ نہ کچھ رنگ ضرور لاتا ہوگا، مہا راج ایسی ہٹھیلی مِٹّی کے بنے ہیں کہ کسی صورت مَن کر ہی نہیں دیتے۔ خدا کو منائیے تو وہ مَن جائے مگر ایسے رُوٹھے یار کو منانا جُوئے شیر لانے سے زیادہ جاں گُسل مرحلہ ہے۔ 
یارانِ وطن نے مہا راج کو منانے کے معاملے میں جب بھی حد سے بڑھنے کی کوشش کی‘ جواب میں ذِلّت کا ٹوکرا سَر پر دَھر دیا گیا ہے۔ اِدھر سے جب بھی دوستی اور محبت میں تخصیص کی بات کی گئی ہے، اُدھر سے جواب ''استثناء‘‘ کی شکل میں وارد ہوا ہے۔ تجارت میں پسندیدہ ترین قوم کا درجہ دینے کی بات بھی کیجیے تو مہا راج ہمیں پسندیدگی کے معیار پر لانے کو تیار نہیں ہوتے۔ اُن کا مَن خدا جانے کیسا کٹھور ہے کہ کہیں کوئی نرم گوشہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اظہارِ اخلاص کے جواب میں اُس طرف سے کبھی یہ نہیں کہا جاتا کہ ع 
مجھ سے پہلی سی محبت مِرے محبوب نہ مانگ 
اور یہ جواب آئے بھی کیسے؟ محبت کبھی ہوتی تو یہ بات کی بھی جاتی۔ 
بات صرف اِتنی سی ہے کہ چانکیہ داس ہونے کے ناتے مہا راج پڑوسیوں سے تمام معاملات کو صرف تجارت تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ معاملہ لکشمی کی پُوجا کا ہے مگر مشکلات تب پیدا ہوتی ہیں جب لکشمی کی پُوجا یقینی بنانے کے لیے وہ دُرگا اور کالی کی پُوجا سے بھی گریز نہیں کرتے یعنی فریقِ ثانی کا ''سَرو ناش‘‘ کرنے پر تُل جاتے ہیں! مہا راج ہر معاملے کو تجارت کی چوکھٹ پر ذبح کرنا چاہتے ہیں۔ اِس سے ہٹ کر کچھ کہیے یا مانگ بیٹھیے تو اُن کا مُنہ بن جاتا ہے۔ 
خطے کی صورتِ حال دیکھتے ہوئے مغرب اور دیگر خطوں کی بڑی قوتیں مہا راج کو اپنی گُڈ بُک میں رکھنا چاہتی ہیں۔ اِس میں بُنیادی قباحت یہ ہے کہ دور پَرے کے لوگوں کا ایجنڈا مکمل کرنے کے لیے مہا راج پڑوسیوں کو ''گڈز بُک‘‘ میں رکھنے کے درپے ہیں! اپنوں سے تو کیسا شِکوہ کہ ع 
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر 
ہاں، مہاراج سے ہم اِتنی بِنتی اوشیہ کریں گے کہ اونچی اُڑان بھرتے سَمے نیچے والوں کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں، تُچّھ اور مَلِچّھ نہ سمجھیں کیونکہ اُڑان ختم ہونے یا تھکن سے چُور ہونے پر اُنہیں اِن نیچے والوں ہی میں آنا ہے۔ 
آنکھوں میں رہ نہ جائے کہیں پَستیوں کا عکس 
اِتنی بُلندیوں سے مِرا گھر نہ دیکھیے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں