سندھ کی جیلیں منظور وسان کے اختیارات کی قید میں ہیں مگر خود منظور وسان کسی طرح کی قید میں رہنا پسند نہیں کرتے، بالخصوص بولنے کے معاملے میں۔ سندھ کے وزیر جیل خانہ جات گفتگو کے میدان میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی طرح بے باک تو خیر نہیں کہ پل میں حساب بے باق کردیں، نہ ہی رحمٰن ملک کے مانند شاطر ہیں مگر وہ جب میڈیا کے سامنے دِل کی دکان کھولتے ہیں تو انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں یعنی سادگی کی انتہا کو چُھونے لگتے ہیں! موصوف ایسا بہت کچھ بیان کر جاتے ہیں جو اُن کے اندر چُھپے ہوئے معصوم بچے کو بے نقاب کردیتا ہے۔ کبھی وہ خواب بیان کیا کرتے تھے۔ اور تب بھی سادگی ہی میں پُرکاری فرمایا کرتے تھے۔ گزرے ہوئے دور میں منظور وسان کے خواب خوب کارگر ثابت ہوئے۔ سُنا ہے جب وہ جیل کے دوروں میں خواب بیان کرتے تھے تو بہت سے قیدی گھبراکر اعترافِ جرم کرلیا کرتے تھے!
خواب بیان کے پردے میں دِل کی بات بھی منظور وسان اِس خوبی سے کہہ جایا کرتے تھے کہ لوگ حیران رہ جاتے تھے اور ہم جیسے خوشہ چینوں کو اُن کے خِرمن سے لکھنے کو بہت کچھ مل جایا کرتا تھا۔ ہم اُن کے بولنے کی راہ تکا کرتے تھے۔ ع
وہ کہیں اور ''لِکھا‘‘ کرے کوئی!
گزشتہ دورِ حکومت میں پیپلز پارٹی نے کچھ ایسا وقت گزارا کہ اُس سے وابستگی رکھنے والوں کی نیند ہی اُڑ گئی۔ اور جب نیند ہی نہ رہی تو خواب کہاں سے آئیں اور کہاں سمائیں؟ منظور وسان کی سیاست خوابوں کے سہارے چل رہی تھی۔ اپنے خوابوں کے ذریعے وہ مستقبل قریب کا حال بتایا کرتے تھے۔ جب خواب چُھٹے تو منظور وسان نے براہِ راست ''پیشین‘‘ گوئی فرمانا شروع کردیا۔
سالِ رواں کے آغاز پر صوبائی وزیر جیل خانہ جات نے کسی قیدی کو تو کسی رعایت سے نہیں نوازا مگر ہاں میڈیا سے گفتگو میں چند پیش گوئیوں کو ضرور آزاد یعنی ریلیز کیا۔ ایک پیش گوئی یہ بھی تھی کہ نئے سال میں بہت خوں ریزی ہوگی اور چند سیاسی جماعتوں کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔
ہمیں اِس پیش گوئی میں ایسا کچھ نظر نہیں آتا جس پر اعتراض کیا جائے۔ اِس ملک کے نصیب میں اب قتل و غارت کے سِوا ہے کیا؟ حالات نے ایک مشکل آسان کردی ہے۔ خواب دیکھو یا پیش گوئی کرو، کسی بھی کام میںکوئی اُلجھن نہیں۔ حالات کو کہاں بدل جانا ہے؟ وہ تو ویسے ہی رہیں گے جیسے ہیں۔ یعنی بے فکری سے کوئی بھی پیش گوئی کیجیے، وہ درست ہی ثابت ہوگی۔ ثابت ہوا کہ پیش گوئی ہمیشہ وہ کرنی چاہیے جو حالات سے مطابقت رکھتی ہو اور جس کے ناکام ہونے کا امکان ایک فیصد بھی نہ ہو! شکر ہے سیاست نے منظور وسان کو اِتنا تو سِکھا ہی دیا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اُسی کی بنیاد پر پیش گوئی کی جائے تاکہ نوبت کبھی غلط ثابت ہونے تک نہ پہنچے!
ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے قربت کے باوجود منظور وسان نے محتاط ہوکر بولتے رہنے کو ترجیح دی ہے جو اُن میں فراست کا پتا دیتی ہے۔ اِس اعتبار سے دیکھیے تو وہ پیپلز پارٹی میں odd ہیں! اِس اعتبار سے منظور وسان کا وزیر جیل خانہ جات بننا حیرت انگیز نہیں کیونکہ اِس ملک میں (اور بالخصوص پیپلز پارٹی میں) جس کسی نے بھی ذرا سی فراست دکھائی ہے اُسے جیل کا مُنہ دیکھنا پڑا ہے!
پیش گوئی کا یہ طریق نیا نہیں۔ آپ شاید بھول رہے ہیں کہ محکمۂ موسمیات نے ایک زمانے سے یہ طریق اپنا رکھا ہے۔ سَر پر کالے بادل کھڑے ہوں تو پیش گوئی فرمائی جاتی ہے کہ بارش کا امکان ہے اور دو تین دن مطلع ابر آلود رہے گا! کوئٹہ میں برف باری ہو تو بلا خوفِ تردید پیش گوئی فرمائی جاتی ہے کہ اب کراچی میں سَردی بڑھے گی اور کئی دن تک ٹھنڈی ہوائیں چلتی رہیں گی! موسم میں اگر دم ہے تو ایسی پیش گوئی کے برعکس واقع ہوکر دکھائے۔
منظور وسان نے گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو کے دوران پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے تعلق کی وضاحت بھی فرمائی۔ کسی رپورٹر نے سندھ کابینہ میں ایم کیو ایم کی شمولیت کے امکان سے متعلق سوال کیا تو منظور وسان نے کہا کہ شادی تو بہت دور کی بات ہے، ابھی تو ایم کیو ایم سے منگنی بھی نہیں ہوئی! لیجیے، سندھ کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان تعلق کی وضاحت ہوگئی۔ اب تک لوگ پتا نہیں کیا کیا سوچ رہے تھے۔ ثابت یہ ہوا کہ لوگوں کا سوچنا اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے سِوا کچھ نہ تھا۔ لوگ دونوں جماعتوں کے شیر و شکر ہونے اور اِس عمل کے ممکنہ نتائج کے بارے میں غور کر رہے تھے۔ اے وائے ناکامی! اچھا ہوا کہ منظور وسان نے بر وقت لب کُشائی کرکے لوگوں کو سوچنے کی زحمت سے نجات دلادی۔ منظور وسان کی باتوں سے انکشاف ہوا کہ ابھی تو کورٹ شپ ہی چل رہی ہے۔ ذرا سا عامیانہ انداز اختیار کیا جائے تو کہا جائے گا کہ سندھ کی دونوں بڑی جماعتیں فی الحال dating کی منزل میں ہیں! دونوں کے لیے اِس نوعیت کے تعلق میں بڑی سہولت ہے۔ جب تک جی چاہا ساتھ رہے اور جب جی بھرگیا تو جُدا ہولیے۔ کوئی رشتہ ہو تو توڑنا بھی پڑے۔ تعلق کا کیا ہے، جب جی میں آئے توڑ لیجیے اور پھر گنجائش دیکھ کر سہولت کے مطابق جوڑ لیجیے۔ اِس مقام پر ہمیں ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے۔ سگریٹ چھوڑنے کے حوالے سے بحث کے دوران ایک صاحب نے کہا۔ ''سگریٹ چھوڑنا کون سا مشکل کام ہے؟ میں کئی بار چھوڑ چکا ہوں!‘‘
جہاں مفادات ہر معاملے سے حاوی اور برتر ہوں وہاں تعلقات اِسی نوعیت کے ہوا کرتے ہیں۔ ہمیں پیپلز پارٹی اور متحدہ کے درمیان dating پر کوئی اعتراض نہیں۔ اعتراض کی ضرورت ہے نہ سکت۔ مگر ہاں، دُکھ اِس بات کا ہے کہ سیاسی روابط کا یہ انداز سندھ کے وسائل اور باشندوں کے لیے سراسر predator ثابت ہو رہا ہے! ''کبھی خوشی، کبھی غم‘‘ والی سیاست صوبے کے عمومی یعنی عوامی مفادات کو date یعنی کھجور کی طرح کھاکر گٹھلیاں عوام کے سامنے پھینکتی آئی ہے۔ اور بسا اوقات عوام کو گٹھلی کے دام بھی چُکانے پڑے ہیں!
لوگ منتظر ہیں کہ رُوٹھنے اور منانے کے اِس تازہ ایکٹ کا ڈراپ سین کب اور کیسے ہوتا ہے۔ ویسے اب کوئی بھی چیز کچھ خاص predictable نہیں رہی۔ عوام جانتے ہیں کہ جو کچھ ہوتا آیا ہے وہی ہوگا۔ ایسے میں پیش گوئی کا دَھندا خوب چمک رہا ہے۔ میڈیا کی مہربانی سے یہ بھی ہوا ہے کہ لوگ جن باتوں کو پہلے سے اور اچھی طرح جانتے ہیں اُنہی باتوں کو سیاست دانوں اور ''ماہرین‘‘ کی زبانی ذرا مختلف انداز سے سُن کر خوش ہولیتے ہیں! جیسے آلو گوشت یا کوئی اور عام سی ڈِش اچھی طرح پکانے والی خواتینِ خانہ یہی ڈِش ٹی وی سے بھی (یعنی دوبارہ) سیکھتی ہیں تاکہ سَند رہے کہ فلاں ایکسپرٹ سے سیکھا ہے! اِس عمل میں کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ مختلف ذائقے کے چکر میں پچھلا ذائقہ بھی ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔ میڈیا سے ''رہنمائی‘‘ پانے کے خواہش مند اہلِ وطن بھی ایسے ہی انجام دے دوچار ہوتے آئے ہیں!
وفاقی حکومت طالبان سے مذاکرات کے معاملے میں جس طرز عمل کا مظاہرہ کرتی آئی ہے اُس کی روشنی (یا اندھیرے!) میں آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ اِن مذاکرات کے تِلوں میں تیل نہیں۔ منظور وسان نے تمام معاملات اور اخبارات کا اچھی طرح جائزہ لیکر پیش گوئی کی ہے کہ مذاکرات ناکام رہیں گے۔ ہمیں بھی یقین ہے کہ منظور وسان ناکام نہیں رہیں گے۔
یہ بات البتہ ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ چند سیاسی جماعتوں کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ گزشتہ عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی جو حیثیت رہ گئی ہے وہ منظور وسان ہی نہیں، اہلِ وطن بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایسے میں وہ مزید کس جماعت کی بقاء کو لاحق خطرات کا ذکر کر رہے ہیں؟ اِس بات کو سمجھنے کے لیے شاید ہمیں خواب دیکھنا پڑے کیونکہ منظور وسان کا تو خوابوں نے بائیکاٹ کر رکھا ہے! مگر خوابوں کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ یہ نا آسودہ خواہشات ہی کا تو عکس ہوتے ہیں۔ ملک جن حالات سے دوچار ہے اُن کا تقاضا ہے کہ ؎
دیکھ لو خواب مگر خواب کا چرچا نہ کرو
لوگ جل جائیں گے، سُورج کی تمنا نہ کرو!
اور منظور وسان صاحب کے لیے ہمارا پُرخلوص مشورہ ہے ؎
بے خیالی میں کہیں اُنگلیاں جل جائیں گی
''پیش گوئی سے‘‘ دبی راکھ کریدا نہ کرو!