کسی بھی بُری عادت کا ترک کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ آپ جب چاہیں ایسا کرسکتے ہیں۔ تمباکو نوشی ترک کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ کسی بھی ''چین سموکر‘‘ سے پوچھیے کہ بھائی سگریٹ ترک کرنا مشکل کام ہے؟ وہ بولے گا بالکل نہیں‘ اور بتائے گا کہ کئی بار ترک کرچکا ہوں! یہی حال ہماری حکومتوں کا ہے۔ اُن سے پوچھیے کہ کیا وہ عسکریت پسندوں سے ڈرتی ہیں؟ جواب ملے گا قطعی نہیں، بالکل نہیں۔ اور پھر وہ مذاکرات کرکے دکھا بھی دیتی ہیں! یہ تماشا ہمارے ہاں اِس قدر برپا ہوا ہے کہ اب اِس میں کسی کے لیے دلچسپی کا کچھ سامان رہا نہیں۔ مرزا تنقید بیگ، جیسی کہ اُن کی عادت ہے، ہماری رائے سے متفق نہیں۔ اُن کے نزدیک حکومت عسکریت پسندوں سے جب بھی رابطہ یا مذاکرات کرتی ہے تب شاندار ڈرامے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ''اِن ڈراموں میں سیاسی شعبدہ گری کبھی مضمر اور کبھی اظہر من الشمس رہی ہے۔ لوگوں کو صرف یہ دیکھنے کا اشتیاق رہتا ہے کہ مذاکرات کی تازہ ترین قسط میں اداکاری کون سے سکول آف تھاٹ کے تحت کی گئی ہے!‘‘ ہماری کسی بھی حکومت نے جب بھی عسکریت پسندوں سے مذاکرات کا ڈول ڈالا ہے یعنی سیاسی مُشاعرے میں طرح کا مصرع دیا ہے، میڈیا نے لپک کر مصرع اُٹھایا ہے۔ اور کیوں نہ اُٹھائے؟ میڈیا کا تو کام ہی یہ ہے کہ گِرتے ہوئے معاملے کو ایسا اُٹھائے کہ لوگ اُٹھے ہوئے اصل معاملات کو بھول بھال جائیں!
اب پھر مذاکرات کی ڈگڈگی بج رہی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے بیشتر مداری اِس ڈگڈگی کی رُمک دُھمک پر قوم کو بندر کی طرح نچانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ مذاکرات کی ڈگڈگی پر جو تماشا ہو رہا ہے اُسے دیکھنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ میڈیا پر رونق میلہ لگ گیا ہے۔ اینکرز کو کئی ہفتوں کی خوراک یک مُشت مل گئی ہے۔ اُن کی دعائیں رنگ لے آئیں۔ موضوعات ختم ہوچلے تھے۔ عسکریت پسندوں سے مذاکرات کا طبل بجا تو اینکرز کی جان میں جان آئی۔ ماہرین، مبصرین اور تجزیہ کار بھی خوش ہیں کہ چہرہ دکھانے، آواز سُنانے کا کچھ جواز تو بنا۔ جب کوئی معاملہ ہی نہ چل رہا ہو تو میڈیا کا بازار شدید مندی کی لپیٹ میں آتا ہے۔ مگر صاحب، ایسے عالم میں بھی بہر حال لطائف جنم لیتے ہیں۔ ایک ڈیڑھ سال قبل اطالوی صدر پر کسی نے جوتا کھینچ مارا تو میڈیا والوں نے ڈھول پیٹنا شروع کردیا۔ خبر نشر کرنے کی حد تک تو معاملہ سمجھ میں آتا ہے کیونکہ میڈیا والے رائی ملے تو پربت بنانے میں دیر نہیں لگاتے، مگر کمال یہ ہوا کہ ہمارے ہاں کئی چینلز نے سیاسیات کے مستند ماہرین کو فون پر لیا اور وہ لیڈرز کو جوتا کھینچ مارنے کی نفسیات بیان کرنے بیٹھ گئے! بعد میں پتا چلا کہ جوتا مارنے والے کا ذہنی توازن درست نہیں تھا۔ ٹھیک ہی تو ہے۔ جس کا ذہنی توازن درست ہو وہ کرپٹ اور عیاش سیاست دانوں کی طرف اُچھال کر جوتے کی توہین کیوں کرے گا؟
حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اُسے دیکھ کر قوم ''ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ ہاؤ ہُو تو بہت ہے مگر محسوس یہ ہو رہا ہے کہ جو کچھ قوم چاہتی ہے وہ نہیں ہو پائے گا۔ معاملات کچھ ایسی نیم دِلی سے چلائے، بلکہ بھگتائے جارہے ہیں کہ بہت سوں کا دِل پُرامید ہونے کو تیار نہیں۔ ہو بھی کیسے؟ اچھی خاصی قتل و غارت ہوچکی ہے، معیشت کا بیڑا غرق ہوچکا ہے اور سکیورٹی فورسز کا جانی نقصان اِس قدر ہے کہ وہ بُھول نہیں سکتیں۔ اور اگر بُھول گئیں تو ملک کے دیگر چھوٹے عسکریت پسند یا علیٰحدگی پسند گروپوں کے خلاف کارروائیوں کا جواز اپنی موت آپ مر جائے گا۔ پُلوں کے نیچے سے پانی اچھا خاصا بہہ چکا ہے تب مذاکرات کا خیال آیا ہے۔ حکومت کے لیے بھی عجیب یہ مخمصہ ہے۔ یہ ایک گال میں آگ اور دوسرے میں پانی بھرنے والا معاملہ ہے۔ مذاکرات کے معاملے میں بارہا یہ ہوا کہ ع
جاتے میں قدم اور تھے، آتے میں قدم اور
قوم آس لگائے رہتی ہے اور مثبت نتائج کے انتظار میں سُوکھ جاتی ہے۔ بہاروں کی تمنا میں جینے والوں کے لیے کوئی پُھول تو نہیں کِھلتا، ہاں یار لوگ گُل کِھلانے پر ضرور تُلے رہتے ہیں! عسکریت پسندی کو پروان چڑھانے کا شوق ہمیں بند گلی میں چھوڑ کر اُڑن چُھو ہوگیا ہے۔ اب حالات اِس نہج پر ہیں کہ کمپرومائز کے سِوا چارہ نہیں۔ اب تُھوکا ہوا چاٹنا کون پسند کرتا ہے مگر چاٹنا پڑے گا۔ جنہیں پال پوس کر بڑا کیا گیا ہو وہی اگر طاقت پاکر چڑھ دوڑیں تو کیا کیا جائے؟ ہمارا کیس بھی تو یہی ہے۔ ایک سپر پاور کو ناکوں چنے چبوانے کے لیے دوسری سپر پاور کی مدد سے راہ و رسم بڑھائی گئی۔ غیر ریاستی عناصر کو بڑھاوا دیا گیا۔ کسی کی جنگ ہم نے اپنے آنگن میں لڑی۔ نتیجہ جو نکلنا چاہیے تھا وہی نکلا۔ برباد ہوئے، ذلیل و خوار ہوئے۔ جن عسکریت پسندوں کو بھرپور سرپرستی ملی تھی وہ آخر میں پورس کے ہاتھی ثابت ہوئے۔ داستانوں میں پائے جانے والے دیو کے مانند وہ ہر وقت کوئی نہ کوئی کام مانگتے تھے اور جب کام ملنا بند ہوا تو وہ ہمیں کو کھانے پر تُل گئے! ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
مثالیں تو اور بھی بہت ہیں مگر ایک عامیانہ مثال یاد آرہی ہے۔ ''کسبی‘‘ نے خصم کیا، بُرا کیا۔ چھوڑ دیا، یہ اور بُرا کیا۔ ہماری سٹیبلشمنٹ نے عسکریت پسند پال کر ایک بُرا کام کیا۔ کام نکل جانے پر اُن سے لاتعلق ہو جانا بھی کچھ بُرا نہ تھا۔ مگر معاملہ یوں بگڑا کہ جن کے کہنے پر اپنایا تھا اُنہی کے کہنے پر اُن کا نام و نشان مٹانے کی راہ کا مُسافر ہونا پڑا۔ امریکا ہو یا کوئی اور، جب حکم مانتے رہنے کی عادت اپنالی جائے تو قدم قدم ذِلّت کا ٹوکرا سَر پر دَھر دیا جاتا ہے۔ ع
اُس نقشِ پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل
عسکریت پسندوں کو ختم کرنے کا ''ٹاسک‘‘ کیا سونپا گیا، ہماری بربادی کا پروانہ لِکھ دیا گیا۔ اب ایک بار پھر مذاکرات کو موقع دیا جارہا ہے۔ صدر ممنون حسین تو کہتے ہیں کہ حُجّت تمام کی جارہی ہے۔ حَسّاس اور نازک موڑ پر اُنہیں پالیسی یوں کُھل کر بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ مگر خیر، اُنہیں کبھی کبھار ہی تو بولنے کا موقع ملتا ہے اِس لیے موقع شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جو بولنا ہو بول جاتے ہیں! پندرہ بیس دن سے مذاکرات کا کھیل ہو رہا ہے۔ پیش رفت کے دعوے کئے جارہے ہیں مگر معاملہ ''میری گو راؤنڈ‘‘ جیسا لگتا ہے۔ یعنی بڑے تختے پر لکڑی کے گھوڑے نصب ہیں۔ تختہ گھوم رہا ہے اور لکڑی کے گھوڑوں پر بیٹھے ہوئے ''شہسوار‘‘ تختے کے گھومنے ہی کو سفر سمجھ کر خوش ہیں۔ ؎
اُس تشنہ لب کی نیند نہ ٹوٹے خُدا کرے
جس تشنہ لب کو خواب میں دریا دکھائی دے
قوم اب بھی آس لگائے بیٹھی ہے کہ شاید کَوّے کے انڈے سے کوئل کا بچہ برآمد ہوجائے! بے جا خوش گمانی یا خام خیالی کا نتیجہ صفر رہتا ہے۔ حکومت مذاکرات تو کر رہی ہے مگر بظاہر خود اُسے بھی اپنی کوششوں کے بار آور ہونے کا یقین نہیں۔ عسکریت پسندوں کے اِتنے گروپ ہیں کہ کسی ایک بڑے گروپ سے بات کر بھی لیں اور وہ قتل و غارت سے باز آ بھی جائے تو بات نہیں بنے گی۔ اور پھر اِس بات کا بھی کسی کو بالکل درست اندازہ نہیں کہ عسکریت پسندوں میں بڑی طاقتوں کے مُلکی اور غیر مُلکی ایجنٹ کتنے ہیں اور کتنے طاقتور ہیں! خیالات پر مایوسی کا غلبہ سا ہے مگر پھر بھی دِل سے یہی دُعا نکلتی ہے کہ مذاکرات کی کشتی خیریت سے دوسرے کنارے لگے۔ ع
اِس ابتدا کی خدا انتہا بخیر کرے
میڈیا کے لیے مذاکرات کا یہ سلسلہ بِلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا والا معاملہ نہیں ہونا چاہیے۔ اچھا ہے کہ کوریج کی چند حدود خود ہی متعین کرکے اُن میں رہتے ہوئے کام کیا جائے۔ جلتی پر تیل چِِھڑکنا کون سا مشکل کام ہے۔ میڈیا کو اِس معاملے میں مثبت رہنا چاہیے ؎
نَشہ پِلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
مزا تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی!