"MIK" (space) message & send to 7575

طیارہ ڈھونڈنے کا صحیح طریقہ

ملائیشیا کا طیارہ تو ایسا غائب ہوا ہے کہ کسی طور پکڑائی دینے پر آمادہ ہی نہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ملائیشین ایئر لائن کے طیارے کو زمین نگل گئی یا آسمان کھاگیا۔ یہ طیارہ ایسا لاپتا ہوا ہے جیسے ہماری پالیسیوں سے معقولیت ناپید ہوئی ہے۔ تکنیکی اداروں کے اہلِ نظر ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک چکے ہیں۔ سوال صرف یہ نہیں ہے کہ طیارہ نہیں مل رہا بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ماہرین کی ساکھ داؤ پر لگ گئی ہے۔ فی زمانہ ہر چیز پر نظر ہے، نگرانی ہے کہ ختم نہیں ہوتی۔ ایسے میں ایک پورے کے پورے طیارے کا یوں غائب ہوجانا انتہائی اچنبھے کی بات ہے۔ سوچنے والے سوچ سوچ کر باؤلے ہوئے جارہے ہیں کہ اب اُس طیارے کو لائیں تو کہاں سے لائیں۔ 
زمانے بھر کی ذہانت اپنی کھوپڑی میں سمونے کا دعویٰ کرنے اور بات بات پر مہارت جھاڑنے والے مہر بہ لب ہیں۔ ٹیکنالوجی کی ہوش رُبا پیش رفت والے اِس دور میں ایک پورا طیارہ غائب ہوگیا ہے اور کوئی اِس پوزیشن میں نہیں کہ پورے تیقّن سے اُس کے بارے میں کچھ بتاسکے۔ مانا کہ ہمارے ہاں منتخب نمائندے بھی انتخابی کامیابی کے بعد غائب ہوجاتے ہیں مگر خیر، وہ کبھی کبھی منتخب ایوان میں تو دکھائی دیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بہت سے لوگ اُدھار لینے کے بعد غائب ہوجاتے ہیں اور کسی صورت ہاتھ آنے کا نام نہیں لیتے مگر ملائیشین طیارے نے تو ایسا گھونگھٹ کاڑھا ہے کہ کہیں نام رہا ہے نہ نشان۔ اب ایسا بھی کیا رُوٹھنا کہ من کر ہی نہ دیجیے۔ بے چارے ماہرین پریشان ہیں کہ ؎ 
نشاں بھی کوئی نہ چھوڑا کہ دِل کو سمجھائیں 
تری تلاش میں جائیں تو ہم کہاں جائیں؟ 
متعدد ممالک کی بحریہ اور فضائیہ نے ملائیشین طیارے کے رُوٹ کا چپہ چپہ چھان مارا ہے مگر طیارے کا کہیں بھی سُراغ نہیں ملا۔ اِس سرچ آپریشن پر اب تک لاکھوں ڈالر خرچ ہوچکے ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع نے 40 لاکھ ڈالر مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 25 لاکھ ڈالر خرچ ہوچکے ہیں۔ 
ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ اِس معاملے کا رُخ پاکستان کی طرف موڑنے کی کوشش کی گئی۔ زمانہ ایسا ہے کہ کسی پریشانی کو جب کہیں سَر چُھپانے کی جگہ نہیں ملتی تو وہ ہماری سرزمین کا رُخ کرتی ہے یا اُس کا رُخ اِدھر کردیا جاتا ہے۔ اِس بار بھی شک کی سُوئی پاکستان پر لاکر روکی گئی۔ مغربی میڈیا کو صرف اشارا درکار تھا۔ اُس نے پاکستان کے خلاف راگ الاپنا اور بینڈ بجانا شروع کردیا۔ ملائیشین وزیر اعظم بھی گھبرا گئے اور پاکستانی ہم منصب کو فون کر ڈالا۔ موصوف نے طیارے کی تلاش میں تعاون کی استدعا کی۔ ہمیں یہ خبر پڑھ کر بہت حیرت ہوئی اور ہنسی بھی آئی۔ ہماری حکومت بے چاری کیا ڈھونڈ سکتی ہے؟ وہ اب تک گڈ گورننس ہی ڈھونڈ کر اپنا نہیں پائی! ہماری سرکاری مشینری کے پاس ایسی کون سی ٹیکنالوجی ہے کہ کچھ ڈھونڈ سکے یا کسی چیز کی نشاندہی کرسکے۔ اگر سرکاری مشینری میں کچھ معلوم کرنے کی صلاحیت ہوتی تو ہم اپنی تعلیم کا کھویا ہوا معیار نہ ڈھونڈ نکالتے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کون سے پاتال میں جا چھپی ہے، یہ بھی ہم معلوم کر ہی لیتے۔ ہم اُس کا سُراغ پانے کے مرحلے سے بہت دور ہیں۔ ہم اپنے کھوئے ہوئے امن اور استحکام کو ڈھونڈ نکالنے میں بھی اب تک یکسر ناکام رہے ہیں۔ کرکٹ کسی زمانے میں کھیل کا نام تھا۔ اب کرکٹ کے نام پر اِتنا کچھ کھیلا جارہا ہے اِس گورکھ دھندے میں کرکٹ کو تلاش ایسا ہی ہے جیسے ملائیشین طیارے کو ڈھونڈ نکالنا۔ کسی زمانے میں ہماری ایک ہاکی ٹیم بھی ہوا کرتی تھی۔ پہلے تو ہاکی ٹیم سے ہاکی نکلی۔ پھر پوری ہاکی ٹیم ہی کہیں نکل گئی۔ کہاں گئی، کوئی نہیں جانتا۔ 
سرکاری مشینری اگر زیادہ گِھس گئی ہے اور بظاہر کسی کام کی نہیں رہی تب بھی کچھ زیادہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے ہاں کسی بھی معاملے کی تہہ میں اُترنے کی صلاحیت رکھنے والے ماہرین کی کمی نہیں۔ اِن ماہرین کا تعلق میڈیا کی دُنیا سے ہے۔ میڈیا مشینری کے یہ کلیدی پُرزے جب قلم تھامتے یا بولتے ہیں تو انجانی دُنیاؤں کی خبر لاتے ہیں۔ اِن کی باتوں میں کائنات کے سربستہ اسرار بھی آسانی سے تلاش کئے جاسکتے ہیں، ملائیشین طیارے کی تو اوقات ہی کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کی فوج ظفر موج ناپید کو ہویدا کرنے کی صلاحیت سے متصف ہے۔ یہ چاہے تو Nothing سے Somthing کشید کرلے۔ اور اگر زیادہ جوش میں ہو تو Everything کی منزل تک پہنچ جائے! 
چند برسوں سے میڈیا مشینری نے ایک ایسا آئٹم متعارف کرایا ہے جس کی مدد سے کچھ بھی کھوج نکالا جاسکتا ہے۔ اِس آئٹم کو کہتے ہیں کہ چھاپہ مار ٹیم۔ ٹی وی پر ایسی چھاپہ مار ٹیمیں کام کر رہی ہیں جو آن کی آن میں کہیں سے کہیں جا پہنچتی ہے اور کسی بھی کونے کھانچے سے بہت کچھ ایسا باہر نکال لاتی ہے جسے دیکھ اور سُن کر لوگ دانتوں تلے انگلیاں دبالیتے ہیں۔ 
کرنٹ افیئرز کے پروگرام غور سے دیکھیے۔ اِن پروگرامز کے اینکرز کو اللہ نے ایسی فنکاری سے نوازا ہے کہ پلک جھپکتے میں اپنی کہکشاں سے نکل کر دوسری کہکشاؤں تک پہنچ کر وہاں سے یعنی بہت دُور کی کوڑیاں لاکر ناظرین کو حیران اور پروگرام کے شرکاء کو پریشان کردیتے ہیں! کسی بھی معاملے میں جب حقیقت کا سُراغ نہ مل رہا ہو تو اینکرز کسی نہ کسی حقیقت تک پہنچ ہی جاتے ہیں یا پھر کسی بھی چیز کو حقیقت کے روپ میں پیش کردیتے ہیں! چند ہی جملوں میں یہ سب کچھ کھنگال ڈالتے ہیں۔ باتوں ہی باتوں میں یہ قومی خزانے کی اسکریننگ کر گزرتے ہیں کہ کون کتنا مال ڈکار رہا ہے! یعنی جمشید دستی کی طرح بتاسکتے ہیں کہ ع 
کس نے پی، کس نے نہ پی، کس کس کے آگے جام تھا!
اِن کی مہارت کا عالم یہ ہے کہ زمین پر بیٹھے بیٹھے کسی بھی سیارے یا ستارے کی سطح کے بارے میں جامع رپورٹ جاری کرسکتے ہیں۔ اور کس کی مجال ہے کہ اُس رپورٹ کو درست تسلیم کرنے سے، قبول کرنے سے انکار کرے؟ 
ہماری مخلصانہ رائے یہ ہے کہ ملائیشین طیارے کی تلاش کا ٹاسک کسی ٹی وی پروگرام کی چھاپہ مار ٹیم کو سونپ دیا جائے تو کچھ بعید نہیں کہ اگلے ہی دن معلوم ہوجائے کہ طیارہ کہاں ہے اور اُس میں کیا ہو رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ اِس انکشاف سے حیران رہ جائیں کہ ملائیشین طیارے میں جعلی گھی اور تیل بنانے یا غیر معیاری مسالے تیار کرنے کی فیکٹری کام کر رہی ہے! اور اگر یہی ٹاسک اینکرز کو دے دیا جائے تو وہ یا تو وہ اپنے ''سِرّی علم‘‘ کی مدد سے لاپتا طیارے کو ڈھونڈ نکالیں گے یا پھر اپنی چرب زبانی سے کسی بھی بڑے ڈھانچے کو طیارہ ثابت کرکے دم لیں گے! 
اگر میڈیا مشینری سے کام میں کوئی کوتاہی رہ جائے تو عاملوں سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ وہ جب اچھے خاصے ڈھیٹ اور سنگ دل محبوب کو قدموں میں ڈال سکتے ہیں تو ایک بے جان طیارہ اُن کے علم و فن کے آگے کیا بیچتا ہے! ہمیں یقین ہے کہ ملائیشین طیارہ اُن کے لیے ایک آدھ وظیفے کی مار ثابت ہوگا۔ آزمائش شرط ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں