"MIK" (space) message & send to 7575

یہ نصف صدی کا قِصّہ ہے …

خوش فہمی کتنی سطحی ہوتی ہے اور کس طرح بُلبُلے کی مانند پُھوٹ جاتی ہے اِس حقیقت سے روشناس ہونے میں مرزا تنقید بیگ نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا ہے۔ ہم جب بھی اپنے ذہن میں یہ خوش فہمی پالنے لگتے ہیں کہ شاید مرزا کچھ سُدھر گئے ہیں اور اپنے خیالات سے رجوع کرلیا ہے تب وہ کوئی نہ کوئی انٹ شنٹ بات کرکے ہمارے تمام تصورات کو یکسر باطل ثابت کردیتے ہیں۔
ہم ایک ہفتے سے سوچ رہے تھے کہ کسی طرح اُنہیں بتائیں کہ ہم نے اب تک لکھنے لکھانے کے معاملے میں بھلے ہی کوئی تیر نہ مارا ہو مگر ماہ و سال کے حوالے سے ایک بڑا تیر مارنے والے ہیں یعنی 24 اپریل کو عمر کی نصف صدی مکمل کرنے والے ہیں۔ کل جب ہم نے مرزا کو تھوڑا سا سنجیدہ پایا تو موقع غنیمت جان کر عرض کیا کہ اب جبکہ ہم پچاس سال کے ہونے والے ہیں تو کیوں نہ وہ ہماری اب تک کارکردگی (اور زندگی) کا جائزہ لیں، تجزیہ کریں تاکہ ہمیں اندازہ ہو کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے۔
مرزا کی سنجیدگی دم بھر میں مفقود ہوئی اور چہک کر بولے۔ ''اِس ملک میں پتا نہیں کیا کیا سیلیبریٹ کیا جارہا ہے، اب تم بھی اپنے پچاس سال سیلیبریٹ کرلو۔ جہاں اِتنے تماشے منعقد ہو رہے ہیں، ایک اور سہی۔‘‘
ہم یہ سُن کر بھڑکنے ہی والے تھے کہ خود پر قابو پایا (یعنی پچاس سال کا ہونے کا ثبوت فراہم کیا) اور عرض کیا۔ ''محترم! یہاں تو لوگ کچھ کئے بغیر ہی اپنے وجود کو سیلیبریٹ کرتے رہتے ہیں۔ ہم تو پھر بھی کچھ نہ کچھ کر گزرے ہیں اور اب پچاسویں سالگرہ مناکر اپنی کامیابیوں کو سیلیبریٹ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
ہم تو نہیں بھڑکے تھے مگر مرزا یہ سُن کر بھڑک اُٹھے۔ ''زندگی اللہ نے دی اور اُسی نے برقرار رکھی۔ ہوتے ہوتے آپ پچاس سال کے ہوگئے۔ اِس میں آپ کا کیا کمال؟ کمال تو اُن لوگوں کا ہے جو آپ کو پچاس سال سے دیکھ ہی نہیں، جھیل بھی رہے ہیں اور زندہ ہیں۔ کبھی اِس بات پر اہل خانہ کا شکریہ بھی ادا کرو۔ اب ہماری ہی مثال سامنے رکھو۔ تم سے دوستی کے بعد بھی ہم اب تک برقرار ہیں۔ یہ الگ بات کہ برسرِ قرار نہیں!‘‘
اِس سے پہلے کہ مرزا کی سَفّاک صاف گوئی سے ہم بُجھ جاتے، ذہن میں چند چنگاریوں نے تھوڑی سی ہوا پاکر شعلوں کی شکل اختیار کی اور ہم تازہ دم ہوکر پھر سے مقابلے پر آگئے۔ مرزا کی بات اَن سُنی کرتے ہوئے عرض کیا۔ ''آپ ہمیں ایک زمانے سے یعنی کم و بیش پندرہ بیس سال سے جانتے ہیں۔ آپ نے ہم میں کیا کچھ بھی نہیں دیکھا۔‘‘
مرزا بولے۔ ''ارے کیا خاک دیکھا؟ اچھے بُرے میں تمیز کرنے کا شعور بھی تم میں نہیں پایا جاتا۔ دوستی کے معاملے میں بھی تم بُودے ہی ثابت ہوئے ہو۔ جِس تِس کو دوست بنالیتے ہو۔‘‘
یہ سُن کر ہم نے جب مرزا کو غور سے دیکھا تو وہ ذرا جھینپ گئے۔ گفتگو کا سلسلہ تھم سا گیا۔ ہم نے یہ موقع بھی غنیمت جانتے ہوئے جملہ داغا کہ دوستی کے معاملے میں ہم واقعی بُودے ثابت ہوئے ہیں کہ آپ کو بھی دو عشروں سے جان کا روگ بنا رکھا ہے۔
مرزا پسپائی اختیار کرنے پر مجبور تھے مگر مزاجاً چونکہ ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں اِس لیے آن کی آن میں پھر تُنک کر بولے۔ ''ہم کب سے تمہارے دوستوں میں سے ہونے لگے؟ تم جس طور ہم سے ملتے ہو اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تم ہمیں اپنے بزرگوں میں شمار کرتے ہو۔‘‘
ہم نے اگلا وار کیا کہ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ بزرگوں کے انتخاب کے معاملے میں ہمارا معیار پست ہے!
مرزا کے سامنے اب اپنے مزاج کی اصلیت ظاہر کرنے کے سوا کوئی آپشن نہ رہا۔ گفتگو اور دلائل کے سارے اُصول ایک طرف ہٹاکر بولے۔ ''یہ کیا فضول کی بحث لے بیٹھے؟ صاف صاف کہو نا کہ عمر کے پانچ عشرے مکمل ہونے پر اپنی توصیف کے خواہش مند ہو۔ ہاں بھائی، ہم نے مان لیا کہ آپ نے اپنے پچاس سال مکمل کرکے بہت بڑا تیر مارا ہے۔ اب کہو گے کہ پچیس تیس سے لکھتے آئے ہو۔ اور جو کچھ لکھا ہے اُسے بھی تیر مارنے کے کھاتے میں رکھنا چاہوگے۔‘‘
ہم نے مودبانہ عرض کیا کہ ہمارے لکھے کو کسی نہ کسی کھاتے میں تو رکھا ہی جاسکتا ہے۔ ٹھیک ہے ہم بہت بڑے لکھارے نہ سہی، اپنی سی کوشش تو کر گزرتے ہیں۔ پڑھنے والوں کے ہونٹوں پر اگر ہماری تحریر سے مسکراہٹ کی چند لکیریں نمودار ہوجائیں تو سمجھ لیتے محنت ٹھکانے لگی۔ لکھنے کا اِس سے بڑھ کر صِلہ کیا ہوسکتا ہے؟
مرزا کو تو جیسے اپنے نام کی لاج رکھنے یعنی تنقید کے ڈونگرے برسانے کا موقع مل گیا۔ ''میں تو سمجھتا تھا تم حقیقت پسند ہو مگر اب معلوم ہوا کہ تم بھی محض کالم نویس ہی ہو۔ تم بھی اِس خوش فہمی میں مبتلا ہو کہ لکھنا کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دینا ہے۔ ‘‘
ہم نے بتایا کہ جو کچھ ہم لکھتے ہیں اُس پر خاصی حوصلہ افزا آراء موصول ہوتی ہیں۔ جو لوگ ہمیں پڑھ کر متاثر ہوتے ہیں وہ ای میلز میں تعریف ہی نہیں اُن مقامات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں جہاں ہم نے کچھ محنت کی ہوتی ہے۔ یہ بات مرزا کو ذرا بھی متاثر نہ کرسکی۔ کہنے لگے۔ ''جو تمہاری تحریروں سے متاثر ہیں وہ دراصل 'متاثرین‘ ہیں۔ تمہیں کیا پتہ کہ تمہاری تحریریں اُن پر کیسے سِتم ڈھاتی ہیں۔‘‘
ہم نے مرزا کو سمجھانے کی کوشش کہ لوگ کسی کی تعریف یونہی تو نہیں کرتے، کوئی تو بات ہوتی ہے۔ وہ کہنے لگے۔ ''یہ بھی تمہاری ایک اور خوش فہمی ہے۔ اب ایس ایم ایس اور ای میل کے ذریعے رائے بھیجنا آسان ہوگیا ہے۔ لوگوں کو تو عادت سی ہوگئی ہے کچھ نہ کچھ ٹائپ کرتے رہنے کی۔ اِس عادت کو تم جیسے لوگ خلوص سمجھ کر خوشی سے پاگل ہوجاتے ہیں۔ آج کل کے لکھنے والوں کو توصیفی ایس ایم ایس یا ای میلز بھیج کر لوگ دراصل 'تفریح‘ لے رہے ہوتے ہیں اور تم لوگ خواہ مخواہ سیریس ہوجاتے ہو۔‘‘
ہم نے مرزا کی رائے سے مُتّفِق نہ ہونے کا عندیہ دیا تو پھر بھڑک اُٹھے اور یوں گویا ہوئے۔ ''یہی تو مسئلہ تم جیسے لوگوں کا۔ صاف گوئی برداشت نہیں کر پاتے ہو۔ ذرا سا لکھنا آگیا تو خود کو طُرّم خاں سمجھ لیا۔ لوگ تو مزے لے رہے ہوتے ہیں اور تم اُنہیں اپنا پرستار، مَدّاح اور پتہ نہیں کیا کیا سمجھ لیتے ہو۔ تم مزاح لکھتے ہو وہ مزاحیہ سمجھ کر پڑھتے ہیں! تم اپنے موج میں بہتے ہوئے کہیں سے کہیں جا نکلتے ہو اور اپنے لکھے کو دانش گردانتے ہو جبکہ لوگ صرف یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ آج کل کے لکھنے والے جب مُوڈ میں ہوتے ہیں تو داستان گوئی کی راہ پر سنگ ہائے میل عبور کرتے چلے جاتے ہیں!‘‘
ہم سمجھ گئے کہ مرزا کچھ بھی تسلیم کرنے کے موڈ میں نہیں۔ ایسے میں چُپ ہوجانا ہی بہتر تھا۔ ہمیں خاموش دیکھا تو مرزا بولے۔ ''حوصلہ رکھو۔ پڑھنے والے موجود ہیں اور اللہ اُنہیں اُن کے گناہوں کی سزا بھی دینا چاہتا ہے۔ ایسے میں بہتر یہ ہے کہ تم لکھتے رہو۔ اگر تماری تحریر پڑھنے والوں کے لیے امتحان کی سی ہو تو سمجھ لو کہ تم اللہ کی مرضی پر پورے اُترے۔ یعنی تمہارا وجود بے مصرف نہیں۔ لوگ گناہ کرتے رہیں گے اور ہماری دُعا ہے کہ تم بھی سلامت رہو تاکہ تمہارے لکھے سے اُن کے لیے سزا کا اہتمام ہوتا رہے!‘‘
جھیلنے کے لیے اپنا وجود کیا کم ہوتا ہے؟ سِتم بالائے سِتم یہ کہ ہم بیس سال سے مرزا کو بھی برداشت کر رہے ہیں۔ اِس دوران قرطاس و قلم سے تعلق بھی نہیں ٹوٹا۔ عارف انصاری، یوسف انصاری، تنزیل الرحمن اور شاہد رام پوری جیسے احباب بھی ملے ہیں جو بہت غنیمت ہیں۔ روزنامہ کی وساطت سے بھی مخلص دوست حصے میں آئے ہیں۔ خلوص کے اِس رشتے کی بنیاد اُن کی روزنامہ دنیا کے ادارتی صفحات سے وابستگی ہرگز نہیں! لوگ طولِ عمر کی دُعا سے ڈرتے ہیں۔ آپ ہمیں شوق سے طولِ عمر کی دعا دیجیے۔ اگر ایسے تمام احباب کی رفاقت نصیب رہی تو ہم آئندہ پچاس برس کا دریا بھی ہنستے کھیلتے عبور کرلیں گے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں