یکم مئی کو عثمان ایک سال کا ہوگیا۔ سالگرہ اور عقیقے کی رنگا رنگ تقریب اگلے دن یعنی جمعہ 2 مئی کو منعقد کی گئی۔ اُس دن ایم کیو ایم کا یومِ سوگ تھا۔ شہر کا ماحول سوگوار سا تھا۔ عثمان کے اعزاز میں منعقد کی گئی تقریب نے دل بہلانے کا سامان کیا۔ زندگی کا میلہ یونہی چلتا رہا ہے۔ لوگ آتے اور جاتے رہیں گے، زندگی تسلسل کا نام ہے۔
عثمان اپنا زیادہ وقت ہمارے اپارٹمنٹ (فلیٹ) میں گزارتا ہے۔ ہم دوسری منزل پر رہتے ہیں اور وہ تیسری منزل پر۔ رہائش کے اعتبار سے بھی سَر پر سوار ہے اور اپنائیت کے معاملے میں بھی ہم نے اُسے سَر آنکھوں پر بٹھا رکھا ہے، بلکہ یوں کہیے کہ بہت سَر چڑھا رکھا ہے۔
ہمارے ہاں عثمان کی آمد اِس دنیا میں اُس کی آمد کے پانچ ماہ بعد شروع ہوئی تھی۔ تب اُسے بیٹھنا نہیں آتا تھا اور اب وہ بیٹھنا چاہتا نہیں۔ چُلبلے پن کا یہ عالم ہے کہ ایک پَل بھی چَین سے رہتا ہے نہ رہنے دیتا ہے۔ ذرا نظر چُوکی اور اِدھر سے اُدھر۔ چہکنے میں کمی آتی ہے نہ پُھدکنے میں۔ اور اب تو مشہور گانوں کے مُکھڑوں پر تِھرکنا اور ٹُھمکنا بھی آگیا ہے۔ بچے اچھی طرح جانتے ہیں کہ بڑے کس بات سے متاثر ہوتے ہیں اور یوں بڑوں کی ''نفسی کمزوریوں‘‘ کا جی بھر کے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
لوگ کبھی دردِ سر کا رونا روتے ہیں اور کبھی ڈپریشن کا۔ ذہن کی چتکبری پیچیدگیوں سے نجات کے لیے رنگ برنگی ایلوپیتھک گولیاں بھی نگلتے رہتے ہیں مگر سُکون کی منزل اُنہیں کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ دکھائی کیسے دے؟ آنکھوں کے سامنے چلتا پھرتا علاج ہے مگر اُسے گلے نہیں لگاتے۔ گھر کی مُرغی دال برابر ہوتی ہے۔
بات ہو رہی ہے ڈپریشن اور دردِ سر سے نجات پانے کی۔ کم ہی لوگ غور کر پاتے ہیں کہ بَچّوں کی سنگت سے زیادہ فرحت بخش معمول کوئی نہیں۔ ماں باپ اور بالخصوص ماں کے لیے تو جگر گوشے دُنیا کی سب سے بڑی نعمت ہوتے ہی ہیں، آپ چاہیں تو اُنہی جگر گوشوں کو اپنے لیے بھی سراپا رحمت کی صورت اپناسکتے ہیں۔ اِس سے اچھا نیچرل اینٹی ڈپریسنٹ اب تک مارکیٹ میں نہیں آیا۔
ذاتی تجربہ اِنسان کو بہت کچھ سکھاتا ہے۔ بچوں کے معاملے میں ہم چاروں بھائی بہنوں کا تجربہ ہمیشہ خوشگوار احساسات کا حامل رہا ہے۔ 2005ء میں ذاتی اپارٹمنٹ کی خریداری تک ہم نے کرائے کے کم و بیش 15 مکانات یا فلیٹس میں زندگی بسر کی۔ 40 برس کے دوران ہم جہاں جہاں بھی رہے، بچوں کو گلے لگایا۔ جس محلے میں مکان کرائے پر لیتے وہاں کے بچوں سے بھرپور اپنائیت کا اظہار کرتے جس کے نتیجے میں بچے بھی ہم سے مانوس ہوتے جاتے۔ ہمارا تہی دست گھرانہ بچوں سے لگاؤ کے معاملے میں اِس قدر فراخ دِل اور مالدار تھا اور ہے کہ بچوں کی سنگت سے پہلے دِل بھرتا تھا نہ اب بھرتا ہے۔
حِنا سے شروع ہونے والا سلسلہ پینو، مَنّو (محمد حسین)، جُنید ابو طالب، ہما شاہین، ثوبیہ پرویز، نمل، معاذ، بسما، رافعہ، شازے فاطمہ اور مومو سے ہوتا ہوا اب عثمان تک آپہنچا ہے۔ عثمان ہماری زندگی میں تازہ ترین انٹری ہے۔ دو تین ماہ کی محنت سے ہماری بیٹی صباحت نے اُسے دعا مانگنا، سوری کرنا اور فون سُننا سِکھا دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ چند مشہور گانوں کے مُکھڑوں پر ''سیٹ‘‘ بھی کرلیا ہے یعنی اِدھر مُکھڑا گنگنائیے، اُدھر عثمان کا تِھرکنا اور مٹکنا شروع ہو جاتا ہے۔ ''تو نے ماری انٹریاں تو دِل میں بجیں گھنٹیاں ٹن ٹن ٹن‘‘ وہ تازہ ترین گانا ہے جسے سُن کر عثمان کے لیے خود پر قابو پانا انتہائی ناممکن ہوجاتا ہے۔
کبھی کبھی تو بچے اپنی معصومیت سے حیران کردیتے ہیں۔ یقین ہی نہیں آتا کہ وہ بڑے ہوکر ہم جیسے یعنی معصومیت سے محروم ہوجائیں گے! اور اِس سے بھی بڑھ کر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یقین نہیں آتا کبھی ہم بھی ایسے ہی معصوم تھے! یعنی ہم بڑے تو ہو جاتے ہیں، ہم میں ''بڑپّن‘‘ پیدا نہیں ہو پاتا۔ اپنا جائزہ لیجیے تو یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا کہ اِنسانوں کے بچے بڑے ہوکر اِس قدر غیر اِنسانی ہو سکتے ہیں۔ کاش ایسا ہو کہ بچے بڑے ہوکر ہم جیسے نہ ہوں۔ اور اِس سے بھی بڑھ کر کاش ایسا ہو کہ ہم بچوں کی سادگی اور معصومیت سے کچھ سیکھ کر ذہن کی ٹائم مشین میں بیٹھیں اور ماضی میں جاکر اپنے وجود کو تمام آلائشوں سے پاک کرکے بچوں جیسے ہوجائیں۔
اپنے ماحول میں یا پھر دنیا بھر کے معاشرتی و جنگلی ماحول کا جائزہ لیجیے، ہر جاندار کے بچے آن کی آن میں اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایک بس انسان کا بچہ ہی ہے جو ڈھائی تین سال تک ماں باپ اور دیگر افراد کی بھرپور توجہ کے بغیر بہتر زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ یہ قدرت کی طرف سے ہمارے لیے واضح پیغام ہے کہ ہم بچوں سے بھرپور محبت کو شعار بنائیں، اُن پر توجہ دیں، اُن سے پیار کریں، اُنہیں سینے سے لگائیں اور بھرپور تحفظ کا احساس دلائیں۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ اِس پیغام کو کم ہی لوگ کماحقہ سمجھ پاتے ہیں۔ بیشتر بڑے اپنی ہی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں اور واضح ضرورت محسوس ہونے پر بھی بچوں کی حسین دنیا میں قدم نہیں رکھتے۔ بچوں سے وہ محبت اور اپنائیت کا اظہار کرتے بھی ہیں تو محض رسمی کارروائی کے طور پر، خانہ پُری کے لیے۔ اُنہیں یہ بات کون سمجھائے کہ بچوں کو زیادہ
وقت دینے ہی سے تو زیادہ سُکون میسر ہوگا۔
بچوں کو زیادہ وقت دینے والے ڈپریشن سے محفوظ رہتے ہیں۔ بچوں کی سنگت اُنہیں بہت سے عُیوب سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ بچوں کی دنیا میں بہت کچھ ہے۔ اُن میں کوئی ایسی عادت نہیں پائی جاتی جو آپ کے لیے پریشانی، خِفّت یا دل آزاری کا باعث بن سکتی ہو۔
بچے کسی سے حسد رکھتے ہیں نہ نفرت کرتے ہیں۔ اُن میں غیر صحت مندانہ رقابت ہوتی ہے نہ مسابقت۔ وہ کچھ چُراتے ہیں نہ کسی کے حق پر ڈاکا ڈالتے ہیں۔ قتل و غارت کیا ہوتی ہے، بچے جانتے بھی نہیں۔ بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان جیسے قبیح افعال کا اُن کی دنیا میں گزر نہیں۔ کسی کی راہ میں دیوار بنتے ہیں نہ کسی کو راستے سے ہٹانے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔ بچوں کی زندگی میں آزادی ہی آزادی ہے۔ وہ کسی پر اپنی مرضی تھوپتے ہیں نہ کسی کی مرضی کو اپنی تقدیر سمجھتے ہیں۔ بچے ہمیں بہت کچھ سکھاتے ہیں مگر سیکھا اُس وقت جاسکتا ہے جب ہم سیکھنے کے لیے تیار ہوں۔
جو لوگ بچوں سے پیار کرتے ہیں وہ پیار کی شِدّت اور دورانیہ بڑھاکر دیکھیں۔ اور جو بچوں سے برائے نام لگاؤ رکھتے ہیں وہ اُنہیں قلب و نظر کی گہرائی سے اپناکر دیکھیں تو اُنہیں خود بھی یقین نہیں آئے گا کہ زندگی اِتنی حسین بھی ہوسکتی ہے۔ زندگی واقعی حسین ہے مگر اِس کا حُسن نِہارنے کے لیے آپ کو تھوڑا سا جُھک کر بچوں کی سطح پر جانا پڑے گا۔ نیکی اور پوچھ پوچھ، جُھک جائیے۔