"MIK" (space) message & send to 7575

بندر کا ویزا

وقت سے پہلے اور مقدر سے زیادہ کسی کو کچھ ملا ہے نہ ملے گا۔ یہ جملہ آپ نے بیسیوں بار سُنا ہوگا۔ کئی فلموں میں یہ جملہ استعمال ہوا ہے۔ یہ امر البتہ بحث طلب ہے کہ مقدر کیا چیز ہے۔ ہم جس قدر محنت کریں گے وہی محنت ہے یا اِس سے ہٹ کر بھی کچھ ہے جسے ہم مقدر کا نام دے کر اطمینان کی چادر اوڑھیں؟ 
ایک صاحب افریقہ گئے۔ جنگلات کی سیر کے دوران انہیں ایک ببر شیر پسند آ گیا۔ گائڈ اور میزبان سے پوچھا کہ کِتنے میں ملے گا۔ بتایا گیا کہ حضور یہ ببر شیر ہے، بہت مہنگا ملے گا۔ انہوں نے کہا مانگو کیا مانگتے ہو۔ جواب میں جو قیمت طلب کی گئی وہ ادا کی اور ببر شیر کے ساتھ وطن لوٹے۔ ایک شاندار پنجرہ بنوایا گیا جس میں صفائی، فراہمی و نکاسیٔ آب اور ٹھنڈک کا بھرپور اہتمام کیا گیا۔ ایک خادم مقرر کیا گیا جو شیر کے تمام امور کا خیال رکھتا۔ بازار سے اعلیٰ ترین درجے کے بادام، پستے، کاجو، انجیر، کشمش، اخروٹ وغیرہ خریدے گئے۔ خادم نے جب یہ اشیاء فراہم کیں تو شیر نے اِنہیں چٹ کرکے بہت لطف پایا۔ اگلے دن بھی بہترین ڈرائی فروٹ پیش کئے گئے۔ شیر کو مزا تو آیا مگر یہ ''من و سلویٰ‘‘ پاکر بھی وہ اپنی سرشت کو فراموش کیسے کردیتا؟ خادم سے بولا۔ ''بھائی، گوشت کی دو چار بوٹیاں بھی دے دو تو مزا ہی آجائے۔‘‘ خادم نے مسکراکر ہاں میں گردن ہلائی اور چلا گیا۔ تیسرے دن بھی جب خادم نے شیر کے سامنے بہترین ڈرائی فروٹ رکھے تو وہ بھڑک اُٹھا، بدک گیا۔ اُس نے گرج کر خادم سے کہا۔ ''میں نے کہا تھا تھوڑا سا گوشت بھی ڈال۔ کیا میری بات سمجھ میں نہیں آئی؟‘‘ خادم نے مُسکراکر شیر کو دیکھا اور جیب سے کاغذ کا ایک ٹکرا نکال کر اُس کی آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے کہا۔ ''بیٹا، صفائی سُتھرائی کی قدر کر، ٹھنڈک کے مزے لے۔ جو کچھ بھی مل رہا ہے چُپ چاپ کھا۔ توُ ہے تو ببر شیر مگر تیرے صاحب تجھے بندر کے ویزے پر لائے ہیں! اب اِس دیس میں رہنا ہے تو خود کو بندر سمجھنا ہے۔ سمجھ گیا نا؟‘‘ 
یہ کہانی ہماری داستان سے کتنی ملتی جلتی ہے! قدرت نے ہمیں بھی خاص کرم فرماتے ہوئے شیر بناکر اِس دنیا میں بھیجا ہے اور ہم ہیں کہ اپنے مفاد کی خاطر اپنی اصلیت بھول جاتے ہیں۔ ایک زمانے سے ہمارے جوانان خلیجی ریاستوں میں خون پسینہ ایک کرکے قومی خزانے کو توانا رکھنے کا بندوبست کر رہے ہیں مگر حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ اُچھلنے اور کودنے والوں کی تو وطن میں اب اچھی خاصی قدر کی جاتی ہے۔ مگر پھر بھی لوگ بیرون ملک نام کمانے کے چکر میں بہت کچھ بالائے طاق رکھنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ وطن میں رہتے ہوئے کوئی ڈھنگ کا کام کرنے سے محروم رہنے اور معیارِ زندگی بلند کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا والے اب بیرون ملک کسی بھی حیثیت میں کام کرنے کو زندگی کا مقصد بنا بیٹھتے ہیں۔ اپنے ہاں کا اعلیٰ نسل کا گھوڑا باہر جاکر گدھے کی حیثیت سے کام کرنے میں کوئی قباحت نہیں کرتا۔ لوگ عزت پانے کے لیے کیا کیا کرتے ہیں۔ گھوڑے ہوکر گدھے بننے کو تیار ہو جاتے ہیں! 
1970ء کے عشرے میں جب خلیجی ریاستوں نے افرادی قوت کی منڈی میں پاکستانیوں کو کھپانا شروع کیا تب پاکستان میں بہت کچھ بدلا۔ جنہیں وطن میں کوئی پوچھتا نہ تھا وہ باہر جاکر کچھ کر دکھانے کی کوشش کرنے لگے۔ سعودی عرب، قطر، کویت، عمان، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک میں پاکستان کے ہنر مند گئے اور حالات کے مطابق رچ بس گئے۔ 1980 ء کے اوائل میں پی ٹی وی کے پروگرام ''ففٹی ففٹی‘‘ میں ماجد جہانگیر اور اسماعیل تارا کی ایک قوالی بہت مقبول ہوئی تھی جس کے بول تھے۔ 
میرے لڑکے تھے بے کار، جب سے گئے سمندر پار 
تو اِتنی چیزیں لائے، کہ گھر اب بھرتا جائے! 
اسی قوالی میں آگے چل کر یہ خوبصورت نکتہ بھی شامل کیا گیا کہ 
وہ یہاں میکینک ہوتا تھا، تو سب کی نظر میں کھوتا تھا 
اب وہاں پلیٹیں دھوتا ہے، اور سب کی نظر میں اچھا ہے 
بہت کچھ بدل گیا ہے مگر افرادی قوت کو کھپانے کے معاملے میں ہمارے طور طریقے اب بھی نہیں بدلے۔ ہم آج بھی اپنے ببر شیروں کو بندر اور گدھے کے ویزے پر باہر بھیج رہے ہیں۔ کچھ تو حکومت کی عدم توجہی ہے اور کچھ لوگوں کی بھی عجلت پسندی کہ اپنی
صلاحیتوں کو شناخت کئے بغیر ہی کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ کئی غریب ممالک کو دیکھ کر بھی ہم نے سیکھا نہیں کہ باہر جاکر کام ہی کرنا ہے تو صرف پیسے کا منہ نہ دیکھا جائے بلکہ اپنی اور قوم کی توقیر کا بھی کچھ خیال رکھا جائے۔ ترسیلاتِ زر پر انحصار کرنے والا ہم ملک چاہتا ہے کہ اُس کی افرادی قوت بہترین آپشنز کے ساتھ ملک سے باہر جائے۔ کوئی بھی اپنے لمبی ریس کے گھوڑے کو ملک سے باہر گدھا گیری کے لیے بھیجنا پسند نہیں کرتا۔ رہنمائی بھی کی جاتی ہے اور معاونت بھی۔ ایک ہم ہیں کہ بہترین افرادی قوت کو غیر متعلق کاموں کے گٹر میں پھینک کر خوش ہوتے ہیں اور اِس عمل کو کامیابی قرار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے! 
وطن کی حدود میں رہتے ہوئے بھی اِس بات کی گنجائش کم ہی ہے کہ کوئی اپنی صلاحیت اور فطرت کو ذرا سے مالی مفاد کے لیے کچرے کے ڈھیر پر ڈال دے۔ ایسے میں بیرون ملک اُسی حیثیت میں جانا چاہیے جو قدرت نے عطا کی ہے یا رب کے کرم سے محنت کی بدولت حاصل کی ہے۔ لمبی ریس کے گھوڑے کو دوڑنے کے لیے مناسب پلیٹ فارم تلاش کرنا چاہیے، تانگے میں جُت کر یا گدھے کی حیثیت سے بوریاں اُٹھانے سے اجتناب برتنا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں