اِس سال کراچی کے موسم نے سیاسی ماحول کو ''یا اُستاد‘‘ مان لیا ہے۔ اِدھر سیاست گرمی دکھا رہی ہے اور اُدھر سُورج آگ برسانے پر تُلا ہوا ہے۔مہینہ جُون کا ہو اور موسم آپ کی آزمائش پر تُلا ہو تو گھر سے باہر قدم رکھنا بھی جُوئے شیر لانے کے مترادف ہو جاتا ہے۔ ایسے میں گھریلو وزارتِ داخلہ یعنی اہلیہ کی سرکار سے حکم صادر ہوا کہ دہی لایا جائے۔ حکمِ حاکم، مرگِ مفاجات! ہم حیران ہوئے کہ جس موسم میں اچھی خاصی جمی ہوئی چیزیں بھی پگھل جاتی ہیں، ہم جما ہوا دہی کہاں سے لائیں؟ اپارٹمنٹ کی بالکونی میں جاکر ماحول پر ایک نظر ڈالی تو آنکھوں کے پسینے چُھوٹنے لگے۔ اہلیہ کو سمجھانے کی (ایک بار پھر) ناکام کوشش کی کہ ایسے موسم میں دہی کا کیا کرنا ہے۔ معلوم ہوا کہ لَسّی کے لشکاروں کا اہتمام کرنا ہے اور کڑھی بھی بنانی ہے۔ اور ساتھ ہی بیسن لانے کی فرمائش یعنی ہدایت داغ دی۔ تپانے، جُھلسانے اور رنگ ''گورا‘‘ کردینے والی گرمی میں پکوڑے والی کڑھی! ہم معترض ہوئے تو جواب ملا لوہے کو لوہا کاٹتا ہے، گرمی کو پکوڑے والی کڑھی سے مارنے کا پروگرام ہے!
ہم اُن مقامات کے بارے میں سوچنے لگے جہاں جہاں دہی کا حصول ممکن تھا۔ بھلا ہو سماعت کا کہ ہم نے ''ہمتِ مرداں، مددِ خدا‘‘ والا مقولہ سُن رکھا تھا۔ اور پھر اللہ کا شُکر ادا کیا کہ اِس مقولے پر عمل کرنے کی توفیق بھی عطا ہوئی یعنی کمر اچھی طرح کَس کر ہم دہی کی تلاش میں نکل پڑے۔
دو دن پہلے ہی شہر کے حالات اچانک بگڑے تھے (یعنی مزید بگڑے تھے )، دکانیں اور بازار لوگوں نے بند کردیئے یا کرادیئے گئے، ہڑتال کا سا سماں پیدا ہوا۔ جب معاملات بہتری کی طرف آئے اور دکانیں کُھلیں تو لوگ گھروں سے بھاگے کہ چار چھ دن کے لیے اشیائے خور و نوش جمع کرلیں۔ ہم نے سوچا لوگ آٹا، دال، چاول وغیرہ خرید رہے ہیں۔ ایسے میں موقع اچھا ہے، دہی کا حُصول کچھ خاص جاں گُسل مرحلہ نہ ہوگا۔ مگر جب دودھ دہی کی دُکانوں کا رُخ کیا تو معلوم ہوا کہ دیارِ یار میں بھی وہ بھیڑ نہ ہوگی جو دہی کے حُصول کے لیے تھی!
دس قدم کے فاصلے پر دودھ دہی کی جو دُکان ہے وہاں پہنچے تو دیکھا کہ لوگ دکان پر کچھ پڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دکان پر ٹانگے ہوئے بورڈ پر لکھا تھا کہ دہی کے بارے میں پُوچھ کر شرمندہ نہ ہوں! ہم چند لمحوں تک اپنا سا مُنہ لیے کھڑے رہے۔ مزید دس قدم آگے دودھ دہی کی ایک اور دکان ہے۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ دہی ختم ہوچکا ہے اور دکاندار سارے تَسلے دھوکر اب سُکون کی نیند سو رہا ہے۔ اُسے پُرسکون نیند میں دیکھ کر پہلے تو رشک آیا، پھر شدید غُصّہ بھی کہ نامعقول نے ہمارے لیے پاؤ ڈیڑھ پاؤ جتنا دہی بھی بچاکر نہ رکھا۔ مگر پھر خیال آیا کہ ہم کون سے وی وی آئی پی ہیں جو ہمارے لیے کوئی دہی بچاکر رکھے گا اور تھیلی ہاتھ میں تھماکر سرپرائز دے گا!
آدھے گھنٹے تک ہم علاقے میں بھٹکتے رہے۔ جو شناسا تھے وہ تو سلام کرتے یا سلام کا جواب دیتے رہے۔ جو نہیں جانتے تھے وہ مشکوک نظروں سے دیکھتے رہے کہ کہیں یہ پولیس یا کسی پارٹی کا مخبر تو نہیں جو سُن گُن لیتا پھر رہا ہے! ہم دور سے خاصے پڑھے لکھے دکھائی دیتے ہیں۔ چہرے پر کالمانہ سنجیدگی بھی اُبھر آئی ہے مگر صاحب! جب کوئی بدگمانی پر تُلا ہو تو ہم کیا کریں اور آپ کیا کریں!
دودھ دہی کی ہر دکان پر خلقت جمع تھی۔ ایک جگہ ڈیڑھ کلو جتنا دہی بچا تھا اور طلب گار ڈیڑھ درجن تھے۔ دکاندار کا تو یہ حال تھا کہ ع
حیراں ہوں دِل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں!
ہم نے دکاندار کی طرف دیکھا تو وہ اچھی خاصی شناسائی کے باوجود ہمیں پہچاننے سے گریز کرنے لگا۔ عقل مند کے لیے اشارا کافی ہوتا ہے مگر ہم کہاں کے عقل مند ہیں جو اشارا کافی ہوتا؟ ہم اُسے گریزپا دیکھ کر بھی نہ سمجھ سکے کہ دہی کے معاملے میں کوئی اُمید نہ رکھی جائے۔ تپتی ہوئی سڑکوں پر چلتے ہوئے پورے علاقے کا سروے کرلیا مگر دہی نے کہیں درشن نہ دیئے۔ پیاس کے مارے حلق میں کانٹے چُبھ رہے تھے مگر ہم دہی کی لگن میں چلتے رہے۔ مرزا تنقید بیگ نے جب ہماری درگت دیکھی تو شدید گرمی اور بیزاری کو پل میں بُھول کر کِھل اُٹھے۔ اِس کے بعد تو وہ ایسے کُھلے کہ اُنہیں سمیٹنا مشکل ہوگیا۔ ''میاں! جب گرمی جوبن پر ہو تو اچھے اچھوں کا پِتّہ پانی ہو جاتا ہے مگر دہی کا دیدار نہیں ہو پاتا۔ لَسّی کی خواہش کو عملی شکل دینے کی کوشش دِماغ کی لَسّی بنا ڈالتی ہے۔ شدید گرمی میں دِن کے دو بجے دہی کی تلاش میں نکلنے والوں کو علامہ اقبالؔ کی طرف 'دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ‘ والا مشورہ یاد رکھنا چاہیے۔ تم کیا سمجھ بیٹھے تھے کہ جس طرح بیٹھے بیٹھے کالم لِکھ مارتے ہو، دہی بھی کہیں سے پیدا کرلوگے؟ کالم لکھنے میں کون سا کمال ہے؟ جب چاہو، لکھ مارو۔ جب پورا ماحول لَسّی کا دیوانہ ہو رہا ہو تب کہیں سے پاؤ ڈیڑھ پاؤ دہی حاصل کرنے کی کوشش کرو تو پتہ چلے کِتنے پانی میں ہو!‘‘
موسم گرمی کا ہو اور بھری دو پہر میں دہی جیسی معمولی شے کا بھی اہتمام نہ ہو پائے یعنی گھر والوں کے سامنے گردن جُھک سی جائے اور پھر مرزا جیسے ''دوست‘‘ جلی کٹی سُناکر کلاس لینے پر تُلے ہوں تو طبیعت تاؤ کھا ہی جاتی ہے۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا۔ دہی کے حصول میں ناکامی کے بعد صرف بیسن لے کر گھر پہنچے تو اہل خانہ کا پارہ مزید چڑھ گیا۔ سب لَسّی کے مزے لُوٹنے کے لیے ہمارے لَوٹنے کے منتظر تھے! اِس کے بعد کیا ہوا، یہ کہانی پِھر سہی! بس اِتنا بتائے دیتے ہیں کہ ہم نے جب اہلیہ سے کہا کہ جُوئے شیر لانے کو کہتیں تو ہمارے لیے کچھ مشکل نہ تھا تو وہ بولیں کہ جُوئے شیر کا کیا کرنا تھا، اُسے جماتا کون؟
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ گرمی کی لہر کچھ دن برقرار رہے گی۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ گرمی حال چال پوچھتی رہے گی اور اہل خانہ لَسّی کے مزے لُوٹنے کے لیے بے تاب رہیں گے۔ یعنی دہی کی تلاش میں نکلنا پڑے گا۔ گویا ع
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں!
مرزا کا مشورہ ہے۔ ''بہتر یہ ہوگا کہ تم دہی جمانے کا ہُنر سیکھ لو۔ فی زمانہ کالم لکھنا ہتھیلی پر سرسوں جمانے جیسا ہے۔ معمولی سی ذہانت کے ساتھ جب تم اِس مرحلے سے گزر سکتے ہو تو دہی جمانا کون سا مشکل کام ہے؟ بہتر تو یہ ہے کہ ہر وہ ہُنر سیکھ لو جو اہلِ خانہ کی نظر سُرخرو کرتا ہو!‘‘
مرزا کا مشورہ صائب ہے۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ بازار سے مِٹّی کا تَسلا خرید ہی لائیں!