"MIK" (space) message & send to 7575

دِل جلانے کی بات کرتے ہو!

خاکسار نے 1981 ء میں ہندوستان کے مشہور شاعر کرشن موہن کو خط لکھا جس میں اُن سے آٹو گراف کی فرمائش کی۔ جواب میں اُنہیں جو خط لکھا اُس میں اپنے مجموعۂ کلام ''کمل کامنا کے‘‘ میں سے ایک قطعہ بھی شامل کیا جو کچھ یوں تھا ؎ 
جلوہ ہائے شباب کھو ہی گئے 
اپنے جذباتِ شوخ سو ہی گئے 
کرشن موہن! ہے من اُداس کہ ہم 
ہوتے ہوتے بزرگ ہو ہی گئے 
تب یہ خاکسار جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہا تھا۔ ایسے میں کیا اندازہ ہوسکتا تھا کہ ہوتے ہوتے بزرگ ہونا کیا ہوتا ہے۔ جوانی اپنے آپ میں ایک دُنیا ہوتی ہے۔ پھر بھلا کوئی کسی اور دُنیا کے بارے میں سوچے بھی کیوں؟ 
تین عشرے یُوں گزرے کہ کچھ پتا ہی نہ چلا۔ بیسویں صدی کے آخری اور اکیسویں صدی کے ابتدائی ماہ و سال اِس تیزی سے گزرے کہ ہوش اُسی وقت آیا جب ہوش آیا۔ 
خیر، عہدِ جوانی کے گزر جانے پر بھی کون یقین کرنا چاہتا ہے کہ عمر کی شام ہونے کو آئی ہے، سُورج ڈھل رہا ہے۔ جوانی وہ مَے ہے جس کا نشہ اُترنے پر بھی لوگ اُس کی یادوں سے مخمور رہنا چاہتے ہیں۔ 
دیکھتے ہی دیکھتے زمانہ ایسا پلٹا ہے اور سب کچھ ایسا تلپٹ ہوا ہے کہ ہمیں بس میں سیٹ آسانی سے مل جاتی ہے۔ آپ سوچیں گے یہ کیا بات ہوئی، یہ بس کی سیٹ کا ذکر کہاں سے ٹپک پڑا؟ بات یہ ہے جناب کہ ہم تو یہ باور کرنے کو تیار ہی نہ تھے کہ پُلوں کے نیچے سے پانی اچھا خاصا بہہ چکا ہے اور آں جہانی کرشن موہن والی بات ہم پر بھی صادق آنے لگی ہے۔ یہ تو لوگوں کی مہربانی یعنی سِتم ظریفی ہے کہ ہمیں بار بار یاد دلاتے ہیں کہ عہدِ جوانی رُخصت ہوا چاہتا ہے اور بُزرگی اب کایا کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ اب ہم جیسے ہی بس میں سوار ہوتے ہیں، کوئی نہ کوئی اللہ کا بندہ ہمارے سَر پر بُزرگی کا تاج رکھ دیتا ہے یعنی اپنی سیٹ چھوڑ کر ہمیں بیٹھنے کی دعوت دیتا ہے! 
بات تو بہت اچھی ہے کہ کوئی ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ کو سیٹ پیش کرے۔ پچیس تیس سال پہلے ہم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ اب جب بھی کوئی ہمیں سیٹ پیش کرتا ہے تو ہم اُس کا شکریہ تو ادا کرتے ہی ہیں مگر ساتھ ہی دِل پر چُھری سی چل جاتی ہے۔ کیوں نہ چلے؟ بھری بس میں آسانی سے سیٹ کا ملنا گویا اِس امر کا اعلان ہے کہ اب بُڑھاپے کا خیر مقدم کرنے کی گھڑی آن پہنچی ہے! 
سیٹ ملنے کی خوشی اُس وقت کافور ہوجاتی ہے جب کوئی نوجوان ہمیں دیکھ کر اپنی سیٹ سے اُٹھتے ہوئے کہتا ہے۔ ''بابا جی، یہاں بیٹھ جائیں۔‘‘ اِسے کہتے ہیں بکری نے دودھ دیا مگر مینگنیاں ڈال کر! حسرت سی ہے کہ کوئی یہ کہتے ہوئے سیٹ پیش کرے کہ بھائی صاحب! یہاں بیٹھ جائیے۔ مگر پھر خیال آتا ہے کہ فی زمانہ ''بھائی‘‘ کوئی ایسا منصب نہیں جو خوشی خوشی لیا یا دیا جائے!
صفدر آباد (ضلع شیخو پورہ) سے تعلق رکھنے والے نوجوان ثمران احمد ہمارے باقاعدہ قارئین میں سے ہیں۔ وہ آئے دن ہمیں ای میل کے ذریعے فیڈ بیک دیتے رہتے ہیں۔ ثمران احمد ایم فل کر رہے ہیں اور پڑھاتے بھی ہیں۔ اچھا ہے کہ مرزا تنقید بیگ کو ثمران احمد کا پتا نہیں ورنہ اُنہیں ورغلاتے کہ پڑھائی پر توجہ دو، ہر ایرے غیرے کا کالم پڑھنے سے گریز کیا کرو! مرزا کو جب بھی ہمارا کوئی قاری ملتا ہے وہ اُسے ورغلاکر ہمارا کالم پڑھنے سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ کا کرم ہے کہ ہماری کمپنی کی ''مشہوری‘‘ کو نقصان پہنچانے کی نیت سے کی جانے والی مرزا کی باتیں ہمیں کبھی کبھی اِتنا متنازع بنا دیتی ہیں کہ فریقِ ثانی مُتجسّس ہوکر پہلے سے بھی زیادہ توجہ اور شوق سے ہمارا کالم پڑھنے لگتا ہے! مرزا ہمارے بارے میں خواہ کچھ کہتے پھریں، ہم نہیں روکتے۔ کیوں روکیں؟ ع 
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟ 
ثمران احمد کا تازہ برقی نوازش نامہ ملا تو ہم مخاطب کرنے کے انداز ہی میں اُلجھ کر رہ گئے۔ ثمران احمد کو پتا نہیں کِس نے ورغلایا کہ اچھے خاصے طریق کو چھوڑ کر زمانے کی روش پر چل پڑے ہیں۔ پہلے وہ ہمیں ''ڈیئر سَر‘‘ یا پھر ''مائی ڈیئر خان صاحب‘‘ کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔ یہ اندازِ تخاطب ہمارے جسم میں ایک آدھ کلو خُون بڑھا دیتا تھا۔ اِس بار ثمران احمد نے ہمیں ''مائی ڈیئر انکل خان صاحب‘‘ کے الفاظ سے مخاطب کیا ہے۔ یہ جملہ ہمیں ایسا آکر لگا ہے جیسے گلو بٹ نے کسی گاڑی کے شیشے پر پولیس کا بخشا ہوا ڈنڈا دے مارا ہو! جس سے محبت کے اظہار کی توقع تھی اُس نے بھی حسبِ توفیق ''تابوتِ جوانی‘‘ میں ایک بڑی سی کیل ٹھونک دی! ثمران احمد نے انکل کا خطاب تو ایسی روانی سے دیا ہے جیسے دریا اپنی روانی میں سبھی کچھ بہاکر لے جاتا ہے۔ ؎ 
دریا کو اپنی موجوں کی طُغیانیوں سے کام 
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے! 
بہت سے لوگ لفظ uncle کو un-kal کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ گویا فریقِ ثانی سے کہا جارہا ہو کہ جناب آپ کا زمانہ لَد گیا۔ یعنی آج ہی آج کی بات ہے، آپ کے لیے کوئی کل نہیں بچا! اب یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ ثمران احمد کی نیت کیا تھی۔ ہمارے کالم کو سراہتے ہوئے کبھی کبھی وہ ایسے جملے لکھتے ہیں کہ گمان ہونے لگتا ہے ہم واقعی بڑے لِکھاری ہوگئے ہیں! مگر صاحب، یہ کیا؟ ہماری تحریر کو جوان قرار دینے والے نے ہمیں ''انکل‘‘ کی دہلیز پر لا کھڑا کیا۔ یہ بھی نہ سوچا کہ ہم مہینے میں دو بار کسی مشہور کمپنی کے ہیئر کلر کی مدد سے جوانی کا کھونٹا مضبوط کرتے رہتے ہیں تاکہ بڑھاپے کی ہوا ہمیں اُڑاکر نہ لے جائے۔ 
جو لوگ ہمیں بزرگ قرار دینے پر تُلے رہتے ہیں اُنہی سے شہ پاکر دفتری ساتھی اور چند احباب بھی بالوں کی سیاہ رنگت اور باقی پورے وجود کا موازنہ کرنے کے بعد کہتے ہیں۔ ''تھوڑا سا خرچہ تو ہوگیا لیکن چلیے، چیز تو اَچّھی بن گئی!‘‘ 
خدا جُھوٹ نہ بُلوائے (!)، ہمیں کوئی شوق نہیں خود کو جوان کہلوانے کا۔ ہماری جوانی کے معیار کا اندازہ لگانے کے لیے ہماری تحریر ہی کافی ہے۔ (کہنے میں کیا ہے!) مگر صاحب! یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بات بات پر اِنسان کو یاد دلایا جائے کہ بُڑھاپے کی منزل آچکی ہے یا آیا چاہتی ہے۔ عمر چُھپانے یا نہ بتانے کے معاملے میں لوگ خواتین کو خواہ مخواہ بدنام کرتے ہیں۔ اچھی خاصی بڑی عمر کے مَرد بھی ہمارے سامنے ''ننھے کاکے‘‘ بن جاتے ہیں اور اِس حرکت پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔ ہم سے دس سال بارہ سال بڑا شخص بھی سڑک پر ہمارے نزدیک سے گزرتے ہوئے کہتا ہے۔ ''انکل! ذرا سنبھل کے۔‘‘ 
پہلے ہم سوچا کرتے تھے کہ شاید ہم کسی گئی گزری کمپنی کا ہیئر کلر استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجے میں لوگ ہمارے بالوں کی اصلیت تک پہنچ کر ہماری عمر کا سُراغ پا لیتے ہیں۔ احباب کے مشورے پر ہیئر کلر اورہیئر ڈریسر دونوں کو بدل کر دیکھ لیا۔ کچھ افاقہ نہ ہوا۔ اب خیال آتا ہے کہ سوال ہیئر کلر بدلنے کا نہیں، (لوگوں کی) کھوپڑی یعنی سوچ بدلنے کا ہے۔ اب لوگوں کی سوچ بدلنے کے بکھیڑے میں کون پڑے؟ اِس جھمیلے میں تو عمر گزر جائے گی اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اِنسان کی سوچ کہاں بدلتی ہے؟ مرزا تنقید بیگ دس برس سے کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارا لکھنا چُھڑوا دیں۔ طنز کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ مگر وہ طنز سے باز آئے نہ ہم نے لکھنا چھوڑا۔ 
کبھی کبھی جی میں آتا ہے کہ جو لوگ ہمیں ابھی سے انکل اور بزرگ قرار دینے پر تُلے ہیں اُنہیں باری باری اپنے کالم میں اُسی طرح رَگڑا دیں جس طرح فوج میں رنگروٹوں کو دیا جاتا ہے۔ مگر ہم آخر کس کس کو رَگڑا دیں گے؟ فی الحال ثمران احمد پر اکتفا کرتے ہیں۔ اُمید ہے کہ دوسروں کی نصیحت کے لیے اِتنا ہی کافی ہوگا۔ دوستو! اگر پھول نہیں بھیج سکتے تو نہ بھیجو، بات بے بات یہ ''انکلیت‘‘ کا کانٹوں بھرا تاج تو ہمارے سَر پر نہ دھرو کہ ابھی تو ہم جوان ہیں! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں