"MIK" (space) message & send to 7575

زور کا جھٹکا، دِھیرے سے لگے!

بالی وڈ کی سُپر ہٹ فلم ''دبنگ‘‘ کو ہٹ کرانے میں کئی عوامل نے مرکزی کردار ادا کیا۔ سب سے زیادہ مشہور تو وہ گانا ہوا جس میں مُنّی کے بدنام ہونے کا راز فاش کیا گیا تھا! مگر خیر، فلم کی ہیروئن سوناکشی سنہا کی کارکردگی بھی کم نہ تھی۔ اُس کا ایک جُملہ تو ایسا ہٹ ہوا کہ ہیرو سلمان خان بھی دنگ رہ گیا۔ ایک سین میں سوناکشی سلمان خان سے کہتی ہے۔ ''تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا صاحب! پیار سے لگتا ہے!‘‘ 
بات عجیب ہے۔ کیا پیار بھی ایسا جذبہ ہے جس سے خوف کھایا جائے؟ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ اہلِ جہاں کی خباثت اور کمینگی کا کچھ غم ہے نہ پروا، ہاں اِس بات سے دِل خوف محسوس کرتا ہے کہ اگر کہیں دنیا بھر میں شرافت عام ہوگئی تو کیا ہوگا! گویا ؎ 
لائی ہے کس مقام پہ حالات کی روش 
اپنی بقاء کے خوف سے لرزاں ہے زندگی! 
پانی اور بجلی کو قابو میں رکھنے پر مامور عابد شیر علی نے بھی کچھ ایسی ہی بات کہی ہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ بجلی کی قِلّت کو کیا روئیے، سسٹم ہی میں خرابیاں ہیں۔ اور خرابیاں بھی اِتنی اور ایسی کہ اگر کبھی پروڈکشن 15 ہزار میگا واٹ سے زائد ہوجائے تو پورا سسٹم لرزنے لگتا ہے! 
یہ بیان پڑھ کر ہم بھی لرز کر رہ گئے۔ ویسے تو خیر عابد شیر علی کے نام کا وسطی حصہ بھی ایسا ہے کہ اُسے سُن کر کمزور دِل والے تھر تھر کانپنے لگتے ہیں۔ جب سے عابد شیر علی کو بجلی و پانی کی وزارت کا جونیر وزیر بناکر سینئر وزیر کو گوشہ نشینی کی ہدایت کی گئی ہے تب سے وزارت کے معاملات کم از کم بیانات کی حد تو، بجلی کی پیداوار کے بغیر، زور دار جھٹکے دے رہے ہیں! شریف برادران سے قریبی نسبت کا ایسا اثر ہے کہ موصوف اپنی مرضی کے مطابق کچھ بھی کہہ دیتے ہیں اور پھر جب میڈیا والے ناک میں دم کرتے ہیں تو وہ وضاحت کے گھوڑے پر سوار ہوکر اُسے اور میڈیا والوں کو سرپٹ دوڑاتے رہتے ہیں! 
شعبان المعظم کے اوائل ہی سے وزیر مملکت برائے پانی و بجلی نے ڈنکے کی چوٹ پر کہنا شروع کردیا تھا کہ رمضان المبارک میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم سے کم ہوگا اور سَحر و افطار کے اوقات میں تو بجلی بالکل نہیں جائے گی۔ لوگوں کا ماتھا وہیں ٹھنک گیا تھا۔ سب کو اندازہ ہوچلا تھا کہ ماہِ صیام میں بھی بجلی کی قلِّت برقرار رہے گی۔ 
عوام کے خدشات درست ثابت ہوئے۔ عابد شیر علی نے رمضان کے ابتدائی ایام ہی میں تسلیم کرلیا ہے کہ اُن کا اندازہ غلط تھا۔ یعنی رمضان المبارک میں بھی لوڈ شیڈنگ ہوتی رہے گی اور ملک کے تمام حصوں کو سَحر و افطار میں بیک وقت بجلی فراہم کرنا ممکن نہ ہوگا۔ عابد شیر علی نے جس ڈنکے کی چوٹ پر لوڈ شیڈنگ کو کنٹرول کرنے کا دعویٰ کیا تھا وہ تو پتا نہیں کہاں گیا، ہاں چوٹ ضرور عوام کو سہنی پڑی ہے! جو حال بجلی کے سسٹم کا ہے وہی ہمارا ہے۔ ہماری توانائی بھی نُچڑتی جارہی ہے۔ کچھ تو روزہ داری سے جسم میں ناتوانی ہے اور کچھ حالات کی روش کے ہاتھوں قلم پر ضُعف طاری ہے۔ ایسے میں اِتنی ہمت کہاں کہ عابد شیر علی کی کسی بات پر نقد و نظر کا قصد کیجیے۔ جناب کو خانوادۂ اقتدار سے نسبت ہے اور اِدھر ہم ہیں کہ ہمارے وجود کا اختیار قلم چلانے تک محدود ہے۔ اور قلم ہی تو ہے، کوئی تلوار تو ہے نہیں کہ لوگ چلتا دیکھ کر جان کی امان چاہیں! ہماری کیا مجال کہ میاں صاحب کے قرابت دار پر کوئی چوٹ کریں، کوئی جُملہ چُست کریں! ہاں، ایک ذرا سا گِلہ ہے جو غالبِ خستہ کے الفاظ میں ہماری زبان پر آگیا ہے۔ ؎ 
تیرے دل میں گر نہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہ 
تو نے پھر کیوں کی تھی میری غم گساری ہائے ہائے 
کیوں مری غم خوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال 
دشمنی اپنی تھی میری دوست داری ہائے ہائے 
ایک عشرے کے دوران پانی اور بجلی کے جتنے بھی وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت ہوئے ہیں اُن کی بڑھکیں سُن سُن کر پنجابی فلموں کے رائٹرز اپنے آپ سے شرمندہ دکھائی دیئے ہیں! بجلی نے اہلِ وطن سے ایسی کِھلواڑ کی ہے کہ دِل و دماغ کا باجا، بلکہ بینڈ بج گیا ہے۔ اُس زمانے کو گزرے ہوئے زمانے گزر گئے جب لوڈ شیڈنگ سے دِل و دماغ پر تازیانے برسا کرتے تھے۔ فی زمانہ کہیں کہیں تو لوڈ شیڈنگ اِتنی زیادہ ہے کہ لوگ عادی ہوکر اُسے زندگی کا حصہ بنا بیٹھے ہیں۔ اب بجلی کا کبھی کبھار آ جانا بُرا لگنے لگا ہے! گویا ع 
اِتنے مانوس صیاد سے ہوگئے 
اب رہائی ملے گی تو مرجائیں گے 
جو لوڈ شیڈنگ کو اپنا بنا بیٹھے ہیں اُن کے جینے میں زیادہ مشکلات نہیں ہوتیں۔ مرنے میں البتہ اُلجھنیں آجاتی ہیں۔ ایسے لوگوں کا دَم نکل رہا ہو تب بھی اُنہیں لوڈ شیڈنگ کی زیادہ فکر لاحق رہتی ہے۔ ہجر کی شب سے مکمل مانوس ہو جانے پر کچھ کچھ ایسی ہی کیفیت سے حکیم مومن خاں مومنؔ بھی دوچار ہوئے تھے۔ ؎ 
تو کہاں جائے گی؟ کچھ اپنا ٹھکانہ کرلے! 
ہم تو کل خوابِ عدم میں، شبِ ہجراں!، ہوں گے
بجلی سے محروم رہنے والوں نے اپنے آپ کو حالات کے مطابق تبدیل کرلیا ہے۔ اُن کی حالت کو عدیمؔ ہاشمی ہی نے یوں بیان کیا ہے ؎ 
آکے بیٹھو تو کبھی تم مِری ویرانی میں 
کتنے سامان ہیں اِس بے سروسامانی میں! 
اگر کبھی پانی و بجلی کے وزیر بیس بائیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا مزا چکھنے والے کسی علاقے کا دورہ کرتے ہیں تو وہاں کے مکین (ایک بار پھر بشکریہ عدیمؔ ہاشمی!) زبانِ حال سے کہہ رہے ہوتے ہیں ؎ 
آج بھی دیکھ لیا اُس نے کہ میں زندہ ہوں 
''آج بھی ڈال دیا ہے اُسے حیرانی میں!‘‘ 
بجلی جیسی بنیادی نعمت سے محروم رہ جانے والوں میں اشتعال کا پایا جانا حیرت انگیز نہیں۔ مگر حیرت انگیز تو یہ بات ہے کہ ہم نے اُن میں سے بہت سوں کو انتہائی صابر و شاکر پایا ہے۔ استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ بجلی نہ ہونے سے ٹی وی نہیں چلتے یعنی پتا نہیں چلتا کہ دُنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ گویا کہیں کا کوئی دُکھڑا بے چاہے بھی کان میں نہیں پڑتا اور ذہن میں ذَرّہ بھر خلفشار پیدا نہیں ہوتا! یعنی اپنا بَلا سے ؎ 
بازی کسی نے پیار کی جیتی یا ہار دی 
جیسے گزر سکی یہ شبِ غم گزار دی
قصہ مختصر یہ کہ جب جب بجلی نہیں ہوتی، زور کا جھٹکا دِھیرے سے لگتا ہے اور لوگ قدرے حواس میں رہتے ہیں۔ فی زمانہ اِتنا بھی غنیمت ہے ورنہ حکومتیں کب چاہتی ہیں کہ لوگ حواس میں رہیں؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں