پاکستانیوں پر اِس وقت حالات نے ایسا ''وختا‘‘ ڈالا ہوا ہے کہ کوئی بھی چیز اِنہیں کمتر ہونے کا احساس دِلا سکتی ہے۔ زمانے بھر کے ناکارہ افراد بھی ہم سے بازی لے جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ بہت سے معاملات میں ہم اور ہماری حکومت وضاحت ہی کرتی رہ جاتی ہے اور یارانِ تیز گام منزل کو جا لیتے ہیں۔ عربی میں ایک کہاوت ہے کہ وقت بُرا چل رہا ہو تو اونٹ پر بیٹھے ہوئے شخص کو بھی کُتّا کاٹ لیتا ہے! ہم پر اِس وقت یہ اونٹ اور کُتّے والا وقت آیا ہوا ہے اور کچھ ایسا آیا ہوا ہے کہ جانے کا نام نہیں لے رہا۔
کوئی بھی معاملہ ہمیں کمتر ہونے کے احساس سے دوچار کرسکتا ہے۔ دور کیوں جایئے، ہماری ہی مثال لیجیے۔ جب ہم نے لکھنا شروع کیا تھا تو خود پر پتا نہیں کیا کیا ناز تھا۔ اُس وقت سیاست میں طاہرالقادری صاحب کا نام و نشان بھی نہ تھا اور اُن کے منہ سے کسی نے انقلاب کی اشتہا انگیز باتیں بھی نہیں سُنی تھیں، تب ہم اِس گمان میں مبتلا تھے کہ ہمارے لکھنے سے کوئی نہ کوئی ''انقلاب‘‘ ضرور برپا ہوگا۔ ہماری سوچ غلط نہ تھی۔ ایک ''انقلاب‘‘ گھر کی حدود میں ضرور برپا ہوا۔ ہمارے مسلسل لکھنے سے مشتعل ہوکر والد نے لتاڑنا شروع کیا کہ یہ کیا ہر وقت انٹ شنٹ لکھتے رہتے ہو، کوئی ڈھنگ کا کام کرو تاکہ لوگ احترام کی نظر سے دیکھیں! دوسرا ''انقلاب‘‘ یہ تھا کہ جب ہم نے لوگوں کو انٹ شنٹ لکھ کر نام اور دام کماتے دیکھا تو لکھنے لکھانے کے عمل کی رفتار گھٹانے کا فیصلہ کیا!
سولہویں سال میں لوگ بالعموم کسی حسین سے نین ملاتے ہیں، دِل لگاتے ہیں۔ ہم نے شعر و سُخن سے رسم و راہ پیدا کی۔ دسویں جماعت میں تھے کہ شعر کہنا شروع کیا۔ لوگوں نے (کیا پتا سازش کے تحت!) سراہنا شروع کیا تو دماغ پارے کی طرح شُوٹ کرتے ہوئے ساتویں آسمان پر جا پہنچا۔ ذہن میں ہر وقت یہ گمان گردش کرتا رہتا تھا کہ ہم ضرور کچھ نہ کچھ بن کے دم لیں گے۔ سولہ سال کی عمر میں شعر کہنا کیا کم ''کمال‘‘ تھا! مگر جب ہم نے مشاعروں میں شُعراء کو گائیکی کی بدولت کامیاب ہوتے دیکھا تو اپنی آواز کی بے نوائی کا بھرپور شدت سے احساس ہوا۔ یوں ہم نے شاعری پر بھی ہاتھ ہلکا رکھنے کا فیصلہ کیا۔
اب خیال آتا ہے کہ ہم نے ڈھائی تین عشروں تک جیسے تیسے صحافت کی خدمت کرکے کیا تیر مار لیا۔ اشرف المخلوق ہونے کے باوجود ہم اپنی ذات کی حد تک بھی کوئی انقلاب برپا نہ کرسکے۔ ہم سے اچھی تو اللہ کی دیگر مخلوق ہے جو کسی نہ کسی حد تک قوم کی خدمت کر رہی ہے۔ بکروں ہی کی مثال لیجیے۔ اُن کے دم سے کِتنے میلوں میں کِتنی رونق ہے۔ بچپن سے سُنتے آئے ہیں کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ مگر اِس ملک میں معاملہ اب اِس محاورے کے برعکس ہے۔ دانہ اور چارا تو ڈال دیا جاتا ہے مگر کوئی بکری کو گھاس ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔ دُھوم ہے تو بکرے کی، شہرہ ہے تو بکرے کا، لشکارے ہیں تو بکرے کے۔ اور، ظاہر ہے، چُھری ہے تو بکرے کے حلق کا مُقدّر۔
یہ تو ہم ہیں جو مرزا غالبؔ کی زبانی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ ؎
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا!
بکرا جان دیتا ہے تو حق ادا ہو جاتا ہے۔ ہر بکرا فخر سے سَر اُٹھاکر کہہ سکتا ہے کہ اُس کی گردن پر پِھرنے والی چُھری بہت سوں کو زندگی عطا کرتی ہے۔ ذرا غور تو کیجیے کہ اپنی خیر منانے میں کامیاب نہ ہونے والے بکرے کیسے کیسے کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ فٹ پاتھ پر سجائے جانے والے دَستر خوان پر کھانے والے صدقے کے بکروں کا گوشت کھا کھاکر پروان چڑھ رہے ہیں۔ بکروں کی عظمت ملاحظہ فرمائیے کہ خود جان سے جاتے ہیں مگر اُن کے مزے کراتے ہیں جو حالات کے ہاتھوں جان سے جاچکے ہیں۔ اِس ملک میں طُرفہ تماشا ہے کہ رات دن ایک کرکے ہر مہینے بارہ پندرہ ہزار روپے کمانے والا بکرے کا گوشت نہیں کھا سکتا۔ اور جو لوگ کچھ نہیں کرتے وہ فٹ پاتھ پر خوب چوڑے ہوکر بیٹھتے ہیں اور بکرے کی بوٹیاں اُڑاتے ہیں! یعنی یہ طُرفہ تماشا بھی بکرے کے دم سے ہے۔ کیا یہ کُھلا تضاد نہیں!!
اور اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ صدقے کی مد میں گردن پر چُھری پِھرواکر بکرے صرف غریبوں کا پیٹ بھرتے ہیں تو یہ آپ کی خام خیالی ہے۔ کیا آپ کو یاد نہیں کہ اِس ملک میں جمہوریت اور صدارت کا تسلسل بھی بکروں کا احسان مند رہا ہے! سابق صدر آصف علی زرداری کے دور میں ایوانِ صدر میں اور بہت سی مخلوق کے پہلو بہ پہلو بکروں کا بھی مستقل قیام تھا۔ شنید ہے کہ آصف زرداری صاحب اپنی صدارت برقرار رکھنے کے لیے روزانہ ایک سیاہ بکرا ذبح کیا کرتے تھے۔ محاورہ ہے کہ مُرغی جان سے گئی، کھانے والے کو مزا نہ آیا۔ یہ بات آصف زرداری اور بکروں کے حوالے سے نہیں کہی جاسکتی؟ بکرے جان سے گئے اور اُنہیں پورا مزا دے گئے!
بہت سوں کو حیرت ہوتی تھی کہ کیا بکروں کی قربانی سے اقتدار چل سکتا ہے۔ ارے صاحب، قربانی کے بکروں ہی کی بدولت تو یہ نظام چل رہا ہے! اور ویسے بھی اقتدار میں رہنے والوں اور بکروں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جنہیں اقتدار کو ہر صورت برقرار رکھنا ہو وہ قربانی کے بکروں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جنہیں ہر شے سے بڑھ کر اپنے اقتدار سے محبت ہو وہ اپنی چند بوٹیوں کے لیے پورا بکرا ذبح کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے! اگر حکمرانوں نے یہ روش نہ اپنائی ہوتی تو آج پورا ملک قربانی کے بکرے میں تبدیل نہ ہوا ہوتا۔
جو کچھ ماضی قریب ایوانِ صدر میں ہوا کرتا تھا وہ اب پورے ملک میں جگہ جگہ ہو رہا ہے۔ خیراتی اداروں نے ہر عمر اور سائز کے بکرے باندھ رکھے ہیں۔ دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بھی لوگ صدقے کی مد میں بکرے کٹواتے ہیں۔ مگر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ معاشرے میں جب بے ایمانی بڑھ جاتی ہے تو سزا کا خوف بہت سے لوگوں کو بکروں تک لے آتا ہے اور وہ اپنی بَلا بکروں سے سَر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایوانِ صدر میں بھی بکرے اِسی تصور کے تحت ذبح کئے جاتے ہوں گے۔
عید الاضحی کی آمد پر ہم نے بہت سے لوگوں کو قربانی کے جانور خاصے اناڑی پن سے خریدتے دیکھا ہے۔ مویشی منڈی میں سودا ہو رہا ہو تو کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ گائے یا بکرے کو گدھا خرید رہا ہے۔ ہم جب بھی قربانی کا جانور خریدنے مویشی منڈی گئے ہیں، قدم قدم پر اپنے آپ کو قربانی کا بکرا محسوس کیا ہے! مگر خیر، یہ بھی صرف کہنے کی بات ہے۔ شادی کے بعد ہر شخص خود کو قربانی کا بکرا سمجھتا ہے مگر اُس احترام سے بہر حال محروم ہی رہتا ہے جو قربانی کے بکروں کے حصے میں آتا ہے!
بکرے کہاں نہیں ہیں؟ اب سبزی کے ٹھیلے پر بھی بکرے خریداری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ایسے کہ حالات کی چَکّی میں پیسے جانے والے لوگ جب سبزی خریدنے کا ارادہ کرتے ہیں تو دام سُن کر پہاڑی بکرے جیسا مُنہ نکل آتا ہے! کبھی کبھی تو ہم نے بھی ٹھیلے پر سبزی یا پھل کے دام سُن کر سوچا ہے کہ کاش ہمارے سینگ ہوتے اور ہم وہ سینگ ٹھیلے والے کے پیٹ میں گھسیڑ دیتے!