"MIK" (space) message & send to 7575

شاپنگ رے شاپنگ!

ماہِ صیام رحمتوں اور برکتوں سے عبارت ہے۔ شیاطین مُقیّد رہتے ہیں تاکہ جو رب سے لَو لگانا چاہیں اُنہیں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اہلِ ایمان رب کو راضی کرکے مُرادیں پاتے ہیں۔ مگر اہلِ ایمان کا معاملہ صرف رب کو راضی کرلینے پر ختم نہیں ہوجاتا۔ اُنہیں اہلِ خانہ کو بھی تو راضی کرنا چاہتا ہے۔ کہتے ہیں رُوٹھے رب کو منانا آسان ہے، رُوٹھے یار کو منانا زیادہ مشکل ہے۔ اور جناب، رب کو بھی کیا منانا؟ وہ کب ہم سے رُوٹھا ہوا ہے؟ بس، یہ ہے کہ ہم بہک جاتے ہیں یا اُسے بھول جاتے ہیں تو وہ ذرا سا رنجیدہ ہو جاتا ہے۔ اور چند ہی سجدوں میں پھر مَن جاتا ہے! 
ہاں، اہلِ ایمان کی زیادہ سخت آزمائش تو یہ ہے کہ عید کی تیاریوں کے حوالے سے اہلِ خانہ کو کس طور راضی کریں، کیسے منائیں۔ اور اہلِ خانہ کو بھی ہم رسماً ہی بیچ میں ڈال رہے ہیں، زحمت دے رہے ہیں۔ اصل معاملہ تو اہلیہ کو منانے کا ہے۔ یہ ایک رکاوٹ عبور کرلی تو سمجھ لیجیے پورا میدان آپ کا ہے۔ ؎ 
حوصلہ ہو تو کیا نہیں ہوتا 
ہاں مگر حوصلہ نہیں ہوتا! 
ماہِ صیام رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ ساتھ اہل ایمان کی آزمائش کا بھی دور ہے۔ روزہ ایک آزمائش ہی ہے جس کے نتیجے میں جسم و جاں کو راحت نصیب ہوتی ہے۔ روزے کی غایت یہ ہے کہ دن بھر جسم کو بھوک اور پیاس سے نبرد آزما رکھ کر اُس کے ہر نظام کی بھرپور تہذیب و تطہیر کا اہتمام کیا جائے۔ ہم نے کیا غضب کا مزاج پایا ہے کہ روزے کی غایت کو پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ جو جسم دن بھر بھوک پیاس سے لڑتے لڑتے اپنی بھرپور تطہیر کرچکا ہوتا ہے اور بہتری کی طرف نئے سِرے سے سفر شروع کرنے ہی والا ہوتا ہے کہ اُسے ہم دوبارہ اشیائے خور و نوش کے سمندر میں غرق کردیتے ہیں! یعنی اِدھر افطار کا سائرن بجا اور اُدھر گئی بھینس پانی میں! اور بھینس کیا پانی میں جاتا ہے، سارا پانی بھینس میں چلا جاتا ہے! 
اب آئیے ماہِ صیام کے دیگر معاملات کی طرف۔ پہلے عشرے کے دوران بازاروں کی رونقیں ابھی جوبن پر نہیں آئی ہوتیں اِس لیے عبادت زیادہ ہوتی ہے۔ دوسرا عشرہ شروع ہوتا ہے تو خواتین کی پریشانیوں کا بھی آغاز ہوتا ہے۔ فکر لاحق ہوتی ہے کہ کس نے کیا بنوایا ہے تاکہ اُس کا بھرپور توڑ پیدا کیا جاسکے! اور جب یہ سوچ بیدار ہو جائے تو پھر کیسی عبادت، کہاں کے وظائف؟ رہا شوہروں کا معاملہ تو جناب! جو وقت عبادات اور اوراد و وظائف میں صرف ہونا چاہیے وہ اِس فکر میں غلطاں رہتے ہوئے ضائع ہو جاتا ہے کہ اہلِ خانہ کے لیے عید کی تیاریوں کو کس طور حتمی شکل دی جائے۔ عید کی تیاریوں میں سب سے اہم مرحلہ ہے اُنہیں حتمی شکل دینے کا۔ اور یہ حتمی شکل ہے کہ درشن دینے کا نام نہیں لیتی! گویا ع 
اِک مُعمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا 
ماہِ صیام کا تیسرا عشرہ اپنے ساتھ جہنم کی آگ سے نجات کی نوید لاتا ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ ہم نے وعید کا بھی اہتمام کر ڈالا ہے۔ یعنی اِس عشرے کو شاپنگ کے جہنم کی آگ کے سامنے لا کھڑا کیا ہے! رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ ختم ہوتے ہوتے بازاروں کی رونقیں اِس طرح بڑھنی شروع ہوتی ہیں کہ پھر گھر میں جی نہیں لگتا۔ جس طرف جا نکلیے، میلے کا سماں ملتا ہے۔ ایسے میں تیسرا عشرہ شروع ہوتے ہی گھر میں بیٹھ رہنا ایک دو دن تو مکروہ لگتا ہے اور اِس کے بعد تو حرام کے درجے میں پہنچتا دکھائی دیتا ہے! 
جس طرح ساری خدائی ایک طرف اور جورو کا بھائی ایک طرف، بالکل اُسی طرح ہر طرح کی شاپنگ ایک طرف اور عید کی شاپنگ ایک طرف، بلکہ ہر طرف! عید قریب آتی ہے تو ہر علاقہ شاپنگ سینٹر کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کرنے کیلئے اب شاپنگ کے سِوا کوئی کام نہیں رہ گیا۔ خواتین کے لیے اِس سے زیادہ شاندار موقع اور کوئی نہیں ہوتا کہ جو چاہیں، عید کی شاپنگ کے نام پر کر گزریں۔ جو کسر اُنہوں نے سال بھر ہرگز نہیں چھوڑی ہوتی وہ بھی پوری کرنے پر تُلی رہتی ہیں! جیسے کسی نے شوقِ ناتمام کا پَِٹّا کھول دیا ہو! شوہر بے چارے (چارہ نہ کہ چارا!) مجبور ہوتے ہیں کہ سب کچھ ہنستے ہنستے سہیں۔ اگر عید کی شاپنگ میں ذرا بھی رخنہ ڈالیں تو عید الاضحٰی تک طعنے سُننے پڑتے ہیں۔ 
شاپنگ کا ٹنٹا ختم ہو تو کیسے ہو؟ خواتین کی نفسیات سے کِھلواڑ کے لیے دکاندار ورائٹی ہی اِتنی رکھتے ہیں کہ وہ بے چاری انتخاب کے مرحلے میں پھنس کر رہ جاتی ہیں! فیصلے کی قوت دَم توڑ دیتی ہے۔ صرف ایک فیصلہ حدِ امکان میں باقی رہ جاتا ہے، یہ کہ جو کچھ بھی پسند آتا جائے وہ لے لیا جائے! خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے خوب کہا ہے۔ ؎ 
ہے جُستجو کہ خوب سے ہے خُوب تر کہاں 
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں 
بعض خواتین نے تو اب انتخاب کے معاملے کو بھی حرام کے درجے میں رکھ دیا ہے۔ یعنی وقت ضائع مت کرو اور جب تک پرس خالی نہ ہوجائے، خریدتی چلی جاؤ۔ 
ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک چیز خریدی جاچکی ہوتی ہے مگر کسی اور دکان میں اُسی کا نیا ورژن دیکھ کر خریدے بغیر چارہ نہیں ہوتا! ع 
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے!
بعض خواتین کو آخری عشرے کے آخری دنوں میں شوہر پر ترس آتا ہے اور وہ شاپنگ کا گراف تھوڑا نیچے رکھنے کا سوچتی ہیں مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلتا ہے۔ حالیؔ ہی نے کہا ہے ع 
دِل چاہتا نہ ہو تو دُعا میں اثر کہاں؟ 
عید کی شاپنگ کے خاصے منفرد لشکارے ہیں جن کا مقابلہ سال بھر کی جانے والی شاپنگ کر ہی نہیں سکتی۔ عام دنوں میں ہونے والی شاپنگ انسان کو اَدھ مُوا کرکے چھوڑ دیتی ہے، عید کی شاپنگ دل سے دھڑکن اور رگوں سے خُون تک نچوڑ لیتی ہے۔ خواتین چاند رات تک شوہروں کی جیب اور صبر دونوں کو آزماتی رہتی ہیں۔ اور ایک جیب یا صبر پر کیا موقوف ہے، اُن غریبوں کا تو پورا وجود ہی آزمائش کی بَھٹّی میں تپتا رہتا ہے۔ جب تک شوہروں کے دَم میں دَم دکھائی دیتا ہے، خواتین بھی متحرک رہتی ہیں۔ مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ شوہروں کو منطقی انجام تک پہنچاکر دم لیا جائے۔ بقولِ غالب ؔ ع 
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے؟ 
اور دوسری طرف بے چارے شوہر ایک بازار سے دوسرے بازار اور دوسرے سے تیسرے کی طرف سفر کے دوران انتہائے ضبط کی تصویر بنے رہتے ہیں۔ کل سَحری کے وقت جس مقام سے لَوٹے تھے آج افطار کے بعد پھر وہیں کھڑے ہیں۔ ؎ 
ہے انتہائے یاس بھی اِک ابتدائے شوق 
پھر آگئے وہیں پہ چلے تھے جہاں سے ہم! 
عید کی شاپنگ کے دوران جو بھرپور ولولہ دکھائی دیتا ہے ہمیں وہی جوش اور ولولہ قوم کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی درکار ہے۔ گویا ملک بھی تعمیر و ترقی کی منزل تک پہنچ سکتا تھا، اگر رمضان المبارک بارہ مہینوں پر محیط ہوتا! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں