عید آئی اور گزر بھی گئی۔ گلے مل مل کر مبارک باد دینے کے دن بیت گئے۔ اب عید الاضحیٰ آئے گی۔ مگر اِس سے قبل انقلاب کا انتظار ہے۔ اہلِ وطن نے ہر موسم اور ہر موقع کو دِل پشوری کے ذریعے میں تبدیل کرلیا ہے۔ انسان کے لیے بہتر تو یہی ہے کہ خود کو حالات کے مطابق تبدیل کرلے یا پھر حالات کو اپنی مرضی کے آئینے میں دیکھے۔ درد کا علاج ممکن نہ ہو تو درد ہی کو دوا سمجھ لینے میں کیا مضائقہ ہے؟ غالبؔ نے کہا تھا ع
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
اور اگر یہی بات ذرا فلمی انداز سے کہیں تو ؎
دِل کی تنہائی کو آواز بنالیتے ہیں
درد جب حد سے گزرتا ہے تو گالیتے ہیں
ایک طرف عوام ہیں جو درد کے حد سے گزرنے پر اُسے دوا بنانے پر تُلے ہیں اور دوسری طرف قوم کے راہ نُما ہیں جنہیں اور کچھ نہیں سُوجھتا تو اپنے کسی پُرانے، پھٹے ڈھول کو کباڑ خانے سے نکالتے ہیں اور جھاڑ پونچھ کر خوب پیٹتے ہیں۔ لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ راہ دکھانے کے نام پر ایک بار پھر بے وقوف بنانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔
ڈیڑھ دو ماہ سے ڈاکٹر طاہرالقادری اور اُن کے رفقا نے ''انقلاب‘‘ کا راگ اِس تواتر سے الاپا ہے کہ اب تو لوگوں کو مَتلی سی ہونے لگی ہے! سُننے والے اُوب گئے ہیں مگر ڈاکٹر طاہرالقادری اور اُن کے رفقا کی ہمت کو داد دیجیے کہ وہ تھکے ہیں نہ اُکتائے ہیں۔ اِس بات کی بھی داد دینی پڑے گی کہ جو فلم گزشتہ برس شدید ناکامی سے دوچار ہوئی تھی اُسے چند نئے مکالموں اور ایڈیٹنگ کے ساتھ پھر ریلیز کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ اِس مرتبہ بھی اسلام آباد کے تھیٹر کا انتخاب کیا گیا ہے۔ مشکل ہے تو بس اِتنی کہ اِس مرتبہ عمران خان بھی اپنی فلم کے لیے میدان میں اُترنے کو ہیں۔ فلم کی جگہ آپ لفظ ڈراما بھی استعمال کرسکتے ہیں۔
اہلِ وطن یہ دیکھنے کو بے قرار ہیں کہ کون کیا کر دکھاتا ہے۔ ایک طرف ''نیا پاکستان‘‘ کے نام پر شور و غوغا ہے اور دوسری ''انقلاب‘‘ کا غلغلہ ہے۔ اِس سیاسی دکانداری میں کون کیا پیش کر رہا ہے، یہ جاننے کی سبھی کو جلدی اور بے تابی ہے۔ سبھی جاننا چاہتے ہیں کہ ''انقلاب اور ''نیا پاکستان‘‘ کے نام پر متعلقہ سیاسی جادوگر اِس بار ٹوپی سے کون سا کبوتر اُڑاتے ہیں یا کیسا انڈا نکال کر دِکھاتے ہیں!
مرزا تنقید بیگ کو یہ سب کچھ بہت عجیب لگتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اب سیاسی ڈراما بازی بند ہو اور لوگوں کو سُکون کا سانس لینے کا موقع ملے۔ ہم اُنہیں یاد دلاتے ہیں کہ اُن کی سوچ زمینی حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ اُن کا خیال یہ ہے کہ عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عوام صورت حال کو ''انجوائے‘‘ کر رہے ہیں۔ بے وقوف بنانے کی تمام حدیں کب کی گزر چکیں۔ اب تو مرحلہ درد کے دوا میں تبدیل ہوجانے کا ہے۔
عمران خان، ڈاکٹر طاہرالقادری، شیخ رشید اور چند دیگر نابغۂ روزگار قسم کی شخصیات کے دم سے سیاسی میلے کی رونق ہے اور اہلِ وطن بھرپور لطف کشید کرتے ہیں۔ مرزا چاہتے ہیں کہ یہ لوگ ایک طرف بیٹھ رہیں۔ ہم اُنہیں باور کراتے کراتے تھک چکے ہیں کہ ایسی شخصیات گوشہ نشین ہوگئیں تو سیاسی ہلچل اور ''جمہوری تحرّک‘‘ کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔
ایک طرف جشنِ آزادی ہے اور دوسری طرف آرڈر پر مال تیار کرنے والوں کی طرف سے دھما چوکڑی کی منصوبہ سازی۔ حکومت بھی کمر کَس کر میدان میں اُترتی دکھائی دیتی ہے۔ ابھی ابھی ماہِ صیام گزرا ہے جس میں اشیائے صرف کی قیمتوں کے حوالے سے خاصی ہلچل رہی اور اب حکومت ''ماہِ آزادی‘‘ منانے پر کمر بستہ دکھائی دیتی ہے۔ آگ پر پانی ڈالنے کے بجائے لوہے کو لوہے سے کاٹنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ حکومت کی صفوں میں جو ''عقاب‘‘ بیٹھے ہیں وہ وزیر اعظم کو مشورہ دے رہے ہیں کہ بُرد باری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے حریفوں کو للکارا جائے۔ ؎
اِدھر آ سِتم گر! ہُنر آزمائیں
تو تیر آزما، ہم جِگر آزمائیں
عوام حیران ہیں کہ اگر حریفوں نے اپنا ہُنر آزمانے کا فیصلہ کیا بھی ہے تو حکومت جواب میں تصادم کی راہ پر کیوں چلنا چاہتی ہے۔ یہ تو اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ ہم اِس مرحلے پر عوام کو یاد دلادیں کہ ن لیگ کے لیے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا کسی بھی لحاظ سے نئی بات نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ گزشتہ دونوں ادوارِ حکومت اُس نے اپنے پاؤں پر کلہاڑے مار کر ختم کئے تھے!
سیاسی اور معروضی حالات کا موسم بہت عجیب ہے۔ فضا سوگوار ہے۔ جو شاندار اور جوشیلے نغماتِ وطن کافروں کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کرنے والوں کیلئے تیار کئے گئے تھے‘ وہ شمالی وزیرستان میں اپنوں کا نشانہ بننے والوں کی یاد میں اہلِ وطن کے گوش گزار کئے جارہے ہیں۔
ایک طرف شمالی وزیرستان میں آپریشن جاری ہے اور دوسری طرف وفاقی دارالحکومت کو عین جشنِ آزادی کے لمحات میں سیاسی اکھاڑا بنانے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ اہلِ جہاں اب تک محروم ہیں۔ اُنہیں بُلاکر دکھایا جائے کہ دیکھو ''سیاسی بصیرت‘‘ ایسی ہوتی ہے! جو کچھ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کرنا یا کر دکھانا چاہتے ہیں وہ ہما شُما کے بس کی بات نہیں۔ کوئی آئے اور ذرا ہمارے راہ نُماؤں کی اہلیت و سکت پر ایک نظر ڈالے۔ ؎
دیکھو اِس طرح سے کہتے ہیں سُخن ور سہرا!
مِلّی نغموں اور حب الوطنی کی دل میں سیاسی نعرے بازی اور شور و غوغا کا تڑکا لگانے کی بھرپور تیاری دیکھ کر اہلِ وطن دم بخود ہیں کہ کس بات سے محظوظ ہوں اور کس اَمر پر کبیدہ خاطر ہوں۔
جہاں سب کچھ بانجھ ہوچکا ہو وہاں کسی بھی بڑی تبدیلی کی توقع عبث ہے۔ اور پھر انقلاب! کسی کو اندازہ بھی ہے کہ انقلاب ہوتا کیا ہے؟ اور اِس نکتے پر بھی کِسی نے غور کیا کہ انقلاب لایا نہیں جاتا، برپا ہوتا ہے! کوئی اُسے پیدا نہیں کرتا، وہ اپنے اندر سے خود پُھوٹتا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے ایک ماہ تو اِس ڈرامے میں گزار دیا کہ انقلاب کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔ انقلابات کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی انقلاب کی تاریخ کا اعلان کیا جارہا ہے۔ گویا انقلاب کی شادی طے ہوگئی ہے اور اب تاریخ کا اعلان رہ گیا ہے!
عمران خان نیا پاکستان معرضِ وجود میں لانا چاہتے ہیں۔ نئے پاکستان کے اجزائے ترکیبی وہ کہاں سے لائیں گے؟ یہاں تو سینوں میں جذبوں کی گرمی بھی ختم ہوچلی ہے۔ ہر طرف بے حِسی اور بے دِلی ہے۔ اور اگر کوئی بے دِلی کو پچھاڑ بھی دے تو نیم دِلی کی منزل میں پھنس کر رہ جاتا ہے! جس معاشرے میں سبھی کچھ کرپشن کی نذر ہوچکا ہو، بے ایمانی نے ہر دِل میں گھر کرلیا ہو، ذاتی مفاد ہر معاملے میں قومی مفاد پر غالب آچکا ہو، تمام اقدار کو دیس نکالا دیا جاچکا ہو اور کردار کے تمام اوصافِ حمیدہ محض کتابوں تک محدود ہوچکے ہوں وہاں کیا انقلاب آئے گا اور کیا نیا پاکستان اُبھر سکے گا؟ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے مُرغے سے کہا جائے کہ انڈا دے! مُرغے اصیل اور انتہائی طاقتور ہوں تب بھی انڈے بہرحال نہیں دے سکتے۔ اور یہاں معاملہ یہ ہے کہ مُرغے بھی مَریل ہیں۔ گویا ہر معاملے نے دَھنیا پی رکھا ہے۔
کیا عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری جیسے ذہین افراد کو بھی یہ سمجھانا پڑے گا کہ کسی مکان کی جگہ نیا مکان بنانے کیلئے پُرانے مکان کا ملبہ ہٹانا پڑتا ہے۔ جب تک ملبہ نہیں ہٹایا جائے گا، نئے مکان کی بنیاد کہاں ڈالی جائے گی؟ یہ نکتہ معمولی راج مستری کو معلوم ہے تو قوم کے معمار ہونے کے دعویدار کیوں بُھول بیٹھے ہیں؟