جن سیاست دانوں کو احتجاج کی آڑ میں جمہوریت کی بساط لپیٹ دیئے جانے کا خدشہ لاحق ہے وہ بار بار انتباہ کرچکے ہیں کہ مارچ کرنے والے باز نہ آئے تو ڈبل مارچ ہوسکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پنجاب کے سرحدی علاقوں میں آم کے باغات نے یہ انتباہ سُن لیا۔ جنہیں بظاہر وطن کی کچھ پروا نہیں وہ ''پیش قدمی‘‘ پر تُلے ہیں مگر بے چارا آم پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ وسطی پنجاب میں مچنے والی سیاسی ہلچل سے پھلوں اور سبزیوں کی ترسیل شدید متاثر ہوئی ہے۔ لانگ مارچ اور غیر یقینی صورت حال کے باعث رحیم یار خان، ملتان اور جنوبی پنجاب کے دیگر علاقوں سے پھلوں اور بالخصوص آم کی وسطی پنجاب کو ترسیل روک دی گئی ہے۔ اب آموں کی کھیپ کراچی سمیت سندھ کے مختلف علاقوں کی طرف رواں ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کے برآمدی تاجروں نے انتباہ کیا ہے کہ اگر پنجاب کا سیاسی درجۂ حرارت نیچے نہ آیا تو آم سمیت پھلوں کے برآمدی آرڈرز کی پوری تعمیل ممکن نہ ہوگی اور یوں عالمی منڈی میں ملک کا تشخص متاثر ہوگا۔ پھلوں کے ساتھ ساتھ پنجاب سے دوسروں صوبوں کو سبزیوں کی ترسیل بھی نہیں ممکن نہیں ہو پارہی۔ اہلِ سندھ کو کچھ دن اپنے پھلوں اور سبزیوں ہی پر گزارا کرنا ہوگا۔
پھلوں کے برآمدی تاجروں کا انتباہ پڑھ کر مرزا تنقید بیگ کی ہنسی چُھوٹ گئی۔ ہمیں یہ بات بہت بُری لگی کہ وہ بے چارے اپنی مصیبت بیان کر رہے ہیں اور مرزا ہیں کہ بات کو ہنسی میں اُڑا رہے ہیں۔ ہم نے بتایا کہ پھلوں کے تاجر اُس نقصان کے ہاتھوں پریشان ہیں جو جو اُن کے سَر پر ناگہانی آفت کی طرح نازل ہوا ہے۔ اِس پر مرزا نے اپنے ٹریڈ مارک یعنی طنزیہ ہنسی کے ساتھ کہا۔ ''تاجروں کو پھلوں کے برآمدی آرڈرز کی تعمیل نہ ہونے کی صورت میں ملک کے تشخص کی فکر پڑی ہے، یہاں یاروں کو ملک ہی کی فکر لاحق نہیں ہے۔‘‘
مرزا کی بات سُن کر ہمیں سیمابؔ اکبر آبادی یاد آگئے جنہوں نے کیا خوب کہا ہے ؎
دُعا دِل سے جو نکلے کارگر ہو
یہاں دِل ہی نہیں، دِل سے دُعا کیا!
یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کچھ لوگ مکان کو گرانے یا بیچ کھانے کے درپے ہوں اور آپ کو مکان کی تزئین و آرائش کی فکر لاحق ہو!
آم کی جو پیٹیاں وسطی پنجاب اور اُس سے آگے کے علاقوں کو بھیجی جانی تھیں وہ کراچی روانہ کی جارہی ہیں۔ کراچی میں جب آم طلب اور کھپت سے زیادہ ہوگا تو دام بھی نیچے آئیں گے۔ گویا ؎
راستے بند کئے دیتے ہو ویرانوں کے
ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے!
دام گھٹیں گے تو اہلِِ کراچی کم خرچ میں جاتے ہوئے آم کا زیادہ لطف پاسکیں گے۔ مگر یہ کوئی آئیڈیل صورت حال ہرگز نہیں۔ اگر آپ کو اندازہ ہو کہ جو فائدہ آپ تک پہنچا ہے وہ دراصل کسی کا نقصان ہے تو طبیعت تھوڑی سی مُکدّر ہو ہی جاتی ہے۔ اگر حالات پلٹ جائیں یا پلٹ دیئے جائیں اور کسی کو نقصان پہنچ رہا ہو تو فائدہ اُٹھاتے ہوئے آپ کے ضمیر پر بھی تھوڑا بہت بوجھ تو ہونا ہی چاہیے۔
کیا کیجیے کہ دُنیا کا، بلکہ سیاست کا نظام اِسی طور چلا کرتا ہے۔ سیاسی ہلچل سے ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ کسی کے نقصان کی کوکھ سے کسی کا فائدہ جنم لیتا ہے۔ ہماری سیاست کو بانجھ کہنے والے شاید بصارت اور بصیرت دونوں سے محروم ہیں۔ وہ سیاست بانجھ کیونکر کہی جاسکتی ہے جس کے بطن سے خرابیاں تواتر کے ساتھ پیدا ہو رہی ہیں؟
آم سمیت کئی پھل شدید گرمی میں پکتے ہیں، بلکہ تپش ہی اُن میں مٹھاس پیدا کرتی ہے۔ یہ تو ہے اللہ کے پیدا کردہ نظام کی خوبی۔ اور دوسری طرف وہ ہیں جو اپنی کاوشوں سے نیا نظام سے لانا چاہتے ہیں۔ وہ نیا نظام کیسا ہوگا، اِس کا اندازہ اِسی امر سے لگا لیجیے کہ اُس نظام کے برپا کرنے کی کوشش ہر شے سے مٹھاس چھین رہی ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کے تاجر سیزن بھرپور انداز سے کمانے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔ جو سیزن اچھی طرح ختم ہونے کو تھا اُس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہوگئی ہیں۔ ع
مقطع میں آپڑی ہے گسترانہ بات
اپنے اپنے معاونین، مداحوں، معتقدین اور جاں نثاروں کو لے کر اسلام آباد کا رُخ کرنے والے حکومت کی وکٹ گرانا چاہتے ہیں۔ حکومت کی وکٹ گرنے کی منزل تو آئے گی تب آئے گی، اُس سے بہت پہلے ملک کے استحکام کی وکٹ گرچکی ہے۔ اور اب آم کو بھی رن آؤٹ کرادیا گیا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ شدید زخمی ہوچکی ہے، کاروباری سرگرمیوں کو دِل کا دورہ پڑا ہے، کئی شہروں میں لوگ بجلی کی بندش کے باعث بے خوابی اور حالات کے ہاتھوں شدید بے یقینی کا شکار ہیں کہ اب ہوگا کیا۔ لاہور کے ماڈل ٹاؤن اور اُس سے ملحق علاقوں میں رہنے والے ایک ہفتے تک حیران اور اُس سے کہیں بڑھ کر پریشان رہے۔ لاکھوں افراد کے لیے کام پر جانا اور واپس آنا محال ہوگیا تھا۔ اشیائے خور و نوش کی قلت نے بھی بہت سوں کو ناکوں چبوائے۔
کئی شہروں میں لوگ پریشان ہیں کہ حکومت کی وکٹ گرانے کے نام پر اُنہیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔ اب اُنہیں یہ کون سمجھائے کہ کوئی بھی سیاسی تحریک اِسی طور چلائی جاتی ہے۔ اُس کی ٹوپی اِس کے َسر اور اِس کی ٹوپی اُس کے سرپر۔ سیاست میں صرف نفع کا سوچا جاسکتا ہے، کسی کے نقصان کا نہیں۔ یعنی میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تُھو تُھو! اگر اگر متوقع نفع کے ساتھ ممکنہ نقصان کا بھی سوچا جائے تو پھر وہ سیاسی تحریک کیا ہوئی!
کوئی بھی چیز بے وقت ہو یعنی موزوں وقت پر نہ ہو تو طرح طرح کی خرابیاں خود بخود اُبھر آتی ہیں۔ جب بے موسم کی سیاسی سرگرمی منصۂ شہود پر آتی ہے تو موسم کا پھل بھی راستے میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ آم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ برسات نے اب تک بھرپور درشن نہیں دیئے مگر یاروں نے سیاسی اُچھل کود کے ذریعے اچھا خاصا کیچڑ پیدا کردیا ہے۔
ایک ماڈل ٹاؤن کو کیا روئیے، لاہور سے اسلام آباد تک کئی شہروں اور قصبوں کے لوگوں کا بہت کچھ الٹ پلٹ کر رہ گیا ہے۔ سندھ کے لوگ جنوبی پنجاب سے آیا ہوا موسم کا پھل ذرا کم نرخ پر خوشی خوشی کھالیں گے مگر لاہور سے اسلام آباد تک لوگ بے موسم کا سیاسی پھل کھاکر کیا خاک محظوظ ہوں؟ مُفت کا دردِ سَر اُن کی چوکھٹ پر آیا ہوا ہے اور وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ اقتدار سے محروم سیاست دانوں کے دِلوں کا درد اہلِ وطن کے لیے سَر کا درد بن کر رہ گیا ہے۔ اِس دردِ سَر کے لیے کوئی دوا کہاں سے لائی جائے؟ معاملات ایسی نہج پر ہیں کہ دو تین اینٹیں ہٹانے سے دیوار کے گرنے کا اندیشہ ہے۔ صورت حال کا تقاضا ہے کہ سب تَنے ہوئے رَسّے پر چلیں۔ آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کی راہ میں آنے والے شہروں کے لوگ آم نہ کھاسکیں تو کیا ہوا؟ تھوڑا صبر کریں۔ آم کَھٹّا ہوسکتا ہے مگر صبر کا پھل تو میٹھا ہی ہوتا ہے! اور رب کی طرف سے ضمانت ہے کہ صبر کا پھل تو اُن تک پہنچ کر ہی رہے گا۔