آزادی اور انقلاب کے متوالے خطرے کی علامت سمجھے جانے والے رنگ کے حامل علاقے میں داخل ہوچکے ہیں۔ قوم دم بخود ہے اور ''ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنی یہ تماشا دیکھ رہی ہے۔ ذہنوں میں ''کہاں کی آزادی اور کیسا انقلاب‘‘ جیسے سوالات گھوم رہے ہیں اور اِن دونوں نعمتوں سے قوم کو بہرہ مند کرنے کے دعویدار اسلام آباد میں اقتدار کے ایوانوں کے سامنے گھوم اور جھوم رہے ہیں۔
آزادی اور انقلاب کے نام پر برپا ہونے والا ہنگامہ اب تک قوم کو کیا دے سکا ہے، اِس سوال پر بحث کرنے کا موقع تب آئے گا جب لہکنے اور جُھومنے کا دور ختم ہوگا۔ عمران خان کی رجحان ساز پارٹی نے اور کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو، احتجاج کی دال میں شاندار اور جاندار میوزک کا تڑکا ضرور لگایا ہے۔ حکومت کے ''مظالم‘‘ سے تنگ آئے ہوئے لڑکوں اور لڑکیوں کو کچھ دیر کے لیے پُرمسرّت لمحات تو میسر آ ہی جاتے ہیں۔ احتجاج کا پنڈال دیکھتے ہی دیکھتے میوزیکل کنسرٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ درد ہی کو دوا سمجھنے والی قوم کو اِس سے زیادہ چاہیے بھی کیا؟ ؎
دِل کی تنہائی کو آواز بنالیتے ہیں
درد جب حد سے گزرتا ہے تو گالیتے ہیں
یہ ترکیب اوروں کو نہ سُوجھی۔ بے نظیر بھٹو مرحومہ بھی آکسفورڈ ہی کی پڑھی ہوئی تھیں مگر اُن کی سیاست سُر، تال اور لَے سے محروم رہی۔ خدا جانے وہ کسی اور دنیا کی تھیں یا اُن کا آکسفورڈ کسی اور کائنات میں تھا! یہی حال اوروں کا بھی تھا۔ اب جاکر قوم کو معلوم ہوا کہ سیاست کے بھرپور احتجاجی ڈرامے کے حقیقی اجزائے ترکیبی کیا ہوتے ہیں اور طویل مارچ کے دوران نعرے لگا لگاکر بے دَم ہوجانے والوں کو کون سا ٹانک درکار ہوتا ہے۔ یاروں نے سخت کشیدگی کے لمحات میں بھی دل بستگی کا راستہ ڈھونڈ نکالا ہے۔
اسلام آباد کے ریڈ زون میں پہنچنے والے احتجاجیوں کو بھی معلوم نہیں کہ اُنہیں یُوں متحرّک کئے جانے کا مقصد اور مفہوم کیا ہے۔ حکومت کے خلاف سخت سے سخت زبان استعمال کرکے لوگوں کا لہو گرمایا گیا ہے اور اُنہیں حد سے گزر جانے کی بھرپور ترغیب دی گئی ہے۔ دوسری طرف حکومت نے طاقت کے استعمال سے گریز کی راہ پر گامزن ہوکر بظاہر تصادم کی گنجائش ختم کردی۔ بہت سوں کو اِس سے بھی پریشانی لاحق ہوئی ہوگی۔ وہ چاہتے تھے کہ چند لاشے گرتے دیکھیں تاکہ کچھ رنگ جمے۔ ع
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا!
مسلم لیگ ن کی حکومت نے اب تک قوم کو کچھ نہیں دیا۔ 14 ماہ کے دوران پاکستان جیسے ملک میں کوئی حکومت کسی بھی سطح پر کوئی انقلاب برپا نہیں کرسکتی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ انقلاب کی باتیں پاکستانی ماحول میں بڑھک اور مزاح سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ایس ایم ایس کے ذریعے ایسے ایسے آئیڈیاز آتے رہتے ہیں کہ اگر لکھنے بیٹھیے تو ایک دن میں چار کالم تیار ہوجائیں۔ جس ملک میں پانی کا گلاس زنجیر سے باندھا جاتا ہو اور نماز پڑھنے والوں کو سجدے میں بھی چپل یا جُوتے کی فکر لاحق ہو وہاں کیسا انقلاب اور کہاں کا انقلاب؟ اگر ذہن سازی نہ کی گئی تو اہلِ پاکستان کسی بھی بڑی تبدیلی سے ہمکنار تو نہیں، دوچار البتہ ہوتے رہیں گے۔ اور اِس وقت یہی ہو رہا ہے۔
نئی نسل کے جذبات بھڑکانے کی روایت ہر دور کے اہلِ سیاست میں مقبول رہی ہے اور اب بھی اِسی روایت کو دُہرایا جارہا ہے۔ جو لوگ انقلاب کی بات کر رہے ہیں اُنہیں خود بھی نہیں معلوم کہ اُنہیں کیسا انقلاب لانا ہے۔ اور جو آزادی کا ڈھول پیٹ رہے ہیں وہ بھی نہیں جانتے کہ اِس قدر آزاد ماحول میں زندگی بسر کرتے ہوئے اُنہیں مزید کتنی اور کیسی آزادی درکار ہے۔
عمران خان اور طاہرالقادری نے جو کچھ اپنی تقاریر میں کہا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے روشن ضمیری اور بصیرت کا عکاس نہیں۔ مارچ کے شرکا سے اُن کا ہر خطاب محض سطحی جذباتیت کا عکاس اور ترجمان تھا۔ جو کچھ کہا گیا اُس کا مقصد صرف یہ تھا کہ جذبات بھڑک جائیں اور نوجوان مَرنے مارنے پر تُل جائیں۔ عمران خان نے احتجاج کا نیا تصور دیا ہے کہ جب تھک جاؤ تو گھر جاکر سو جاؤ اور تازہ دَم ہوکر پھر آجاؤ۔ اور اگر لوگ بضد ہوں کہ چھوڑ نہ جاؤ تو پھر میوزیکل ارینجمنٹ والوں سے کہا جائے کہ کوئی زبردست ترانہ بجاؤ! حاضرین بھی خوش تھے کہ احتجاج میں جشن کا ٹانکا لگ گیا ہے۔ اگر احتجاج کرتے کرتے تھک جائیے تو جشن منانا شروع کردیجیے۔ اور اگر جشن مناتے مناتے یاد آجائے کہ احتجاج کرنا اصل مقصد ہے تو کوئی بات نہیں، پھر احتجاج کی ڈگر پر چل دیجیے۔ ع
ہنسنے پہ کبھی ردیتا ہوں، رونے پہ ہنسی آجاتی ہے!
اگر احتجاج کے نام پر ہزاروں لوگ جمع ہوجائیں تو ایک بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ اُنہیں کِس ایجنڈے کے تحت یکجا رکھا جائے۔ وقفے وقفے سے کچھ نہ کچھ ایسا کہنا پڑتا ہے جس سے اُن کی رگوں میں لہو گرم رہے۔ عمران خان اور طاہرالقادری کو اِسی ضرورت کے تحت ایسا بہت کچھ بولنا پڑا ہے جو اعتدال سے کچھ زیادہ ہی تھا۔ ایک (جیسی تیسی) منتخب حکومت کے خلاف جانا اور وہ بھی کسی ٹھوس جواز کے بغیر، اُن تمام لوگوں کے لیے انتہائی حیرت کا باعث ہے جو اب تک اِس پورے تحرّک کے سبب کا سوچ سوچ کر پریشان ہیں۔ ایوانِ صدر، پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے سامنے ہزاروں افراد کو کھڑا تو کردیا گیا ہے مگر کوئی تو بتائے کہ اِس ''یوتھ فیسٹیول‘‘ کی غایت کیا ہے۔
طاہرالقادری صاحب کی علمیت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ اُن کی شعلہ بیانی کے سبھی معترف ہیں مگر یہ بات کوئی بھی عقل پرست انسان پسند نہ کرے گا کہ اِس شعلہ بیانی سے بُھوسے کے لیے چنگاری کا کام لیا جائے۔ پیر کی شب بارہ بجے طاہرالقادری نے انقلاب مارچ کے شرکا سے جو خطاب کیا اُس میں اُنہوں نے ایک بار پھر حکمرانوں کو فرعون اور یزید سے تشبیہہ دی۔ یہ نوجوانوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کے سِوا کچھ نہ تھا۔ عمران خان اِس پورے کھیل میں کس کے اشارے پر متحرک ہوئے اور اب تک دوسروں کے اشارے ہی پر کیوں کھیل رہے ہیں، کچھ پتا نہیں چلتا۔ اُن کی صلاحیتوں پر بے اعتباری کا عالم تو یہ ہے کہ اُنہیں ہدایات بھی یکمشت نہیں دی جاتیں۔ وہ مجمع سے خطاب بھی کر رہے ہوں تو یاروں کو سرگوشیاں کرنی پڑتی ہیں!
قوم نے دیکھ لیا ہے کہ جمہوریت ہر بار کیوں ناکام ہوتی ہے۔ جمہوریت کے نشیمن پر گرنے والی بجلیاں خواہ کہیں تیار کی جاتی ہوں، گرانے والے تو اپنے ہی ہوتے ہیں۔ جو سیاسی بحران پیدا کیا گیا ہے اُس کی کوکھ سے اب تک کوئی بھی مثبت حقیقت ہویدا نہیں ہوئی۔ اور شاید ہوگی بھی نہیں۔ یہ سب کچھ قوم کو بہت کچھ سکھانے کے لیے کافی ہے۔ اب بیلٹ بکس تک جانے کا موقع ملے تو ووٹ کاسٹ کرنے سے قبل ذہن کو اچھی طرح تیار کرنا لازم ہے۔ یہ عوام کا حقیقی اختیار ہے اور اِس اختیار کو استعمال کرنے کے لیے ذہن کو استعمال کرنا ہی پڑے گا۔ اور اُس بے ذہنی سے بچنا بھی ناگزیر ہوگا جس کا مظاہرہ مجمع لگانے والوں نے کیا ہے۔ اب تک معاملہ ''کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے‘‘ والا رہا ہے۔ تحریک اور مہم سیاسی ماحول کا حصہ ہیں مگر جواز اور دلیل کے ساتھ۔ محض جوش و خروش کی بنیاد پر کسی تبدیلی کی راہ ہموار کرنا کہاں کی سیاست ہے، کوئی سمجھائے۔ ملک کے حَسّاس ترین شہر کے حَسّاس ترین علاقے میں جو ڈراما پیش کیا گیا ہے اُس کے ڈراپ سین کے بارے میں کسی نے سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ سب جانتے تھے کہ معاملہ ٹائیں ٹائیں فِش کی منزل پر پہنچ کر دَم لے گا۔ اِس بار اِتنا ضرور ہوا ہے کہ ''قائدین‘‘ کی بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ احتجاجی بساط لپیٹیں کیسے۔ مگر خیر ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں