آغاز اور انجام میں کِسے لازمی طور پر اچھا ہونا چاہیے، یہ طے کرنا انتہائی دشوار ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا ع
کام اچھا ہے وہی جس کا مآل اچھا ہے
یعنی جیسے تیسے معاملات سے نپٹ لو، انجام اچھا ہونا چاہیے۔ شیکسپیئر نے بھی کہا ہے کہ ہر وہ کام اچھا ہے ہے جو اچھے طریقے سے ختم ہو۔
اِس کے برعکس بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ آغاز اچھا ہونا چاہیے۔ یعنی ابتداء بہتر ہو تو کام کو بحسن و خوبی آگے بڑھانا اور بہتر انجام تک پہنچانا آسان ہو جاتا ہے۔
پاکستانی معاشرہ بھی اب تک بہتر آغاز کے فلسفے پر عمل کرتا آیا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سوں کے لیے تو سفر کی اچھی ابتداء ہی منزل کا درجہ رکھتی ہے۔ آغاز اچھا ہو تو لوگ سُکون کا سانس لیتے ہیں کہ ؎
اب آگے جو بھی انجام دیکھا جائے گا
خدا تراش لیا اور بندگی کرلی!
آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ ہنگامی طور پر بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے استعمال ہونے والے گھریلو جنریٹرز میں گیس کِٹ بھی لگی ہوتی ہے یعنی اُنہیں گیس کی مدد سے بھی چلایا جاسکتا ہے۔ گیس سے چلنے والے جنریٹرز کو بھی پٹرول پر اسٹارٹ کیا جاتا ہے اور دو تین منٹ کے بعد گیس پر کنورٹ کیا جاتا ہے۔ یہ تکنیک جنریٹرز میں اب آئی ہے، ہمارے معاشرے میں تو ایک زمانے سے رُو بہ عمل ہے۔ لوگ پٹرول سے اسٹارٹ لیتے ہیں اور پھر گیس پر آجاتے ہیں۔
دفتر کے ساتھی بھائی راؤ عمران کو ہم نے اِسی فلسفے پر عمل کرتے دیکھا ہے۔ اُن کا جُثّہ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان خاصا کھاتا پیتا ملک ہے۔ بعض منچلے احباب اُنہیں اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے کا سبب قرار دینے سے نہیں چُوکتے!
راؤ عمران جب کھانے کی میز پر ہوتے ہیں تو چکن کڑاہی، بریانی اور دیگر اعلیٰ نسل کی ڈِشوں کو ایک نظر دیکھنے کے بعد کسی دور اُفتادہ پلیٹ میں پڑی ہوئی دال سے ابتداء کرتے ہیں۔ جو پہلی بار یہ منظر دیکھ رہا ہو وہ بہت متاثر ہوتا ہے کہ یہ اللہ کا بندہ متنوّع نعمتیں چھوڑ کر دال کو گلے لگا رہا ہے۔ راؤ عمران کی یہ ''دال نوازی‘‘ اسٹارٹر کے طور پر ہوتی ہے۔ دال کے دو تین لقمے لینے کے بعد وہ چکن اور بریانی پر کنورٹ ہوجاتے ہیں! اِس کے بعد وہ مُڑ کر نہیں دیکھتے۔ کھانے کی میز کو راؤ عمران ایک ایسا طلسمات قرار دیتے ہیں جس میں اِدھر اُدھر دیکھنے والا پتھر کا ہوجاتا ہے! اُنہیں کھانے میں منہمک دیکھ کر شہنشاہِ غزل مہدی حسن یاد آجاتے ہیں۔ مرحوم بھی کچھ ایسے ہی مثالی انہماک سے غزل سَرا ہوا کرتے تھے! فرق صرف اِتنا ہے کہ مہدی حسن اپنے انہماک سے دوسروں کو مستفید کیا کرتے تھے!
کسی زمانے میں بھارتی کرکٹ ٹیم بھی جنریٹر کے اُصول پر کام کرتی تھی۔ ٹیم کا مدار چار مایہ ناز اسپنرز (ایراپلّی اننت راؤ سری نواس پرسنّا، بھگوت سُبرامنیا چندر شیکھر، سری نواسا راگھون وینکٹ راگھون اور بشن سنگھ بیدی) پر تھا۔ بائولنگ کی ابتداء میں عابد علی اور دیگر میڈیم پیسرز سے دو تین اوور کرائے جاتے تھے۔ یہ اہتمام بھی محض اِس لیے ہوتا تھا کہ مخالف ٹیم اور تماشائیوں کے مُنہ کا ذائقہ ابتداء ہی میں کچھ بدل جائے۔ یعنی قسم ٹوٹ جائے۔ اِس کے بعد تو مخالف ٹیم کے بیٹسمین تھے اور وہی اسپن بولنگ کی خوراک تھی!
کسی نہ کسی طور آغاز کو قابل رشک بنانا ہمارے اجتماعی مزاج کا حصہ ہوکر رہ گیا ہے۔ ہم کوئی اینکر تو ہیں نہیں کہ دُنیا کے ہر معاملے کو جاننے کا دعویٰ کریں مگر اِتنا ضرور ہے کہ قومی مزاج کے چند پہلوؤں سے ایسے آشنا ہوئے ہیں کہ اب بہت سے معاملات کو پورے تیقّن سے سمجھ اور برت سکتے ہیں۔ مثلاً جب بھی ہمارے علاقے میں کوئی نیا ہوٹل کُھلتا ہے، ہم کچھ دن تک وہاں کھانا ضرور کھاتے ہیں یا پارسل بنواکر گھر لے جاتے ہیں۔ ابتدائی مرحلے کو کامیاب اور یادگار بنانے کے لیے کچھ دن تک تو کھانا اچھا پکتا ہے اور روٹی بھی غنیمت ہوتی ہے۔ سلاد کے نام پر پیاز اور جیسا تیسا رائتہ بھی پیش کیا جاتا ہے تاکہ بات بن جائے۔ جب ہوٹل چل پڑتا ہے اور لوگ مستقل گاہک بن جاتے ہیں تو ''ہنی مُون پیریڈ‘‘ ختم ہوجاتا ہے اور ہوٹل کو پٹرول سے گیس پر کنورٹ کر دیا جاتا ہے! اِس کے بعد پانی اپنی پنسال میں آنے لگتا ہے۔ یعنی ع
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
بہت سے دکاندار بھی یہی کرتے ہیں۔ نئی دُکان کو چلانے کے لیے اچھا مال رکھا جاتا ہے اور سروس بھی اچھی فراہم کی جاتی ہے۔ اور جب دکان چل جاتی ہے تو معیار بھی مُنہ پھیر کر کہیں چل دیتا ہے۔ پھر اُس نئی دکان کا پرنالہ بھی وہیں بہنے لگتا ہے جہاں تمام پرنالے بہتے آئے ہیں۔ کل تک انتہائی احترام کی نظر سے دیکھا جانے والا کرم فرما محض گاہک میں تبدیل ہوکر رہ جاتا ہے۔ یعنی بقول محترم خالد مسعود ''پھر تو بس ... پھٹکار تھی اور تُھو بہ تُھو!‘‘
برسوں پہلے کی بات ہے۔ ہمارے ایک دوست وڈیو کیسٹس کی دکان چلایا کرتے تھے۔ ہم نے بارہا مشورہ دیا کہ کوئی ڈھنگ کا کام کرو۔ اُن کا جواب ہوتا ہم تمہاری طرح قلم نہیں گھسیٹ سکتے کیونکہ گھر بھی چلانا ہے! ساتھ ہی ارشاد ہوتا کہ کام وہی ڈھنگ کا ہے جس میں پیسے اچھے ملتے ہوں۔ اِس دلیل پر ہم اُنہیں زیر دام لانے کے لیے کسی ناگفتہ بہ دھندے کا ذکر کرتے اور وہ لاجواب سے ہوکر رہ جاتے۔
موصوف سے ہماری ملاقات کبھی کبھی شام کو اُن کی دکان پر ہوجایا کرتی تھی۔ ایک دن ہم صبح کے اوقات میں اُن کی دُکان کی طرف جا نکلے۔ یہ دیکھ کر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اُنہوں نے دکان کے آڈیو سسٹم پر پہلے تو چند آیات کی ریکارڈنگ چلائی۔ پھر کچھ نعتیہ کلام کی باری آئی اور آخر میں قوّالی کی کیسٹ لگائی گئی۔ ہم نے شدید حیرت سے پوچھا کہ تلاوت اور نعت خوانی وغیرہ کس کھاتے میں ہے۔ موصوف فرمانے لگے۔ ''بہتر دھندے کے لیے دن کا آغاز اچھا ہونا چاہیے۔‘‘ ہم نے کہا بھائی! تم ایسا کون سا اچھا دھندا کرتے ہو جس کے لیے اللہ کے کلام سے برکت چاہی جائے۔ اُن کا مُنہ بن گیا۔ ہم نے سمجھایا کہ بھائی! تم خود سمجھ دار ہو اور اچھی طرح جانتے ہو کہ تمہاری دکان سے لوگ فلموں کے کیسٹس کرائے پر لے جاتے ہیں۔ اور یہ بھی جانتے ہو کہ اِن فلموں میں ہوتا کیا ہے۔ کیا جانتے بُوجھتے یہ مناسب دکھائی دیتا ہے کہ اِس دھندے کے لیے اللہ سے برکت کی التجا کی جائے!
ہمارے سمجھانے سے اِتنا تو ہوا کہ وہ تلاوت اور نعت خوانی سے باز آئے اور قوّالی تک محدود ہوکر رہ گئے۔ ہمارے نزدیک تو یہ بھی بہت بڑی کامیابی تھی وگرنہ اِس معاشرے میں کون کسی کی سُنتا ہے؟
جب ''ڈی جنریشن‘‘ (انحطاط) حد سے گزر جائے تو لوگ جنریٹر کے اُصول کو زندگی پر منطبق کرلیتے ہیں یعنی پٹرول سے اسٹارٹ لو اور ''مومینٹم‘‘ پیدا ہوتے ہی گیس پر کنورٹ ہوجاؤ! ؎
لو شمع ہوئی روشن، لو آگئے پروانے
آغاز تو اچھا ہے، انجام خدا جانے
معاشرے کا ڈھنگ ایسا ہے کہ لوگوں نے سفر کے بہتر اور قابل رشک آغاز ہی کو منزل سمجھنا شروع کردیا ہے۔ راستے کی ممکنہ ٹھوکروں کی پروا نہیں کی جاتی۔ اور انجام کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہونے سے بھی گریز کیا جاتا ہے۔ یعنی اہل وطن طے کرچکے ہیں کہ ہر معاملے کا صرف آغاز اچھا ہونا چاہیے۔ جب معاملہ زور پکڑ لے تو اُسے پٹرول سے گیس پر کنورٹ کرلیجیے اور سُکون کی چادر اوڑھ کر سو جائیے! یہ آرام طلبی ہی زندگی کو کبھی موزوں راستے پر آنے نہیں دیتی۔ لوگ ابتدائی مرحلے ہی میں خوش یا مطمئن ہوکر باقی مراحل کو فراموش یا نظر انداز کربیٹھتے ہیں۔ اِسی لیے تو ہماری قومی کشتی وہاں ڈوب جاتی ہے جہاں پانی بہت کم ہوتا ہے!