لوگ رونا رو رہے تھے کہ جمود ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اور جمود ٹوٹا ہے تو اب لوگوں کو یہ فکر لاحق ہے کہ جو ہلچل مچی ہے وہ کہاں جاکر سُکون کا سانس لے گی۔ لوگوں کو بھی عجیب حال ہے۔ مُراد پانے کو بے تاب رہتے ہیں اور مُراد مل جائے تو پریشان ہو اُٹھتے ہیں۔ اُنہیں منزل سے بڑھ کر سفر اور رہنما عزیز ہوتا ہے۔ بہت سے ''سیانے‘‘ تو اِس امر کیلئے کوشاں رہتے ہیں کہ مُراد پوری نہ ہو پائے۔ ع
پھر دل میں کیا رہے گا جو حسرت نکل گئی
سیاسی شاہراہ کو دیکھیے تو ایسا لگتا ہے کہ آگے راستہ بند ہے۔ اور بظاہر واپسی کا محل ہے نہ توفیق۔ ایسے میں محسوس کرنے اور سوچنے والوں کے دِل و دماغ کام کرنے سے انکار کریں تو حیرت کیسی؟ اور اب تو کسی بھی بات پر حیرت کیسی؟
''اسٹیٹس کو‘‘ ختم کرنے کے نام پر جشن آزادی کے دن سے شروع ہونے والے احتجاج کے باعث بہت کچھ اب standstill کی منزل پر آگیا ہے۔ یہ ہمارا ہی نصیب ہے کہ کسی مسئلے کو حل کرنے کوشش کے بطن سے بھی مسائل ہی پیدا ہوتے جاتے ہیں۔ فریقین کے درمیان مذاکرات کی کوشش کرنے والوں کو اندازہ نہیں ہو پارہا کہ وہ (فریقین) آخر چاہتے کیا ہیں۔ اور اِس سے بھی زیادہ ستم کی بات یہ ہے کہ خود فریقین کی سوچ اور ارادے بھی واضح نہیں۔ اُنہیں خود اندازہ نہیں کہ اُن کی منزل کیا ہوسکتی ہے یا کیا ہونی چاہیے۔ کسی بھی سیاسی تحریک کو شروع کرنا سب سے بڑا مسئلہ ہوا کرتا ہے۔ لوگوں کو متحرک کرنا سیاست کا حقیقی دردِ سر ہے مگر یہاں طرفہ تماشا یہ ہے کہ لوگ متحرک ہیں مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ تحریک کو ''ہیپی دی اینڈ‘‘ تک کیسے پہنچایا جائے!
احتجاج کا دُھواں سیاسی فضا میں بلند ہوکر پھیلتا جارہا ہے۔ ہماری سیاست نے بھی اب chain reaction کا اُصول اپنالیا ہے۔ مارچ کے بطن سے دھرنے ہویدا ہوئے۔ اور اب دھرنوں کی کوکھ سے جلسوں نے جنم لیا ہے۔ گویا ع
وہ پَو پھٹی، وہ کرن سے کرن میں آگ لگی
کراچی کے بعد لاہور میں بھی تحریک انصاف نے کامیاب جلسہ کیا ہے۔ تبدیلی کی خواہش دلوں میں اب حقیقی انگڑائیاں لینے لگی ہے۔ ہنگامہ برپا ہے، ہلچل مچی ہوئی ہے۔ جمود نے تحرّک کی شکل اختیار کی اور تحرّک اب تحریک میں تبدیل ہوچکا ہے۔ کھلی فضا کا جائزہ لے کر کوئی بھی آسانی اور یقین سے کہہ سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی گُڈّی اونچی اُڑ رہی ہے۔ عمران خان کے معترفین اور معتقدین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جن کی صفوں سے لوگ نکل کر تحریک انصاف کی طرف آرہے ہیں اُن کے دریائے غضب میں بھی طغیانی آئی ہوئی ہے۔ گویا خان صاحب کے معترضین بھی بڑھ رہے ہیں۔ اِس پر بھی خان صاحب خوش ہیں ؎
وہ بے رُخی سے دیکھتے ہیں، دیکھتے تو ہیں
میں خوش نصیب ہوں کہ کسی کی نظر میں ہوں!
پی ٹی آئی کے چیئرمین چاہتے تھے کہ خبروں میں رہیں۔ اب وہ خبروں میں ہیں۔ اور اُن کی پارٹی کی ریٹنگ بھی بظاہر بڑھ رہی ہے۔ یہ سب تو ٹھیک ہے مگر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اِس احتجاجی تحریک کا آخری باب کیا ہوگا اور کس طور لکھا جائے گا۔ قوم شدید مخمصے میں ہے۔ دھرنا دینے والوں نے جو باتیں کی ہیں وہ کروڑوں دلوں میں مدت سے تھیں، بس زبان تک نہیں آ پائی تھیں۔ مگر اِس کے باوجود غیر یقینی فضا برقرار ہے۔ لوگوں کو اب اِس بات سے کچھ غرض نہیں کہ اِس پردۂ زنگاری میں کوئی معشوق ہے یا نہیں۔ لوگوں کو ڈور ہلانے والوں کے بارے میں جاننے کا زیادہ شوق نہیں رہا۔ وہ تو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جن کی ڈور ہلائی جارہی ہے وہ کچھ دے پائیں گے یا نہیں۔ وہ تو صرف یہ جاننے کے مشتاق ہیں کہ اُن کی امیدیں کب اور کس طور بر آتی ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پرنالہ وہیں بہتا رہے اور لوگ دیکھتے ہی رہ جائیں۔ ع
آئے بھی وہ، گئے بھی وہ، ختم فسانہ ہوگیا
پاکستان کو ''پیراڈائم‘‘ تبدیل کرنا ہے۔ فکر و عمل کا پورا ڈھانچا تبدیل کرنے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے جو ہنگامہ برپا کیا ہے وہ بہت سے معاملات میں غلط سہی مگر دوسرے بہت سے معاملات میں درست بھی ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے۔ جیسے اندھیرے سے اُجالا پُھوٹے یا اُجالے کے دامن میں اندھیرا چُھپا ہوا ہو! ہستی کا تماشا ایسے ہی تضادات سے مُزیّن ہے۔
یہ دھرنے قوم کو بہت مہنگے پڑے ہیں۔ عمران خان اور طاہرالقادری سے متاثر ہوکر دھرنوں میں شرکت کرنے والوں سے کہیں زیادہ تعداد دھرنوں کے متاثرین کی ہے۔ اِن دھرنوں کے بطن سے انقلاب اور آزادی دونوں کو ہویدا ہونا ہی چاہیے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ اِس تحریک سے عوام کو کچھ نہ کچھ ضرور ملے۔ محض طاقت کا مظاہرہ کس کام کا؟ قوم نے یہ تماشا تو پہلے بھی بہت دیکھا ہے۔ سیاست میں اسٹریٹ پاور ناگزیر ہے۔ تحریک انصاف اِس مرحلے سے بھی کامیاب گزری ہے۔ مگر معاملہ محض طاقت کے مظاہرے تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ سیاسی قوت محض ذریعہ ہے، مقصد ہرگز نہیں۔ چند ایک حقیقی اور بامعنی اصلاحات کا راستہ نکل آئے تو قوم مطمئن ہو رہے گی کہ چلیے محنت اور زحمت ٹھکانے لگی۔
فکر و عمل کے اعتبار سے پاکستانی قوم بانجھ پن کی سی کیفیت سے دوچار ہے۔ نابغوں نے اِس قوم میں پیدا ہونا چھوڑ دیا ہے۔ سطحی ذہنیت اِس قدر عام ہوئی جارہی ہے کہ اب تو وحشت سی ہونے لگی ہے۔ لوگ بہت نچلی سطح پر رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ایک خوف سا ہے کہ کسی معاملے میں دماغ استعمال کرنے سے کہیں کوئی بگاڑ پیدا نہ ہوجائے!
نفسیات کے حوالے سے ایک بڑا مغالطہ پایا جاتا ہے کہ عام آدمی عمر بھر اپنے دماغ کا محض 10 فیصد استعمال کر پاتا ہے۔ کُلیوں کی طرح اب پاکستانی مغالطوں سے بھی مستثنٰی ہیں۔ پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ عام پاکستان عمر اپنے دماغ کے ایک فیصد کا عشر عشیر بھی شاید ہی استعمال کر پاتا ہو! لگتا ہے ہم نے اپنے پروردگار کو دماغ ''ڈبّا پیک‘‘ حالت میں واپس کرنے کا عہد کر رکھا ہے!
کون ہے جو تبدیلی نہیں چاہتا؟ مگر ہاں، تبدیلی کے نتیجے میں کوئی بھی اپنے کسی ایک خفیف سے مفاد سے بھی دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔ تبدیلی کے حوالے سے یہ بہت کٹھن مرحلہ ہوا کرتا ہے۔ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اُس کے مفادات داؤ پر لگیں۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ گلشن میں آگ لگتی ہے تو لگے، اُس کے نشیمن تک کوئی ایک چنگاری بھی نہ پہنچے۔ تبدیلی کے نعرے پہلے بھی بہت لگائے گئے ہیں۔ تبدیلی آئی بھی ہے مگر اپنے دامن میں بگاڑ زیادہ لائی ہے۔ ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے نہ گنجائش۔
لوگ آسانی کی تلاش میں ہیں۔ اُنہیں مشکل راہوں پر چلنے کو کہا گیا تو متنفر ہوجائیں گے، بپھر جائیں گے۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو بھی پوری طرح اندازہ نہیں کہ کوئی حقیقی اور مُفید تبدیلی کیونکر لائی جاسکے گی مگر خیر، کسی بڑی تبدیلی کے لیے ماحول تیار کرنے میں کامیابی بھی جشن ہی کا محل ہے۔ اِتنا بھی ہوجائے تو سمجھ لیجیے کہ ہم بھر پائے۔ پہلے اِس مسرّت کو دامن میں سمیٹ لیں۔ جشن کے مرحلے سے گزریں گے تو اگلے مرحلے کا سوچیں گے۔