"MIK" (space) message & send to 7575

توپ خانہ

کنٹرول لائن پر جھڑپیں جاری ہیں مگر اِس سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ملک کے اندر اہلِ سیاست کو اب کوئی کنٹرول لائن یاد ہے نہ سرحد۔ مُنہ کی توپوں کے دہانے ایسے کُھلے ہیں کہ بیانات پر بیانات داغے جارہے ہیں۔ ع 
وہ پَو پھٹی، وہ کرن سے کرن میں آگ لگی 
کا سماں ہے۔ میڈیا کے محاذ پر ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ لگن کا یہ عالم ہے کہ سب کا حافظہ جواب دیتا جارہا ہے۔ جس سے سیاست نے ایک دوسرے کا مُنہ نہ دیکھنے والوں کو ملایا تھا وہی سیاست اب ایک بار پھر اُنہیں فاصلے پر رہنے پر مجبور کر رہی ہے۔ سارا کھیل مفادات ہے۔ جب تک اپنا کام چل رہا ہو تب تک سب اچھا لگتا ہے۔ جہاں گوٹ پھنسی، اصلیت کھل کر سامنے آگئی۔ دھرنوں کے چولھے سے پھوٹنے والی چنگاریوں نے کئی جماعتوں کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ڈی چوک کا محاذ پہلے ملتان پہنچا اور اب سندھ تک آگیا ہے۔ ''فطری اتحادیوں‘‘ یعنی پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ میں ٹھن گئی ہے۔ 
پیپلز پارٹی کی توپیں عرصے سے خاموش تھیں۔ ڈی چوک کا شکریہ کہ مُنہ سے گول کرنے والے ڈی میں داخل ہوکر گول کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ حالاتِ حاضرہ پر لکھنے والے پیپلز پارٹی والوں کا شکریہ ادا کریں کہ وہ وقفے وقفے سے بیدار ہوکر چُپ کا روزہ توڑتے ہیں اور پھر اِتنا اور ایسا کہہ جاتے ہیں کہ تجزیوں کی ہانڈی میں پکاکر عوام کے سامنے پروسا جاتا ہے تو ''خوشبو‘‘ ہی سے طبیعت ''تر و تازہ‘‘ ہوجاتی ہے! 
پیپلز پارٹی نے ہر دور میں ایسے لوگ دیے جو مُنہ کی توپ سے گولے داغ کر دشمنوں کے قلعے مِسمار اور میڈیا والوں کی روزی روٹی کے محل تعمیر کرتے آئے ہیں۔ چند برس پہلے تک ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے زورِ بیان کا عہدِ شباب تھا۔ وہ جب بولتے تھے تو عوام اپنے دِل اور لکھنے والے قلم تھام لیا کرتے تھے۔ اُن کا ایک بار کا کہا کئی دن کام آتا تھا‘ مگر پھر یہ ہوا کہ اُنہیں دشمنوں کی نظر لگ گئی۔ ایسے بیمار پڑے کہ زبان کی صحت بھی دم توڑ گئی۔ فوزیہ وہاب بھی بیان داغنے کے کام میں کسی سے کم نہ تھیں۔ ٹی وی کے ٹاک شوز میں مخالفین کے سامنے ڈٹ جانا اُنہیں خوب آتا تھا۔ مرحومہ ایسا بولتی تھیں جو لِکھنے کے جاں گُسل مرحلے کو آسان کر جاتا تھا۔ وہ بھی دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ 
تین چار سال قبل منظور وسان کو متحرک کیا گیا۔ اس جماعت میں جوش کے ہاتھوں ہوش کھونے والوں کی کمی نہیں‘ مگر منظور وسان خاصے دانش مند قسم کے جیالے ثابت ہوئے۔ موصوف نے ہر ایسی ویسی بات بیان کرنے اور ردِعمل سے بچنے کے لیے خوابوں کا سہارا لیا۔ ہر بات کو خوابوں کے سَر منڈھنے کا فائدہ یہ تھا کہ پیش گوئی یا تجزیہ غلط ثابت ہونے پر موردِ الزام ٹھہرائیے تو خوابوں کو ٹھہرائیے۔ ع 
صاف چُھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں 
والا انداز منظور وسان کو بہت سے بکھیڑوں سے بچاگیا۔ 
خورشید شاہ صاحب کی اب اگرچہ عمر نہیں رہی کہ کسی مناقشے میں پڑیں مگر وہ بھی بیان بازی کے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ قومی اسمبلی کے فلور پر اُنہوں نے باتوں کی چنگاریوں سے کشیدگی کے بُھوسے میں آگ لگانے کی بھرپور کوشش کی۔ اُن کا دم خم دیکھ کر مخالفین چند لمحوں کے لیے تو سکتے میں آگئے۔ شاہ صاحب جذبات کی رَو میں بہتے ہوئے اِتنا کچھ کہہ گئے کہ تجزیہ کاروں اور کالم نگاروں کی چاندی ہوگئی۔ شرجیل انعام میمن اور شرمیلا فاروقی نے بھی بیان بازی کی دیگ میں حصہ ڈالنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ دونوں نے خود کو اپنی جماعت کے توپ خانے کی فعال اور کارگر توپ ثابت کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ ڈیڑھ دو سال سے شرجیل میمن کو فرنٹ پر رکھا جارہا ہے۔ کہیں سے کسی مخالفانہ بیان کی چڑیا اُڑتی ہوئی آئے تو اُسے مار گرانے کی ذمہ داری شرجیل میمن کے سَر ہے‘ مگر اُن کا کردار چڑیوں کے شکار تک محدود نہیں، کبھی کبھی وہ عُقابوں سے بھی بِھڑ جاتے ہیں! شرمیلا فاروقی دھان پان سی ہیں مگر بولنے میں کسی سے کم نہیں۔ ہم جیسے تو منتظر ہی رہتے ہیں کہ اُن کے ہونٹوں سے کچھ ''پُھول‘‘ جَھڑیں اور ہم قلم سے مزید کچھ گُل کِھلانے کی راہ پائیں! 
اِن دونوں کو ہٹاکر اب پارٹی کے سربراہ بلاول زرداری میدان میں، بلکہ فرنٹ پر آگئے ہیں۔ دو ڈھائی ماہ سے ''اسکرپٹ‘‘ کی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ دوسروں کا تو ہمیں پتا نہیں، ہاں بلاول کے معاملے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ اسکرپٹ کے مطابق بولتے ہیں۔ اُنہیں دیکھ اور سُن کر اندازہ ہوتا ہے کہ اسکرپٹ کے مطابق کس طرح بولا جاتا ہے! 
کوئی بے وقوف ہی یہ سوچے گا کہ بلاول جو مُنہ میں آرہا ہے، بول رہے ہیں۔ حق یہ ہے کہ بلاول وہی بول رہے ہیں جو اُن کے مُنہ میں ڈالا جارہا ہے! صاف محسوس کیا جاسکتا ہے کہ کوئی اُن کی زبان کی ڈور ہلا رہا ہے۔ یعنی ع 
''وہی‘‘ معشوق ہے اِس پردۂ زنگاری میں 
بلاول نے اپنی ہی پارٹی میں بہت سوں کے پیٹ پر لات مار دی ہے۔ ایک تو اُٹھتی جوانی اور اُس سے بھی زیادہ اُٹھتا ہوا جوشِ خطابت۔ جذبات کی شِدّت ایسی کہ جب بولتے ہیں تو عمر سے چار پانچ سال بڑے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ چہرے پر بچپن اور لڑکپن اب تک سلامت ہے۔ بھرپور جوانی آیا چاہتی ہے مگر بچپن کی سادگی ہے کہ جایا نہیں چاہتی! بلاول کا اُردو نہ جاننا اُن کے فنِ خطابت کو دو آتشہ کرگیا ہے۔ جو لکھ کر دیا جائے، بول جاتے ہیں۔ جب حاضرین کا رسپانس بتاتا ہے کہ وہ کچھ ایسا ویسا بول گئے ہیں تب اُن کے چہرے پر بھرپور مسکراہٹ خطاب کرنے لگتی ہے! بہت سے لوگ باقی سب کچھ چھوڑ کر یہی تماشا دیکھنے پی پی پی کے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ سیاسی فلم کے پہلے ہی فریم میں اُنہیں قومی سیاست کے نو گزے پیروں سے بِھڑادیا گیا ہے۔ بلاول نے اپنی زبان سے جو دھما چوکڑی مچائی ہے اُس کی پُشت پر یہ ''فلسفہ‘‘ کام کر رہا ہے کہ سیاست کے بڑے بلاول کی باتوں کے جواب میں کچھ کہنے سے گریز کریں گے کہ کل کے بچے کو کیا جواب دیں۔ اور اگر چھوٹے میاں کبھی کچھ زیادہ ہی بول جائیں تو یہ کہتے ہوئے جان چُھڑائی جاسکتی ہے کہ یہ تو بچہ ہے جی، زبان کا کَچّا ہے جی! 
پیپلز پارٹی کا توپ خانہ فُل سوئنگ میں آتا جارہا ہے۔ بلاول زرداری نے آرٹلری کمانڈر کا منصب اختیار کرتے ہوئے مخالفین کے سُکون کا بَیڑا غرق کرنے کا بِیڑا اُٹھالیا ہے۔ بلاول کی ''گلابی‘‘ اُردو نے قوم کو وہ زمانہ یاد دلادیا ہے جب اُن کی مرحوم والدہ بھی ایسی ہی معصوم سی اُردو میں اظہارِ خیال فرماکر بہت سے ہونٹوں کے لیے مسکراہٹ کا سامان کیا کرتی تھیں! پیپلز پارٹی کے پردۂ زنگاری میں بیٹھا ہوا ''معشوق‘‘ جو اسکرپٹ تحریر کر رہا ہے‘ وہ ایک بچے کو وقت سے بہت پہلے بالغ بنا رہا ہے۔ اِس حرکت کو کسی بھی طور بالغ نظری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہم جیسے بہت سے قلم باز تو چاہیں گے کہ بلاول روز کچھ کہیں اور قلم گھسیٹنے کی سبیل نکلے مگر بلاول پر ترس آتا ہے کہ جو عہدِ جوانی اُنہیں مغرب کے رنگین گلیاروں میں ہیلووین پارٹیز کو انجوائے کرتے ہوئے گزارنا چاہیے وہ پاکستانی سیاست کے خار زاروں میں گزارنا پڑ رہا ہے! ہیوی ویٹس کے مقابل فیدر ویٹ کو رِنگ میں اُتارنا خاصی گھریلو قسم کی بے ایمانی محسوس ہوتی ہے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں