"MIK" (space) message & send to 7575

… جلسوں میں اٹکے!

سب کچھ بدل ڈالنے کی ہوا کچھ ایسی ادا سے چلی ہے کہ اب وبا کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ فرسودہ نظام کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے دعووں میں تھوڑا بہت دم ضرور ہے کیونکہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں لگائے جانے والے خوش رنگ پودوں کی جڑیں اُکھڑ چکی ہیں، سبزے نے کچرے کے ڈھیر میں مُنہ چھپا لیا ہے۔ احتجاج اور دھرنوں کی لالی چل دی ہے تو ریڈ زون کی ہریالی بھی رُخصت ہو چلی ہے۔ کل تک جو چیز جتنی خوبصورت تھی وہ اب اُتنی ہی بدنما دکھائی دیتی ہے۔ لوگوں کو یقین ہو چلا ہے کہ اب ملک میں کوئی نہ کوئی بڑی تبدیلی آ کر رہے گی کیونکہ ریڈ زون اپنی رنگت اور ''رونق‘‘ سے محروم ہو چلا ہے۔ 
قوم نے سوچا تھا کہ دو چار دن کے دھرنے ہیں، ختم ہوں گے تو پھر وہی شب و روز ہوں گے۔ مگر دھرنے تو کِھنچتے ہی چلے گئے۔ ریڈ زون میں جو کچھ ہوا وہ دنیا بھر کی توجہ پاکستان کی طرف منعطف کرنے کے لیے کافی تھا۔ اب ہم ایسے ہی معاملات کے ذریعے توجہ پا سکتے ہیں۔ دنیا حیران تھی کہ یہ کیسا ملک ہے جو اپنے دارالحکومت کو احتجاج کرنے والوں کے حوالے کرنے پر رضامند ہے۔ دھرنوں نے طول پکڑا تو قوم دست بہ دعا ہوئی کہ دھرنوں کا عذاب ٹلے تو کچھ بہتری آئے، معاملات درستی کی طرف گامزن ہوں۔ 
قوم کی دعا قبول تو ہوئی مگر اِس طور کہ مزید دعاؤں کی ضرورت کو جنم دے گئی۔ اسلام آباد میں دھرنوں کا زور ٹوٹا تو قوم نے سکون کا سانس لیا مگر سکون کا یہ سانس چند ساعتوں کے لیے ہی تھا۔ ذرا سی دیر میں قوم کو اندازہ ہو گیا کہ دھرنوں کا زور ٹوٹا نہیں بلکہ اُس کی شکل بدل دی گئی ہے۔ احتجاجی تحریک کو کسی نہ کسی شکل میں ملک گیر بنانے کا عمل شروع کر دیا گیا۔ جو احتجاجی فلم اب تک صرف ریڈ زون کے تھیٹر میں چل رہی تھی اُسے اب ملک بھر کے کھلے میدانوں اور اسٹیڈیمز میں ریلیز کر دیا گیا ہے۔ 
نظام کو بدلنے کی دعویدار جماعتوں نے اب جلسوں کی راہ پر گامزن ہونے کی ابتدا کی۔ تحریک انصاف نے کراچی، لاہور اور ملتان میں کامیاب جلسے کئے ہیں۔ اِن جلسوں کی حاضری دیکھ کر عوامی تحریک کے منہ میں بھی پانی بھر آیا۔ جلسوں کی راہ پر ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی فیصل آباد سے سفر کی کامیاب ابتدا کی ہے۔ 
دو سیاسی جماعتوں نے جب کامیاب جلسے کر لیے تو ظاہر ہے قومی سیاست میں ''طاقت کا توازن‘‘ تو بگڑنا ہی تھا۔ اور اِسے درست کرنے کے لیے دوسروں کو بھی میدان میں آنا ہی تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ سیاست کا سارا ''رونق میلہ‘‘ بس تحریک انصاف یا عوامی تحریک کو لوٹنے دیا جاتا؟ لیجیے، جلسوں کی ریس شروع ہو گئی۔ پیپلز پارٹی پر فرینڈلی اپوزیشن کا الزام اِس شدت اور تواتر سے لگایا گیا کہ حالات دیکھ کر اُس کے خون نے بھی جوش مارا اور اُسے بھی جلسے کی چھابڑی سَر پر سجائے اپنا مال بیچنے عوامی طاقت دکھانے کے بازار میں آنا پڑا۔ کراچی کے جلسے کے لیے پیپلز پارٹی نے جو زبردست تیاریاں کی ہیں وہ بہت سے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات کو جنم دے رہے ہیں۔ سوال صرف جلسہ کرنے کا نہیں تھا، پیپلز پارٹی کو طاقت کا بھرپور اظہار کرنا تھا اور اظہار بھی ایسا کہ تحریک انصاف والے دانتوں تلے انگلیاں داب کر رہ جائیں اور قوم بھی حیران و پریشان ہو کر سوچے کہ پیپلز پارٹی کا ''جلسائی‘‘ گراف کہاں جا پہنچا ہے۔ 
قوم تبدیلی چاہتی ہے۔ سب کی خواہش ہے کہ اشرافیہ اپنی چال بدلے اور راستہ بھی۔ جو لوگ کم و بیش سات عشروں سے ملک پر حکومت کر رہے ہیں اور سیاہ و سفید کے مالک ہیں اُنہیں بہت سے معاملات میں احساس دلانے، کچھ یاد دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر اِس کوشش کی قیمت اچھی خاصی ہے۔ ایک طرف وہ ہیں جن پر جمہوریت کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔ اور دوسری طرف وہ ہیں جو جمہوریت کو بچانے کے دعویدار ہیں۔ ہاتھیوں کی اِس لڑائی میں گَنّے پِس رہے ہیں۔ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ اُن کا قصور کیا ہے۔ اپوزیشن کی غزل اور حکومت کی طرف سے جوابِ آں غزل نے عوام کا قافیہ تنگ کر دیا ہے۔ سیاسی چَکّی چل رہی ہے اور آپ کو بھی یاد تو ہو گا کہ کبیر داس کہہ گئے ہیں ع 
دو پاٹن کے بیچ میں باقی بچا نا کوئے 
مڈ ٹرم الیکشن کا امکان دکھائی دے رہا ہے‘ نہ ری الیکشن کا، مگر موقع شناسوں نے انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔ بڑبولے پن سے نام کمانے والے تبصرہ باز جلسوں کی بھرمار کو نئے انتخابات کی آمد سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ جلسوں کی تہہ سے انتخابات اُچھل کر دم لیں گے۔ 
لوگ حیران ہیں کہ یہ کیا اُفتاد آن پڑی ہے۔ سٹریٹ پاور کا مظاہرہ کرنے پر کمر بستہ جماعتوں نے چھوٹے بڑے شہروں کا ناطقہ بند کرنے کی قسم کھا لی ہے۔ سبھی جلسوں کے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ جن سے قوم کا تھوڑا سا بھی بھلا نہیں ہو پاتا وہ سٹریٹ پاور دکھانے کے لیے جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ جلسوں کی دوڑ شروع ہو چکی ہے اور کوئی بھی اِس دوڑ میں ایک قدم پیچھے رہنے کے لیے تیار نہیں۔ جلسوں کو ہر قیمت پر یعنی خاصی بھاری قیمت پر کامیابی سے ہمکنار کرنا سب سے بڑا سیاسی نصب العین ٹھہرا ہے۔ ہر جلسے کو قومی رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور یہ مجبوری بھی ہے۔ اگر مقامی طور پر زیادہ لوگ جمع نہ ہو پا رہے ہوں تو دور افتادہ مقامات سے لوگ بلانے میں ہرج نہیں۔ ایسے میں پیسے کا منہ کون دیکھتا ہے۔ احتجاجی دریا کو ہر حال میں بہنا ہے۔ اور ؎ 
دریا کو اپنی موجوں کی طغیانیوں سے کام 
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے! 
جلسوں کے لیے دوسرے صوبوں، بلکہ ملک بھر سے لوگ بُلائے اور لائے جا رہے ہیں۔ 
یہ ساری دھماچوکڑی دیکھ کر کبھی کبھی یونہی، بے وقوفانہ سا خیال ذہن کے پردے پر اُبھرتا ہے کہ سیاسی جماعتیں جتنی محنت جلسوں پر کر رہی ہیں اگر اُس کا دسواں حصہ بھی عوام کی خدمت پر صرف کریں تو اُن غریبوں کا کچھ بھلا ہو جائے۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ ایسے خیالات ذہن میں اُبھرنے پر ہم اپنی نظر میں شرمندہ ہوتے ہیں اور سیاسی جماعتوں سے غائبانہ معافی مانگتے ہیں! اچھی خاصی سیاست میں عوام کی بہبود کا ذکر چہ معنی دارد؟ عوام کا بھلا کرنے کی نِیّت ہے کس کی؟ اور اگر ہو بھی تو عمل کچھ اور ہی کہانی سُنا رہا ہے۔ پھر ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ اگر نِیّت درست ہے تو اُس پر عمل تکلیف دہ کیوں ہے؟ عوام کا بیڑا پار کرنے کے دعوے دار مزید غرقابی کی راہ کیوں ہموار کر رہے ہیں؟ قوم کے لیے سہولتیں پیدا کرنے کی کوششیں مزید مشکلات کا ماخذ کیوں ثابت ہو رہی ہیں؟ 
قوم کا معاملہ تو یہ ہے کہ دھرنوں سے گری ہے تو اب جلسوں میں اٹک گئی ہے۔ کل تک دارالحکومت کا ریڈ زون جام تھا، اب ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہر جام ہوتے جا رہے ہیں۔ سٹریٹ پاور دکھانے کا جُنون سیاسی جماعتوں کے سَر پر یُوں سوار ہوا ہے جیسے آنکھوں میں خُون اُتر آیا ہو۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی حد تو ہوتی ہی ہے۔ بے موسم کے جلسوں کی بھی کوئی نہ کوئی حد ضرور ہونی چاہیے۔ جلسوں اور جوابی جلسوں کے پاٹوں کے بیچ عوام کو کچلنے سے گریز کیا جائے۔ جلسے طاقت دکھانے کے لیے ہوتے ہیں مگر تب کہ جب ایسا کرنے کی ضرورت ہو۔ بے وقت کی راگنی سے لوگوں کی سماعت کا بیڑا غرق نہ کیا جائے۔ سٹریٹ پاور کا کارڈ شو کرنے کے شوق میں عوام کا جینا مزید دُوبھر کرنے سے گریز کیا جائے۔ جو حکمرانی کے شوقین اور عادی ہیں وہ یہ تو سوچیں کہ جن پر حکمرانی کرنی ہے وہی نہ رہے تو حکمرانی کا شوق کہاں پورا کریں گے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں