ایک بار پھر سندھ کا سیاسی پینڈورا بکس کھل گیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان مناقشے نے میڈیا پر رنگ جمانا شروع کردیا ہے۔ بیانات و الزامات کی دیگ کو دَم دے کر تیار رکھا گیا تھا۔ اب حالات کا اشارا پاتے ہی اِس دیگ کا مُنہ بھی کھول دیا گیا ہے۔ جوش و جذبے کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ ماحول کچھ اِس طرح بنا ہے کہ میڈیا والوں کی تو دِلی مُراد بر آئی ہے۔ اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں۔
اہلِ سیاست کا اِضافی کرم ہے، احسان ہے کہ اُنہوں نے ''باوثوق ذرائع‘‘ تلاش کرنے کی زحمت سے بھی ہمیں چُھڑا دیا ہے۔ اب ایسا کیا ڈھکا چُھپا ہے جسے طشت از بام کرنے کی خاطر کوئی مستند ذریعہ تلاش کیا جائے! سیاست کے بازار کی رونق جن کے دَم سے ہے اُنہوں نے سبھی کچھ تو بے نقاب کر ڈالا ہے۔
سندھ اسمبلی کے فلور پر الزامات کے گولے داغے جارہے ہیں۔ تُند و تیز بیانات کی ''بااشتعال‘‘ فائرنگ سے ایک دوسرے کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ سیاسی لائن آف کنٹرول کا مسئلہ یہ ہے کہ اِس کی خلاف ورزی کے معاملے میں سبھی آؤٹ آف کنٹرول ہونے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ بیانات و الزامات کا کوئی کنٹرول ریٹ مقرر نہیں۔ فوجوں میں اِتنا شعور تو بہرحال پایا جاتا ہے کہ کب، کیا اور کتنا کرنا ہے!
سید خورشید شاہ نے ''مہاجر‘‘ والا بیان داغا تو ایم کیو ایم بھی کَمر کَس کر میدان میں آگئی۔ ؎
غزل اُس نے چھیڑی، مجھے ساز دینا
ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے تعلقات کی عمرِ رفتہ ضروری و غیر ضروری مناقشوں ہی سے تو بھری ہوئی ہے۔ ایک فریق کسی معاملے میں شکوہ کرکے ابتدا کرتا ہے تو فریقِ ثانی ''جوابِ شکوہ‘‘ کے نام پر ہوش کھوکر اِس ابتدا کو انتہا میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس کے بعد وہ تماشا کھڑا ہوتا ہے کہ دونوں طرف کے لوگ ذرا سی دیر میں اللہ سے پناہ چاہنے لگتے ہیں! کبھی کبھی پورے معاملے پر بیت بازی کا گمان ہوتا ہے۔ ہر فریق کی کوشش ہوتی ہے کہ مَدِ مقابل کا قافیہ تنگ کردے!
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا تعلق ہر دور میں نشیب و فراز سے ''آراستہ و پیراستہ‘‘ رہا ہے۔ اِس تعلق کی راہ میں متلوّن مزاجی کی کئی منزلیں گزر چکی ہیں۔ جُدائی کے بغیر مِلن میں خاک لطف آئے؟ اور مِلن ہی نہ ہو تو جُدائی کب تک سہی جائے؟ اپنے اپنے ووٹ بینک کو ہر حال میں intact رکھنے کے لیے دونوں جماعتوں نے سیاسی رزم آرائی کے کئی ٹرینڈز متعارف کرائے ہیں۔ اُنہیں خوب اندازہ ہے کہ پیاس کب کتنی بھڑکانی ہے اور کب کتنی بُجھانی ہے۔ دونوں طرف کے لوگ بھی اپنی اپنی پارٹی کے مزاج آشنا ہوچکے ہیں۔ شدید اختلافات کو وہ اختلافات نہیں گردانتے یعنی زیادہ خوفزدہ نہیں ہوتے اور بھرپور ہم آہنگی سے بہلتے نہیں یعنی جانتے ہیں کہ ذرا سی دیر میں کیفیت یہ ہوگی کہ ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا!
ہوا کا رُخ دیکھ کر لوگ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ غُبار کِدھر کا ہے اور کِس طرف جائے گا۔ سبھی جان لیتے ہیں کہ ہم آہنگی کب overdose میں تبدیل ہوگی اور کب اختلافات کے بچھڑے کو سینگوں سے پکڑ کر پچھاڑا جائے گا! اب ایک بار پھر وہی کیفیت پیدا ہوچلی ہے جو 1980 کی فلم ''نقشِ قدم‘‘ کے ایک گانے کے مُکھڑے میں مرحومہ مہناز بیگم اور مرحوم اسد امانت علی خاں نے بیان کی تھی۔ ؎
ہم اِک دوسرے سے خفا ہو کے دیکھیں
بہت مل چکے، اب جدا ہو کے دیکھیں!
بیانات و الزامات کی توپوں کے دہانے کھلے ہیں تو ایک بار پھر اٹکل کے گھوڑے دوڑانے والے سیاسی مبصرین کی چاندی ہوگئی ہے۔ ؎
نوازش، کرم، شکریہ، مہربانی
مُجھے بخش دی آپ نے زندگانی
کا راگ الاپتے ہوئے لکھنے والے قلم کے گھوڑے دوڑانے میں اور بولنے والے زبان کے شعلے لپکانے میں مصروف ہیں۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا تعلق انگور کے دانے جیسا رہا ہے۔ تھوڑا کھٹّا، تھوڑا میٹھا۔ کبھی کھٹاس بڑھ جاتی ہے اور کبھی مٹھاس بازی لے جاتی ہے۔ کبھی کبھی جب یہ دونوں جماعتیں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے زیادہ دور ساتھ چلتی دکھائی دیتی ہیں تو ''باپردہ‘‘ قوتیں حرکت میں آجاتی ہیں اور انگور کے دانے کو بادام کے کڑوے دانے میں تبدیل کردیا جاتا ہے! اور جب کبھی تلخیاں بہت بڑھ جاتی ہیں تب شیرینی کا گراف تھوڑا بلند کردیا جاتا ہے تاکہ متعلّقین کی تمام اُمیدیں مایوسی کی تلخی میں غرق ہوکر نہ رہ جائیں!
سندھ اسمبلی میں گرما گرمی کا بازار ابھی گرم ہوا ہی تھا کہ سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے انٹری ڈالنے کی کوشش کی۔ موصوف نے بہت چاہا کہ اُبال آنے سے پہلے ہی پتیلی کو چولھے سے اُتار لیں۔ نائن زیرو جاکر معاملات کو زیرو پر لاکر ڈی فیوز کرنا چاہا مگر ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے رابطے پر رضامندی ظاہر نہ کی۔ سابق وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ فی الحال پارٹی یعنی پیپلز پارٹی کے لوگوں کو بیان دینے سے روک رکھا ہے۔ بہت خوب! اگر واقعی ایسا ہے تو پھر یومیہ بُنیاد پر داغے جانے والے الزامی بیانات کِس کھاتے ہیں ڈالے جانے چاہئیں؟ مزید فرمایا کہ گھروں میں تو ناچاقی ہوتی رہی رہتی ہے اور ناراضی بھی چلتی رہتی ہے۔ رحمن ملک کا ''استدلال‘‘ سَر آنکھوں پر مگر وہ اِس امر کی بھی تو وضاحت فرمادیں کہ اِس ناچاقی اور ناراضی کا بُھگتان عوام کیوں کریں؟ سارے کام کِس کھاتے میں رُکے ہوئے ہیں؟
سندھ میں پیپلز پارٹی کے اقتدار کا تسلسل برقرار ہے۔ پانچ سال مزے سے گزارے۔ اب پھر سوا سال گزر چکا ہے۔ مگر حالت یہ ہے کہ ؎
کوئی اُمّید بَر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
عوام سوچتے سوچتے تھک چکے ہیں کہ یہ سیاسی بکھیڑا کب اور کیسے ختم ہوگا۔ جب اِنسان کے بس میں کچھ بھی نہیں رہتا تو وہ اپنے حال پر ہنس لیتا ہے۔ مگر اب یہ منزل بھی گزرچکی ہے۔ ؎
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی!
کچھ نئی بات نہیں۔ کم و بیش پچیس برس سے دو سندھ ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ اور جب ساتھ ساتھ ہی چلنا ہے تو ریل کی پٹڑیوں جیسا فاصلہ کیوں کہ مل ہی نہ سکیں؟ کاندھے سے کاندھا ملاکر چلنے میں کیا ہرج ہے؟ دیہی اور شہری سندھ کے اسٹیک ہولڈرز کے لیے بہترین اور کارگر آپشن تو یہی ہے کہ پورے صوبے کے اجتماعی اسٹیک کا سوچیں۔ یہ سوچ آئے گی تو عوام کا سوچ سوچ کر پریشان ہونا ختم ہوگا۔ انگور کے دانے کو کڑوے بادام میں تبدیل ہونے سے روکنے کی پائیدار تدبیر اِن فطری حلیفوں اور ناگزیر اتحادیوں کو مل کر کرنی ہے۔ ایسا نہ ہوا تو کوئی نہ کوئی تھرڈ پارٹی درشن دے گی۔ مگر یاد رہے کہ یہ تھرڈ پارٹی مِلانے نہیں، فرسٹ اور سیکنڈ پارٹی کو اپنے مقام سے ہٹانے، ہٹانے آئے گی!