ایک ہفتہ ہوچکا ہے، مرزا تنقید بیگ خاصی مقبوضہ حالت میں ہیں یعنی قبض نے اُن کے معدے اور دِل و دماغ پر قبضہ کر رکھا ہے! چہرے پر ہر وقت ایسا کِھنچاؤ رہتا ہے کہ لوگوں کو اُن پر فلسفی یا دانشور ہونے کا گمان ہونے لگا ہے! حال پوچھیے تو مشتعل ہو اُٹھتے ہیں، بتیانے کی کوشش کیجیے تو کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔ وہ جب بھی کسی عارضے میں مبتلا ہوتے ہیں تو قابل دید اور قابل داد ہوتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ کسی عارضے میں مبتلا نہیں ہوتے بلکہ عارضہ اُن میں مبتلا ہوتا ہے!
سیاست کی کشتی بیچ دریا میں ٹھہر گئی ہے۔ درجۂ حرارت خاصا بلند تھا مگر اب موسم میں خُنکی پیدا ہوتے ہی وہ بھی نیچے آرہا ہے۔ مرزا اِس کیفیت سے بہت پریشان ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ مِرزا نے خاصا ''قاضیانہ‘‘ مزاج پایا ہے۔ محاورہ ہے کہ قاضی جی دُبلے کیوں؟ اندیشہ سارے شہر کا! یہ حال مِرزا کا ہے۔ اُنہوں نے بھی سارے شہر کے اندیشے پال رکھے ہیں۔ رات دن طرح طرح کے اندیشوں کو جسم و جاں کا حصہ بنائے رہتے ہیں۔ دِل میں اگر خدشات اور وسوسوں نے گھر کرلیا ہو تو اِنسان کب اپنے حواس میں رہتا ہے؟ ذہن میں جب میں اندیشوں اور خدشات کا گوبر بھرا ہوا ہو تو تعفّن کا اُٹھنا لازمی امر ہے۔
ہم نے کئی بار (اپنا) پھوڑا ہے یعنی مرزا کو سمجھانے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ بہتر ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ انسان تھوڑا سا بے حِس ہوجائے یعنی گرد و پیش کے بارے میں زیادہ نہ سوچے بلکہ ہوسکے تو اِدھر اُدھر کم کم ہی دیکھے۔ بہت سے معاملات میں نابینا سا بن جانا ہی قرینِ عقل ہے! مگر وہ مِرزا ہی کیا جو سمجھ جائیں۔
طاہرالقادری جب ملک میں تھے اور مخالفین کے سینے پر مونگ دَل رہے تھے تب مِرزا کی تشویش کا گراف ساتویں آسمان پر تھا۔ بات فطری تھی۔ طاہرالقادری نے قوم پر بالعموم اور حکومت پر بالخصوص ''وختا‘‘ ڈالا ہوا تھا۔ ہر ذی نفس حیران و پریشان تھا کہ کرے تو کیا کرے، سیاسی بحران کے ضمنی اثرات سے کیسے نمٹے؟ ایسے میں مِرزا کا تشویش اور فکر میں مبتلا ہونا کچھ حیرت انگیز نہ تھا۔ طاہرالقادری کے پیدا کردہ بحران کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، یہ سوچ سوچ کر مِرزا رات دن مُبتلائے قبض رہا کرتے تھے! تب اُن سے بات کرنے میں جان کا جوکھم تھا۔ کاٹ لیتے تو جان بچانے کے لیے ٹیکے بھی مشکل سے ملتے!
اور اب طاہرالقادری مغرب سِدھار چکے ہیں تب بھی مِرزا کی پریشانی کا گراف ساتویں آسمان ہی پر ہے۔ کس میں اِتنا جگرا ہے کہ مِرزا کو سمجھانے کا خطرہ مول لے؟ وہ کسی کی بات مانیں گے تو تب جب سُنیں گے۔ اُنہیں کچھ سُننے پر آمادہ کرنا ایسا کمال ہے جو اب تک بھابی صاحبہ کے سِوا کسی کے پاس نہیں!
کل کی نشست میں ہم پھر پُرانی ڈگر پر گامزن ہوئے یعنی مِرزا کو سمجھانے کی کوشش کی کہ جو کچھ اسلام آباد کے ریڈ زون میں ہوتا رہا ہے اُس کے بارے میں زیادہ سوچنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ معاملہ اب سوچنے سے آگے کی منزل میں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوتے رہنے کے بجائے انسان صورت حال پر ایک آدھ نظر ڈال کر آنکھوں پر پلکیں گِرالے یا پھر دیکھتے ہوئے بھی نابینا بن جائے۔
ہمارے مشورے کو، حسبِ معمول، انتہائی ناگفتہ بہ الفاظ کے ذریعے ''خراج تحسین‘‘ اور ہماری عقل کو''خراج عقیدت‘‘ پیش کرتے ہوئے مِرزا نے کہا، ''تم جیسے بے حِس لوگوں کے تعلق رہنے سے ملک اِس حال کو پہنچا ہے۔ صرف دیکھتے رہنے سے معاملات کو درست کرنے کی راہ کبھی ہموار نہیں ہوتی۔ ریاست اُس وقت پنپتی ہے اُس کا ہر باشندہ اپنا کردار پوری ایمانداری اور جاں فشانی سے ادا کرتا ہے۔‘‘
ہم نے مِرزا کی خود کلامی کے گھوڑے کو لگام دینے کی کوشش کرتے ہوئے وضاحت چاہی کہ ریاست کے ہر باشندے سے ہو کس طرح کے کردار کی توقع رکھتے ہیں تو وہ بولے، ''جمہوریت کے لیے سب کو میدان میں آنا ہوگا۔ احتجاج کیے بغیر کسی کو حق نہیں ملتا۔ طاہرالقادری نے جو احتجاج کیا وہ اگرچہ بعض معاملات میں سُوئِ ظن کی طرف بھی لے جاتا ہے مگر بہر کیف، قوم کو اپنا احتجاج ریکارڈ تو کرانا ہے۔‘‘
ہم حیران رہ گئے۔ مِرزا تو طاہرالقادری کے ہاتھوں واقع ہوتے والے دھرنے سے پریشان تھے۔ اب کیوں احتجاج کی وکالت کر رہے ہیں؟ جس دھرنے نے مِرزا کے دِل و دِماغ اور حواس کو یرغمال بنا رکھا تھا اب وہ اُسی دھرنے کی وکالت کیوں کر رہے ہیں؟ کہیں یہ ''اسٹاکہوم سِنڈروم‘‘ والا معاملہ تو نہیں؟ گویا ع
جو بھی نمک کی کان میں پہنچا، نمک ہوا!
مِرزا کا جواب تھا، ''تم جیسے لوگ تو بس اٹکل کے گھوڑے دوڑاتے رہتے ہیں۔ زمینی حقائق دیکھنے کی زحمت تم کبھی گوارا نہیں کرتے۔ ہم بھی یہی سوچتے تھے کہ احتجاج میں کیا رکھا ہے۔ اب محسوس ہوتا ہے کہ احتجاج نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے۔ طاہرالقادری دھرنا دیے ہوئے تھے تو ذہن میں اُلجھن سی تھی۔ اب وہ نہیں ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ قوم کے جسم سے جان ہی نکل گئی ہے۔ جیسے جینے میں کچھ رہا ہی نہیں۔ ہر طرف بے رونقی سی ہے۔ ایک محفل ہے کہ اُجڑ گئی ہے، ایک باغ ہے کہ خزاں رسیدہ ہوچلا ہے۔ کوئی ویرانی سی ویرانی ہے!‘‘
ہم نے عرض کیا کہ مِرزا! اللہ سے کچھ تو ڈریں۔ لوگ احتجاج کے ہاتھوں ہونے والے نقصان کو اب تک رو رہے ہیں اور آپ کو رونق میلے کی فکر لاحق ہے!
مِرزا نے تپ کر جواب دیا، ''قوم کو کب کسی نقصان کی فکر لاحق ہے؟ یہ تو تم جیسے لوگ بار بار یاد دلاتے ہیں تو قوم کو اپنے ہونے کا اپنے نقصان کا احساس ہوتا ہے۔ قوم اچھی خاصی مستی و سرخوشی سے سرشار ہے مگر جب محفل رنگ پہ آنے لگتی ہے تب تم جیسے لوگ اُس کا سُندر سپنا توڑے دیتے ہیں! یعنی سارا مزا کِرکِرا کردیتے ہو۔ اب قوم کو جگاکر کرنا کیا ہے؟ بیداری کی حالت میں کون سے لڈو پیڑے مل جاتے ہیں؟ اچھا ہے کہ خواب کی سی کیفیت طاری رہے اور گرد و پیش کے غم حواس پر طاری نہ ہوں!‘‘
ہم معترض ہوئے کہ یہ تو سراسر خود فراموشی ہے۔ ایسا کرنے سے تو کسی کو اپنے نفع و نقصان کی فکر لاحق ہی نہیں ہوگی۔ یہ تو سراسر انفراد اور اجتماعی زیاں ہے۔ مرزا تُنک کر بولے، ''پوری قوم کی ٹھیکیداری چھوڑو۔ اپنے کام سے کام رکھو یعنی قلم گِھس کر صاف سُتھرے صفحات سیاہ کرتے رہو۔ مگر کچھ ایسا لِکھو کہ قوم کی سرخوشی و سرمستی میں اضافہ ہو۔ انٹ شنٹ لِکھ کر قوم کا میٹر مت گھماؤ۔‘‘
ہم سمجھ گئے کہ ماحول مِرزا پر بُری طرح اثر انداز ہوچکا ہے بلکہ اُنہیں لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اُنہیں تو عام حالت میں سمجھانا دردِ سر ہے۔ ایسے بھرپور عالم میں تو وہ بارہ مسالے کی چاٹ بن جاتے ہیں۔ جو سمجھانے کاجوکھم اُٹھائے اُس کے دِماغ کی واٹ لگ جاتی ہے۔
ہم طاہرالقادری کی صلاحیت کا لوہا مان گئے۔ اُنہوں نے مِرزا جیسے اپنے کٹّر مخالف کو بھی اپنا کرلیا ہے۔
احتجاج کے معاملے میں ہم ایک مِرزا کو کیا روئیں؟ اب تو پوری قوم ہی احتجاج پسند ہوتی جارہی ہے۔ سبھی کو جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں میں لَذّت محسوس ہونے لگی ہے۔ اگر کچھ دن کوئی جلوس نہ نکلے، کہیں دھرنا نہ دیا جائے تو ذہن میں وسوسے پنپنے لگتے ہیں۔ سیاسی میدان کا کچھ دن خالی رہنا طوفان سے پہلے کی خاموشی جیسا دکھائی دیتا ہے۔ حالات کی مہربانی سے ہم اُس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہر مصیبت مزا دینے لگتی ہے۔ لگتا ہے قوم کی نفسی ساخت کو خارش ہوگئی ہے اور کھُجانے سے لطف کشید کیا جارہا ہے!